نماز میں خشوع و خضوع کا طریقہ
سوال : میری نماز میں خشوع و خضوع اور حضور قلبی نہیں ہوتا مجھے نماز میں خشوع پیدا کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ؟
جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کامیاب مومن بننے کے لیے نماز میں عجز وانکسار اور خشوع وخضوع کی ضرورت ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
”یقیناًً فلاح و کامیابی ان ایمان والوں نے پائی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔“ [المومنون : 2/1]
نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے کئی ایک طریقے ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں :
➊ انسان کو نماز کا معنی و مفہوم سیکھنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اور کر رہا ہے اس کو سمجھے، قرأت، دعا، ذکر و اذکار کے الفاظ و معانی پر غور کرے اور ذہن میں یہ بات ہو کہ میں یہ عبادت کرتے ہوئے اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور اپنے رب سے محو گفتگو ہوں جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں احسان کا معنی بتلایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو کم از کم یہ خیال ضرور رہے کہ اللہ تعالیٰ تو مجھے دیکھ رہا ہے۔“ [بخاري، كتاب الايمان : باب سؤال جبريل النبى عن الإيمان 50]
اس طریقے سے انسان نماز کی لذت کو محسوس کرے گا اور یوں نماز آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“ [مسند أحمد 128/3، 199، 285، حاكم 160/2]
لہٰذا نماز کے معنی ومفہوم سے آدمی کو باخبر رہنا چاہیے۔
➋ ایسی سوچ بچار کو دور کرنے کی کوشش کرے جو نماز میں آڑے آتی ہے، وساوسِ شیطانی کو دفع کرے تاکہ دل شہواتِ نفسانی سے نکل کر اللہ کی محبت میں اٹک جائے۔
➌ نماز پرسکون طریقے سے ادا کرے، جلد بازی سے کام نہ لے، جب تک نماز میں سکون و اطمینان نہ ہو نماز ادا نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث میں جو نماز میں رکوع و سجدہ صحیح ادا نہیں کرتا اسے نماز کا چور قرار دیا گیا ہے۔ [حاكم 229/1، مسند أحمد 310/5]
ایک حدیث میں رکوع و سجدہ میں ٹھونگے مارنے والے کو اس بھوکے آدمی کی طرح قرار دیا گیا ہے جو ایک دو کھجوریں کھاتا ہے اور یہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔ [صحيح ابن خزيمة : 332/1۔ طبراني كبير : 115/4]
➍ نماز کے اندر موت کو یاد کرے، جب موت یاد آئے گی تو نماز اچھے طریقے سے ادا کرے گا اور یہ یقین کر کے نماز پڑھے کہ اسے شاید اگلی نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے جیسا کہ مسند احمد، ابن ماجہ، المعجم لابن الاعرابی میں حدیث ہے اور شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
➎ نماز کی دعائیں اور اذکار زیادہ سے زیادہ یاد کرے اور مختلف نمازوں میں مختلف دعائیں اور اذکار جو احادیث میں وارد ہیں، پڑھے۔ کیونکہ ایک مختصر سی دعا جو یاد کی ہوتی ہے وہ آدمی کی عادت اور روٹین میں آ جاتی ہے پھر اس کا زبان پر ورد تو جاری ہوتا ہے لیکن دل فکر سے خالی ہوتا ہے یعنی ہماری نماز بطور عادت ہوتی ہے عبادت نہیں، جب نماز کے اذکار مختلف یاد ہوں گے اور بدل بدل کر پڑھے گا تو نماز میں دھیان اور توجہ رہے گی اور خشوع وخضوع حاصل ہوگا۔ نماز کے اذکار کے لیے راقم کی کتاب ”صلاۃ المسلم“ یا ”حصن المسلم“ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
➏ اگر نماز میں وسوسہ آ جائے تو اپنے بائیں جانب تھوک کر «اعوذ بالله» پڑھ لیں۔ [صحيح مسلم، كتاب الاسلام : باب التعوذ من شيطان الوسوسة فى الصلاة 2203، أحمد 216/4]
اس طرح شیطان جو نماز کو بھلا دیتا ہے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ (إن شاء اللہ)
➐ جس جگہ نماز ادا کرے اس جگہ نقش ونگار اور تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔ [صحيح مسلم، كتاب اللباس : باب تحريم تصوير صورة الحيوان 2107]
کیونکہ یہ اشیاء نماز سے توجہ ہٹا دیتی ہیں۔
➑ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں تاکہ نیکی کی رغبت ہو اور برے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کریں۔
➒ اگر حاجت تنگ کر رہی ہے تو پہلے حاجت کو جائے پھر نماز ادا کرے، کیوں کہ پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز ادا کرنا درست نہیں۔ [ابن ماجة، كتاب الطهارة وسننها : باب ما جآء فى النهي للحاقن أن يصلي 617]
➓ نیند کا غلبہ ہو تو پہلے نیند پوری کر لے پھر نماز پڑھے۔ [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين 786]
⓫ گفتگو کرنے والے آدمی کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب الصلاة إلى المتحدثين والنيام 694، حاكم 270]
⓬ دورانِ نماز نظر اِدھر اُدھر نہ گھمائے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب الالتفاق فى الصلاة 909]
⓭ اسی طرح کبھی رات کا قیام بھی کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو معمول بنا لیں، اس سے بھی خشیتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔ اگر مذکورہ بالا امور پر توجہ دی جائے تو اللہ کے فضل و کرم سے نماز میں خشوع نصیب ہو جاتا ہے، اللہ ہمیں ایسا نمازی بنائے کہ ہم اس کی بندگی صحیح نہج پر کر سکیں اور شیطانی وساوس اور عجز وانکسار سے دور کرنے والے ذرائع سے اللہ محفوظ فرمائے۔ «(آمين !) »
——————
نماز میں اعوذ باللہ پڑھنا
سوال : امام کے پیچھے تراویح پڑھتے وقت نیند یا کوئی دوسرا خیال آئے تو «اعوذ بالله» پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا:
”اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ شیطان میرے اور میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، وہ اسے مجھ پر خلط ملط کر دیتا ہے۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”وہ شیطان ہے جسے ”خنزب“کہا جاتاہے، جب تو اسے محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ یعنی «اعوذ بالله» پڑھ اور اپنی بائیں جانب تین بار تھوک۔“ میں نے ایسا کیا تو اللہ نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔“ [مسلم، كتاب السلام : باب التعوذ من شيطان الوسوسته 2203]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں اگر شیطان وسوسہ ڈالے تو «اعوذ بالله» پڑھ سکتے ہیں، اگر نیند کا ایسا غلبہ ہو کہ الفاظ کی پہچان مشکل ہو رہی ہو تو پہلے نیند پوری کر لیں پھر نماز پڑھیں اور اگر ایسا غلبہ نہیں تو نماز پوری کر لیں اور سستی و کاہلی دور کریں۔
نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سنوارنا
سوال : کیا نماز میں کپڑے درست کرنے اور بال سنوارنے سے متعلق حدیث میں کوئی ممانعت آئی ہے؟ آگاہ فرما دیں۔
جواب : نماز میں اطمینان و سکون کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور نماز کے ارکان کی ادائگی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ عام لوگوں کی جو عادت ہے کہ کبھی سر کے بالوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور کبھی داڑھی کے بالوں سے۔ نماز میں ایسے افعال سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«مرت ان اسجد على سبعة لا اكف شعرا ولا ثوبا » [بخاري كتاب الاذان : باب لا يكف ثوبه فى الصلاة 816]
”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں سے کھیلنا اور انہیں سمیٹنا درست نہیں ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
——————