مرد کی عورتوں کے لیے امامت
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال :

کیا مرد عورتوں کو جماعت کروا سکتا ہے، اگر کروا سکتا ہے تو کس صورت میں یعنی امام کے پیچھے عورتوں کی صف ہو گی یا امام کے پیچھے مردوں کی صف ہونا ضروری ہے، پھر اس کے بعد عورتوں کی صف ہو گی ؟

جواب :

مرد عورتوں کی امامت کروا سکتا ہے۔ عورتیں مرد کے پیچھے صف باندھیں گی، ساتھ شریک نہیں ہوں گی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے نماز ادا کی۔ “ [نسائي، كتاب الامامة : باب موقف الامام إذا كان معه صبي وأمرأة 805]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی ماں یا خالہ کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور عورت کو ہمارے پیچھے کھڑا کر دیا۔ “ [مسلم، كتاب المساجد : باب جواز الجماعة فى النافلة 660، أبوداؤد كتاب الصلوٰة : باب الرجلين يؤم أحدهما صاحب كيف يقرمان 609]
قاضی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک آدمی اور ایک عورت ہو تو آدمی دائیں جانب اور عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گی۔ وہ مردوں کے ساتھ صف میں شامل نہیں ہو گی اور اس کا سبب فتنے سے ڈرنا ہے۔ “ [نيل الاوطار 204/3]
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ کوئی مرد ہو تو عورتیں پیچھے کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اب رہا صرف مرد امام ہو اور خواتین مقتدی تو کیا اس طرح نماز جائز و درست ہے۔
نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”عورتوں کا مرد کے پیچھے دیگر مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف اس بات میں ہے کہ صرف مرد عورتوں کو نماز پڑھائے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح صحیح نہیں تو دلیل پیش کرنا اس کے ذمہ ہے۔ “ [الروضة النديه 119/1]
جابر رضی اللہ عنہ کا اپنے گھر میں عورتوں کی امامت کروانا پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اختیار کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مرد کی اقتداء میں عورتوں کی نماز درست ہے جیسا کہ [مسند ابي يعلي : 1795، 197/2، 198]
بتحقیق مصطفیٰ عبدالقادر عطاء میں یہ حدیث ہے : علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکان کا انہیں جماعت کرانا بھی اس کا مؤید ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : [بداية المجتهد 107/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: