شیطان کون کون سی شکلیں اختیار کر سکتا ہے؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

111۔ کیا شیطان کے گمراہ کرنے کے کئی راستے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں !
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ساتھ ایک لکیر کھینچی، پھر فرمایا :
هذا سبيل الله مستقيما قال: ثم خط عن يمينه وشماله . ثم قال: هذه السبل، وليس منها سبيل إلا عليه شيطان يدعو إليه ثم قرأ:وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ
یہ صراط مستقیم، اللہ کا راستہ ہے، پھر اس لکیر کے دائیں اور بائیں کچھ لکیریں کھینچی اور فرمایا: یہ چند راستے ہیں، ان میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے، جو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔ [ مسند أحمد 1/ 465 ]
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی :
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ
”اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے پر نہ چلو۔“ [الأنعام: 153 ] ——————

112۔ کیا بری باتیں شیطان کرواتا ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿٥٣﴾
”اور میرے بندوں سے کہہ دے، وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔ “ [الإسراء: 53]
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہے ہیں کہ وہ مومنوں کو حکم دیں کہ وہ اپنی گفتگو اور بات چیت میں احسن کلام اور اچھی گفتگو کو اپنائیں۔ اگر وہ اچھی گفتگو کو نہیں اپنائیں گے تو شیطان ان کے درمیان اختلاف اور دشمنی پیدا کر دے گا اور معاملہ گفتگو سے ہاتھا پائی تک پانچ جائے گا اور لڑائی جھگڑا شروع ہو جائے گا۔
کیونکہ شیطان نے جب سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اسی وقت سے، آدم اور اولاد آدم کا دشمن ہے اور اس کی عداوت قیامت تک واضح ہے۔
——————

113۔ کیا نفاق شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾
”اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں۔‘‘ [ البقرة: 14 ]
یعنی جب منافقین مومن بندوں کو ملتے ہیں تو ان کے سامنے اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتے ہیں، لیکن جب اپنے شیاطین سرداروں اور رؤسا جو یہودی عالم اور مشرکین و منافقین کے چیمپیئن ہیں اور شیاطین انسانوں اور جنوں دونوں میں سے ہوتے ہیں، کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو ان (مومنوں) سے صرف مذاق ( کرنے کے لیے اپنے آپ کو مومن ظاہر) کرتے ہیں۔
فرمایا:
اللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿١٥﴾
”اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور انھیں ڈھیل دے رہا ہے، اپنی سرکشی ہی میں حیران پھرتے ہیں۔“ [البقرة: 15]
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت والے دن ان (منافقین) سے مذاق کرے گا۔
نفاق کا مرض:
یہ انتہائی سخت بیماری ہے، جس کی وجہ سے دل میں ایمان کا نام و نشان تک ختم ہو جاتا ہے۔ جس بندے میں نفاق کی علامات ظاہر ہو گئیں تو وہ دو چہروں والا ہے، یعنی صدق کو ظاہر کرتا، جب کہ اس کے دل میں جھوٹ ہوتا ہے، ایفائے عہد کو ظاہر کرتا اور وعدہ خلافی کو اپنے باطن میں چھپائے رکھتا ہے، بہ ظاہر امانت داری لیکن اندر سے خائن، بہ ظاہر عہد کی پاسداری کرنے والا، جب کہ باطن میں عہد کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ اسی لیے منافقت کا عذاب سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ﴿١٤٥﴾
”بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔“ [النساء: 145 ]
——————

114۔ کیا مسلمانوں کے درمیان اختلاف شیطان ڈلواتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں !
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
إن الشيطان قد أيس أن يعبده المصلون فى جزيرة العرب، ولكن فى التحريش بينهم
”یقیناً شیطان جزيرة العرب میں اپنی عبادت کیے جانے سے مایوس ہو چکا ہے، لیکن وہ مسلمانوں کے درمیان فساد ڈالے گا۔“ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 2812 ]
اللہ کے دشمن ابلیس نے اپنی بدبختی کا سبب آدم علیہ السلام کو ٹھہرا کر آدم علیہ السلام اور اولاد آدم علیہ السلام سے دشمنی کا اعلان کر رکھا ہے، حالانکہ اس کی بدبختی اور عذاب کا حقیقی سبب اس کا تکبر و عناد اور آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار ہے۔ اب وہ ہمیشہ انسانیت کو اللہ کے دین سے روکنے اور شرک کا ارتکاب کروانے کی کوشش میں ہے۔ جزيرة العرب میں اہل توحید سے اپنی اطاعت کروانے سے وہ مایوس ہو چکا ہے، اب وہ ان کے دلوں میں بغض و فساد اور آپس کے معاملات میں فساد و انتشار ڈالنے ہی پر اکتفا کرتا ہے۔
——————

115۔ کیا لوگوں کو شیطان سرکش بناتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں !
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا ﴿٨٣﴾
”کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے، وہ انھیں ابھارتے ہیں، خوب ابھارنا۔“ [مريم: 83 ]
یعنی وہ انھیں گمراہ کرتے ہیں۔ عوفی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:
’’شیطان (کافروں کو ) رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کے خلاف ابھارتا اور انھیں اللہ کی نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انھیں دھوکا دیتا اور مکمل طور پر سرکش بنا دیتا ہے۔
——————

116۔ شیطان کون کون سی شکلیں اختیار کر سکتا ہے ؟
جواب :
سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتوں کو قتل کر دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حتی کہ ایک عورت دیہات سے اپنا کتا ساتھ لے کر آتی تو ہم نے اس کو بھی قتل کر دیا۔ پھر( اس کے بعد) کتوں کے قتل سے روک دیا اور فرمایا:
عليكم بالأسود البهيم ذي النقطتين فإنه شيطان
”انتہائی سیاہ جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوتے ہیں، انھیں قتل کر دو، کیونکہ وہ شیطان ہیں۔ “ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 1572 ]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
”جنات انسانوں، چوپایوں، سانپ، بچھو، اونٹ، گائے، گھوڑے، خچر، گدھے اور پرندوں وغیرہ کی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں۔“ [رسالة الجن لابن تيمية ص: 32 ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الكلب الأسود شيطان
’’سیاہ کتا شیطان ہے۔ “ [صحيح مسلم، رقم الحديث 56 ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’کالی بلی بھی شیطان ہے۔“
ابلیس غزوہ بدر والے دن ایک انسان سراقہ بن مالک، جو بنی مدلج کا سردار تھا، کی شکل میں آیا۔
سیاہ رنگ بھی شیطانی ہے، کیوں کہ سیاہ رنگ میں شیطانی قوتیں دوسرے رنگوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ سیاہ رنگ میں حرارت کی قوت بھی ہوتی ہے۔
——————

117۔ کیا شیطان کے سینگ ہیں ؟
جواب :
جی ہاں !
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الشمس تطلع بين قرني شيطان
” بے شک سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔ “ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 3273 ]
یعنی طلوع کے وقت شیطان سورج کے سامنے اپنے سینگ کر لیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے سینگ ہیں، اسی لیے تو سورج ان کے درمیان سے نکلتا ہے۔
——————

118۔ کیا جوا کھیلنا شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو شراب اور جوئے سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تا کہ تم فلاح پاو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریع تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو۔ “ [المائدة: 91 , 90]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رجس تین عمل الشيطن کا معنی سخط من عمل الشيطان ، (شیطانی عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضی) کیا ہے، کیونکہ شراب ام الخبائث ہے۔
——————

119۔ کیا ضرورت سے زائد بستر اور لباس شیطان کے لیے ہوتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں !
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
فراش للرجل، وفراش لامرأته، والثالث للضيف، والرابع للشيطان
”ایک بستر مرد کا اور دوسرا اس کی بیوی کا اور تیسرا مہمان کے لیے ہوتا ہے اور چوتھا شیطان کے لیے ہوتا ہے۔ “ [صحيح مسلم 2084]
یعنی زائد بستر اور لباس وغیرہ رکھنا جائز نہیں، کیونکہ یہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تبذیر کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿٢٧﴾
” بے شک بے جا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔“ [الإسراء:27]
ایسے ہی اہل اسراف کی مذمت میں فرمایا:
إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١﴾
” بے شک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“ [الأعراف: 31 ]
——————

120۔ شیطان کہاں بیٹھتا ہے ؟
جواب :
ابو عياض رحمہ اللہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
إن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن يجلس الرجل بين اضح والظل، وقال: مجلس الشيطان
” بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جگہ بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں کچھ سایہ اور کچھ دھوپ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ یعنی جہاں کچھ سایہ اور کچھ دھوپ ہوں، وہاں مت بیٹھو۔“ [ مسند احمد 414/3 سنن الكبريٰ للبيهقي 236/3]
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل