اگر دوران نماز وضو ٹوٹ جائے

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : دوران نماز اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ وہ نماز مکمل کر لے یا وضو کر کے نئے سرے سے نماز پڑھے؟
جواب : نماز کے لیے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جب وضو ٹوٹ جائے تو نمازی کو نماز چھوڑ کر چلے جانا چاہئیے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہئیے۔ بےوضو ہونے والا اگر امام ہے تو پیچھے سے کسی کو آگے کھڑا کر کے چلا جائے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز ابتدا سے شروع کرے نہ کہ جہاں سے چوڑی تھی وہاں سے۔
سیدنا علی بن طلیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” إذا فسا احدكم في الصلاة، فلينصرف فليتوضا، وليعد الصلاة ” . [ابو داود، كتاب الطهارة، باب فيمن يحداث فى الصلاة : 205، ترمذي : :1164، 1166۔ عبدالرزاق 139/1۔ ابن حبان : 203۔ دارقطني : 153/1]
یہ حدیث حسن ہے۔
”جب تم میں سے کوئی نماز میں اپنی ہوا خارج کرے تو وہ واپس جا کر وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑ ھے۔“
علمائے احناف کے ہاں مسئلہ یوں ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ چلا جائے اور وضو کر کے آئے اور اگر اس نے نماز کے منافی کوئی حرکت نہیں کی تو جہاں سے نماز چھوڑی تھی، وہیں سے ابتدا کرے، نئے سرے سے نماز ادا نہ کرے اور دلیل میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں:
عن عائشة، قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من اصابه قيء او رعاف او قلس او مذي، فلينصرف، فليتوضا، ثم ليبن على صلاته وهو فى ذلك لا يتكلم [ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها : باب ما جحاء فى البناء على الصلاة : 1221]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جسے قے، نکسیر، پیٹ کا کھانا یا مذی آ جائے تو وہ چلا جائے، وضو کرے اور اپنی نماز پر بنا کرے بشرطیکہ اس نے اس دوران کلام نہ کیا ہو۔ “
یہ روایت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”بلوغ المرام“ میں فرمایا ہے : ضعفه احمد وغيره (اس حدیث کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ) لہٰذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نئے سرے سے وضو کرے اور ابتدا سے نماز پڑھے کیونکہ وضو نماز کے لئے شرط ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 40 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply