معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب:
➊ ان روایتوں کے پیدا ہونے کا بڑا سبب یہ ہے کہ مقبولیت عام کی بنا پر یہ کام واعظوں اور میلاد خانوں کے حصہ میں آیا، چونکہ یہ فرقہ علم سے عموماً محروم ہوتا ہے اور صحیح روایات تک اس کی دسترس نہیں ہوتی اور ادھر گرمی محفل اور شور احسنت کے لئے اس کو دلچسپ اور عوام فریب باتوں کے بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی، اس لئے لامحالہ ان کو اپنی قوت اختراع پر زور دینا پڑا ان میں جو کسی قدر محتاط تھے انہوں نے ان کو لطائف صوفيانہ اور مضامین شاعرانہ میں ادا کیا، سننے والوں نے ان کو روایت کی حیثیت دیدی یا بعد کو ان ہی بیانات نے روایت کی حیثیت اختیار کر لی اور جو نڈر اور بےاحتیاط تھے، انہوں نے یہ پردہ بھی نہیں رکھا بلکہ ایک سند جوڑ کر انہوں نے براہ راست اس کو حدیث و خبر کا مرتبہ دیا۔ [زرقاني ج1ص 172 او خصائص سيوطي ج1 ص53 ]

حافظ سیوطی علامہ ابن جوزی کی کتاب الموضوعات کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
احدهما القصاص ومعظم البلاء منهم يحرى لانهم يريد وان احاديث تتفق وترقق و الصحاح يقل ليدهذا ثم أن الحفظ يشق عليهم ويتفق عدم الدين وهم يحضرهم جهال. [ آخر كتاب اللائي المصنوعه ص 249 ]
جھوٹی حدیثیں بنانے والوں میں ایک واعظوں کا گروہ ہے اور سب سے بڑی مصیبت ان ہی سے پیش آتی ہے کیونکہ وہ ایسی حدیثیں چاہتے ہیں جو مقبول عام اور موثر ہو سکیں اور صحیح حدیثوں میں یہ بات نہیں، اس کے علاوہ صحیح حدیثوں کا یاد رکھنا ان کو مشکل ہے اس کے ساتھ ان میں دینداری نہیں ہوتی اور ان کی محفلوں میں جاہلوں ہی کا جمع ہوتا ہے۔
چنانچہ فضائل و مناقب، عذاب و ثواب، بہشت دوزخ، وقائع میلاد اور معجزات و دلائل کا جو جعلی دفتر پیدا ہو گیا ہے وہ زیادہ تر ان ہی جاہلوں کا ترتیب دیا ہوا ہے۔
علامہ ابن قتیبہ المتوفی 276ھ تاویل مختلف الحدیث میں جو اب مصر میں چھپ گئی ہے، کہتے ہیں کہ احاد و روایت میں فساد تین راستوں سے آیا، معجملہ ان کے ایک راستہ واعظین ہیں۔
والقصاص فانهم يميلون وجوه العوام اليهم ويستدرون ماعندهم بالمناكير والغرائب والاكاذيب من الأحاديث ومن شان العوام القعود عند القاص ما كان حديثه عجيبا خار جدا عن فطر العقول وكان رقيقا يحزن القلوب ويستغرز العيون [ص356 ]
اور واعظین کیونکہ وہ عوام کا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کو لغو، منکر اور عجیب وغریب باتیں بیان کر کے وہ وصول کرتے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ اسی وقت تک ان واعظین کے پاس بیٹھتے ہیں جب تک وہ خارج از عقل باتیں یا ایسی مؤثر باتیں بیان کیا کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں اثر پیدا کریں اور ان کو رلائیں۔
——————

آپ کی برتری اور جامعیت کا تخیل :
➋ ان روایات کے پیدا ہونے کا دوسرا سبب یہ ہوا کہ مسلمانوں کے نزدیک آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام محاسن کے جامع ہیں، یہ اعتقاد بالکل صحیح ہے لیکن اس کو لوگوں نے غلط طور پر وسعت دے دی ہے اور انبیائے سابقین کے تمام معجزات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع کر دیا اور وہ اس انعقاد کی بدولت تمام مسلمانوں میں پھیل گئے، بیہقی اور ابونعیم نے دلائل میں اور سیوطی نے خصائص میں اعلانیہ دوسرے انبیاء کے معجزات کے مقابل میں ان ہی کے مثل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے ہیں اور ثابت کرنا چاہا ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تمام انبیاء کی تعلیمات کا اثر خلاصہ اور مجموعہ ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بھی تمام دیگر انبیاء کے معجزات کا مجموعہ ہیں اور جو کچھ عام انبیاء سے متفرق طور پر صادر ہوا، وہ تمام کا تمام مجموعاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس مماثلت اور مقابلے کے لئے تمام تر صحیح روایتیں دستیاب نہیں ہو سکتیں، اس لئے لوگوں نے ان ہی ضعیف اور موضوع روایتوں کے دامن میں پناہ لی، کہیں شاعرانہ تخیل کی بلند پروازی اور نکتہ آفرینی سے کام لیا۔ مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کو الله تعالیٰ نے تمام اسماء کی تعلیم کی۔ دیلمی نے مسند الفردوس میں روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام اسماء کی تعلیم دی۔ حضرت ادریس کے متعلق قرآن میں ہے کہ خدا نے ان کو بلند جگہ میں اٹھایا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی اس سے بھی آگے قاب قوسین تک ہوئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان کی دعا اگر قبول ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قحط کی دعا قبول ہوئی، حضرت صالح علیہ السلام کے لئے کوئی اونٹنی معجزہ تھی تو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ نے باتیں کیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں نہ جلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آتشیں معجزے صادر ہوئے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر اگر چھری رکھی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سینہ چاک کیا گیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام سے بھیڑئیے نے گفتگو کی۔ روایت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بھیڑیا ہم کلام ہوا۔ ابونعیم میں حکایت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حسن کو آدھا حصہ عطا کیا گیا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا حصہ دیا گیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کے لئے پتھر سے نہریں جاری ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی بہا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی معجزہ دکھاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں چھوہارے کا درخت بھی رویا اور چھوہارے کی خشک ٹہنی تلوار بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بحر احمر شق ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معراج میں آسمان و زمین کے درمیان کا دریائے فضا بیچ سے بھٹ گیا۔ یوشع کے لئے آفتاب ٹھہر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے آفتاب ڈوب کر نکلا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارہ میں کلام کیا تھا، یہ روایت وضع کی گئی کہ آپ نے بھی گہوارے میں کلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے پہلے تکبیر و تسبیح کی صدا بلند ہوئی۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لڑکی کو زندہ کر دینا
حضرت عیسی علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزه مردوں کو زندہ کرنا ہے اور صرف ان ہی کے ساتھ مخصوص ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی یہ معجزہ منسوب کیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی اس نے کہا جب تک آپ میری لڑکی کو زندہ نہ کر دیں گے میں ایمان نہ لاوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر آواز دی اور وہ زندہ نکل کر باہر آئی اور پھر چلی گئی۔ اسی طرح یہ روایت بھی گھڑی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بھی آپ کی دعا سے زندہ ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔
➌ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انبیاء کے گزشتہ صحیفوں میں آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیشین گوئیاں ہیں اور ان کے مطابق یہود و نصاریٰ کو ایک آنے والے پیغمبر کا انتظار تھا، اس واقعہ کو دروغ گو راویوں نے یہاں تک وسعت دی کہ یہودیوں کو دن تاریخ، سال وقت اور مقام سب کچھ معلوم تھا۔ چنانچہ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل علمائے یہود ان سب کا پتہ بتایا کرتے تھے اور عیسائی راہبوں کو تو ایک ایک خط و خال معلوم تھا بلکہ پرانے گھرانوں اور ویرانوں اور کنیسوں میں ایسی مخفی کتابیں موجود تھیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام حلیہ رکھا تھا اور اگلے لوگ ان کو بہت بہت چھپا کر رکھتے تھے بلکہ بعض دیروں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تک موجو تھی، توراۃ و انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض پیشین گوئیاں حقیقت میں موجود تھیں اور وہ آج بھی ہیں، لیکن وہ استعارات و کنایات اور مجمل عبارتوں میں ہیں ان کو ضعیف و موضوع روایتوں میں صاف صاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام و مقام کی تخصیص و معین کے ساتھ پھیلایا گیا۔
عرب میں بت خانوں کے مجاور اور کاہن تھے جو فال کھولتے تھے اور پیشین گوئیاں کرتے تھے، ان کا ذریعہ علم جنات اور شیاطین تھے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب ولادت کا زمانہ آیا تو عموماً بت خانوں سے اور بتوں کے پیٹ سے آوازیں سنائی دیتی تھیں،کاہن مقفی اور مسجع فقروں میں اور جنات شعروں میں یہ خبر سنایا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا زمانہ قریب آ گیا۔ ان کے ایک بادشاہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت میں پورا ایک قصیدہ منسوب کیا گیا۔ ملوک یمن، شاہان قاری اور قریش کے اکابر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، پتھروں پر اسم مبارک لوگوں کو منقوش نظر آتا تھا۔ قریش کا مورثِ اعلٰی کعب بن لوئی ہر جمعہ کو اپنے قبیلے کے لوگوں کو یکجا کر کے ان کے سامنے خطبہ دیتا تھا جس میں مسجع فقروں اور شعروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی خوشخبری ہوتی تھی۔ مکہ کے لوگ احبار اور راہبوں کی زبان سے محمد آپ کا نام سن کر اپنے بچوں کا یہی نام رکھتے تھے کہ شاید یہی پیغمبر ہو جائے۔ مدینہ کے لوگوں کو ان ہی یہودیوں کی زبانی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ شہر یثرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دارالھجرۃ ہوگا اسی لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورود کے منتظر تھے، سطیح کاہن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی میں ایک طویل افسانہ ہے لیکن اس دفتر کا بڑا حصہ موضوع اور جعلی ہے اور باقی نہایت ضعیف اور کمزور ہے اور ان میں جو ایک آدھ صحیح ہے وہ پہلے گزر چکا ہے۔
——————

شاعرانہ تخیل کو واقعہ سمجھ لینا:
➍ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش، عالم کی رحمت کا باعث تھی اس لئے کائنات کا فخر و ناز اس پر بجا ہو سکتا ہے، اگلے واعظوں اور میلاد خانوں نے اس واقعہ کو شاعرانہ انداز میں اس طرح ادا کیا کہ آمنہ کا کا شانہ نور سے معمور ہو گیا، جانور خوشی سے بولنے لگے، پرندے تہنیت کے گیت گانے لگے، مغرب کے چرندوں اور پرندوں نے مشرق کے چرندوں اور پرندوں کو مبارکباد دی، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آ گئی، ستارے زمین پر جھک گئے، آسمانوں کے دروازے کھل گئے۔ فرشتوں نے ترانہ مسرت بلند کیا، انبیاء نے روئے روشن کی زیارت کی۔ فرشتوں نے بچہ کو آسمان و زمین کی سیر کرائی، شیطانوں کی فوج پا بہ زنجیر کی گئی، پہاڑ غرور سے اونچے ہو گئے، دریا کی موجیں خوشی سے اچھلنے لگیں، درختوں نے سبزی کے نئے جوڑے پہنے بہشت و جنت کے ایوان نے سر و سامان سے سجائے گئے وغیرہ، بعد کے واعظوں اور میلاد خوانوں نے اس شاعرانہ انداز بیان کو واقعہ سمجھ لیا اور روایت تیار ہوگئی۔
——————

آئندہ واقعات کو اشارات میں ولادت کے موقع پر بیان کرنا:
➎ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں یا بعد کو جو واقعات ظہور پذیر ہوئے ان کا وقوع آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے زمانہ میں تسلیم کر لیا گیا ہے اور ان کو بحیثیت معجزہ کے آئندہ واقعات کا پیش خیمہ بنا لیا گیا ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بت پرستی کا استیصال ہو گیا۔ کسری و قیصر کی سلطنتیں فنا ہو گئیں۔ ایران کی آتش پرستی کا خاتمہ ہو گیا، شام کا ملک فتح ہوا۔ ان واقعات کو معجزہ اس طرح بنایا گیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے تمام بت سرنگوں ہو گئے، قصر کسریٰ کے کنگرے ہل گئے، آتش کده فارس بجھ کر رہ گیا، نہر ساوہ خشک ہوگئی، ایک نور چھکا جس سے شام کے محل نظر آنے لگے۔
➏ بعض واقعات ایسے ہیں جن کو کسی حیثیت سے معجزہ نہیں کہا جا سکتا، لیکن تکثیر معجزات کے شوق میں ذرا سا بھی کسی بات میں عجوبہ پن ان کو نظر آیا تو اس کو مستقل مجعزہ بنا لیا۔ مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے اور وہ مسند امام احمد بن حنبل میں بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی پالتو جانورتھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ ایک جگہ بیٹھا رہتا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر چلے جاتے تو وہ ادھر ادھر دوڑنے لگتا تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوانات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت قدر اور حفظ مراتب کا پاس تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وشان سے واقف تھے، لیکن درحقیقت یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ عام لوگوں سے بھی بعض جانور اسی طرح ہل مل جاتے ہیں۔
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سخت بیمار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو گئے تو وہ بے ہوش تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کر کے ان کے منہ پر پانی چھٹرکا تو ان کو ہوش آ گیا، یہ ایک معمولی واقعہ ہے مگر کتب دلائل کے مصنفین نے اس کو بھی معجزہ قرار دے دیا ہے۔ [خصائص كبريٰ سيوطي جلد دوم ص 71 حيدرآباد دكن۔]
اسی طرح یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے تھے، یہ روایت متعدد طریقوں سے مروی ہے، مگر ان میں سے کوئی طریقہ بھی ضعف سے خالی نہیں ہے۔ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختون پیدا ہونا متواتر روایتوں سے ثابت ہے اس پر علامہ ذہبی نے تنقید کی ہے کہ تواتر تو کجا صحیح طریقہ سے ثابت بھی نہیں [مستدرك 2 باب اخبارالنبي صلى الله عليه وسلم ]
اور بقول علامہ ابن قیم (زادالمعاد ) اگر یہ ثابت بھی ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی فضیلت نہیں ہے کیونکہ ایسے بچے اکثر پیدا ہوئے ہیں۔
روایت صحیحہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے یا سجدہ میں جاتے تھے تو آپ کی بغل کی سپیدی نظر آتی تھی یہ ایک معمولی بات ہے مگر مجب طبری، قرطبی، اور سیوطی وغیرہ نے اس کو بھی معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دے دیا ہے۔
معجزات کی تعداد بڑھانے کے شوق میں کتب دلائل کے مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک ہی واقعہ کی روایت میں اگر مختلف سلسلہ سند کی راویوں میں باہم موقع، مقام یا کسی اور بات میں ذرا سا بھی اختلاف نظر آیا تو اس کو چند واقعہ قرار دیدیا۔ مثلاً ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک اونٹ جو دیوانہ ہو گیا تھا یا بگڑ گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس گئے تو اس نے مطیعانہ سر ڈال دیا۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! جب جانور آپ کے سامنے سر جھکاتے ہیں تو ہم کو انسان ہو کر ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر بسجود ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنا روا رکھتا تو بیوی کو کہتا کہ شوہر کو سجدہ کرے۔“ یہ ایک ہی واقعہ ہے جو ذرا ذرا سے اختلاف بیان کی بنا پر چودہ پندرہ واقعات بن گئے ہیں۔
——————

الفاظ کے نقل میں بے احتیاطی:
➐ ان کتابوں میں بعض معجزات ایسے مذکور ہیں جن کی اصل صحاح میں مذکور ہے اور اس طرح مذکور ہے کہ وہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ معمولی واقعہ ہے لیکن نیچے درجہ کی روایتوں میں بےاحتیاط راویوں نے الفاظ کے ذرا الٹ پھیر سے اس کو معجزہ قرار دے دیا۔ صحاح کی متعدد روایتوں میں ہے کہ شانہ مبارک پر ابھرا ہوا گوشت تھا جس کو ”خاتم نبوت“ کہتے تھے، اور آپ کی انگشت مبارک میں جو نقرئی خاتم ( چاندی کی انگوٹھی) تھی اس پر ”محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم “ منقوش تھا، بےاحتیاط راویوں نے ان دونوں واقعوں کو ملا دیا اور اس طرح واقعہ کی صورت حاکم کی تاریخ نیشاپور، ابن عساکر کی تاریخ دمشق اور ابو نعیم کی دلائل میں جا کر یوں ہو جاتی ہے کہ پشت مبارک کے گوشت کی خاتم نبوت پر کلمہ وغیرہ کی عبارتیں لکھی تھیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: