121۔ کیا شیطان انسانی جسم میں حرکت کر سکتا ہے ؟
جواب :
ہاں، شیطان خون کی طرح بدن انسانی میں حرکت کرتا ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2038 صحيح مسلم 2174 ]
شیطان کس طرح بدن انسانی میں حرکت کرتا ہے؟ اس کی کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
——————
122۔ کیا شیطان کی چالوں سے بچاؤ کی کوئی جامع دعا ہے ؟
جواب :
ہاں، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
أعوذ بكلمات الله التامات التي لا يجاوزھن بر ولا فاجر، من شر ما خلق و ذرأ و برأ، ومن شر ما ينزل من السماء و من شر ما يعرج فيها، ومن شر ما ذرا في الأرض ومن شر ما يخرج منها، ومن شر فتن الليل والنهار، و شر کل طارق إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن
” اے اللہ میں تیرے ان مکمل کلمات، جن سے کوئی نیک اور نہ بد تجاوز کر سکتا ہے، کے ذریعے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ہر اس شر سے جو اس نے پیدا کیا اور پھیلا دیا اور جو شر آسمان سے اترتا اور جو آسان میں چڑھتا ہے اور جو شر زمین میں ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور دن اور رات کے فتنوں سے اور رات کو آنے والوں کے شر سے، سوائے اس کے جو رات کو بھلائی لے کر آئے۔ (اے رحمن) تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ [مسند أحمد 3 / 419 سنن البيهقي دلائل النبوة 7/ 95 ابن السني، رقم الحديث 637 مجمع الزوائد 10 / 127 ]
ایک حدیث میں ہے کہ یہ دعا جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سکھائی، جب شیاطین پہاڑوں اور وادیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے ساتھ ابلیس بھی تھا، جو اللہ کے رسول کے چہرے کو جلانے کے لیے آگ کا شعلہ لایا تھا۔ (تو اس دعا کو پڑھنے کے باعث الله تعالیٰ نے شیاطین سے آپ کو محفوظ فرما لیا)۔
——————
123۔ شیطان کا چیخنا کیا ہے ؟
جواب :
شیطان کی موسیقی گانے کی آواز ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم نزع کے عالم میں تھا تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی جھولی میں رکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ رو رہے ہیں، حالانکہ آپ نے ہمیں منع کر رکھا ہے؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لست أنهي عن البكاء، إنما نهيت عن صوتين أحمقين قاجرين، صوت عند نغمة: لعب و لهو و مزامير الشيطان، وصوت عند مصيبة: ضرب وجه وشق جيوب ورنة شيطان
” میں نے رونے سے منع نہیں کیا، میں نے تو صرف دو احمق و گناه والی آوازوں سے روکا ہے۔ ایک خوشی کے وقت آواز جیسے گانا و موسیقی اور شیطانی گیت۔ دوسری مصیبت کے وقت کی آواز: جیسے چہرہ پیٹنا، گریبان چاک کر دینا اور شیطانی چیخ۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1005 سنن البيهقي 4 / 69 مجمع الزوائد 3 /17 مسند أبى داود الطيالسي، رقم الحديث 1683 ]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت مختلف تم کی آوازیں نکالنا شیطانی آواز میں سے ہیں۔ اس لیے ہمیں صبر اختیار کرتے ہوئے گریہ و زاری سے اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ شیطان کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
——————
124۔ کیا زنا شیطان کی جانب سے ہے ؟
جواب :
حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں :
إن إبليس يبث جنوده فى الأرض، يقول لهم: أيكم أضل مسلما ألبسته التاج على رأسه. فأعظمهم فتنة أقربهم إليه منزلة، فيجيء أحدهم فيقول له: لم أزل بفلان حتى طلق امرأته، فيقول: ما صنعت شيئا، سوف يتزوج غيرها، ثم يجي الأخر فيقول له: لم أزل بفلان حتى ألقيت بينه وبين أخيه العداوة فيقول: ما صنعت شيئا، سوف يصالحه، ثم يجي الأخر فيقول: لم أزل بفلان حتى زنى، فيقول إبليس: نعم ما فعلت. فيدنيه منه، ويضع التاج على رأسه
”ابلیس اپنے لشکروں کو یہ کہتے ہوئے زمین میں بھیجتا ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو گمراہ کیا تو میں اس کے سر پر تاج رکھوں گا تو جو سب سے بڑا فتنہ باز ہوتا ہے، وہ اس کا مقرب ترین ہوتا ہے۔ ایک شیطان آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک اس نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے دی، تو ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کچھ نہیں کیا، وہ جلد ہی کسی اور لڑکی سے شادی کر لے گا، پھر ایک اور شیطان آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں آدمی کو بہکاتا رہا، حتی کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت پیدا کر دی۔ ابلیس کہتا ہے: تو نے کوئی (بڑا کام ) نہیں کیا، وہ جلد ہی صلح کر لیں گے، پھر ایک اور شیطان آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں کو زنا پر اکساتا رہا، حتی کہ اس نے زنا کا ارتکاب کر لیا۔ تو ابلیس کہتا ہے: تو نے بہت اچھا کیا ہے، وہ اس کو قریب کر کے تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔“
چنانچہ ہر مسلمان کو اس کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے اپنے آپ کو پاک رکھنا چاہیے۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فر مایا:
من يضمن لي ما بين لحييه وما بين رجليه، أضمن له الجنة
”جو مجھے زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی گارنٹی دے، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6474 ]
——————
125۔ کیا بے حیائی شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢١﴾
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور جو شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے تو وہ تو بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ [النور: 21 ]
الله تعالیٰ نے فصیح و بلیغ، احسن اور مختصر عبارت میں شیطان کے طریقوں، اوامر و مسالک کی پیروی سے منع کیا، ڈرایا اور نفرت دلائی ہے، اس لیے اے مسلم! ہر شیطانی کام سے اجتناب کرو۔ گناہ کے کام کی نذر مان لینا بھی شیطانی کام ہے، اس لیے اس سے بھی اجتناب کرو۔
——————
126۔ کیا شیطان اعمال کو مزین کر کے پیش کرتا ہے ؟
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
تَاللَّـهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
”اللہ کی قسم! بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے۔ سو وہی آج ان کا دوست ہے اور اسی کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ ذکر فرما رہے ہیں کہ سابقہ امتوں کی طرف بھی میں نے رسول بھیجے تو انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی، اس لیے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! سابقہ رسولوں کی زندگی تمہارے لیے نمونہ ہے۔ آپ اپنی قوم کی تکذیب سے غمگین نہ ہوں۔ “ [النحل: 63 ]
مشرکوں نے جو رسولوں کی تکذیب کی ہے، اس کا سبب شیطان ہے، شیطان لعین نے مشرکوں کو ان کے اعمال مزین کر کے پیش کیے۔
فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ یعنی آج وہ عقوبت و سزا میں ہیں، شیطان ان کا دوست ہے، مگر انھیں خلاصی نہیں دلوا سکتا اور نہ کوئی ان کا فریاد رس ہے، ان مشرکین کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
——————
127۔ کیا انسانوں کے د رمیان جھگڑے شیطان کی وجہ سے ہوتے ہیں ؟
جواب :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو کشتی لڑ رہے تھے۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں شخص جس سے بھی کشتی کرتا ہے، اسی پر غالب آ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفلا أدلكم على من هو أشد منه؟ رجل كلمه رجل فكظم غيظه، فغلبه وغلب شيطانه، وغلب شيطان صاحبه
”کیا میں تمھیں اس سے زیادہ طاقتور آدمی نہ بتاؤں؟ وہ آدمی (اس سے بھی طاقتور ہے) جس سے کسی نے بدتمیزی کی، مگر اس نے اپنے غصے پر قابو پا لیا، تو ایسا شخص بدتمیزی کرنے والے پر، اپنے شیطان اور بدتمیزی کرنے والے کے شیطان پر غالب آ گیا ہے۔ “ [ فتح الباري 10 /519 ]
——————
128۔ کیا شیطان غصہ دلاتا ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ﴿٢٠١﴾
”اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بے شک وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جانے والا ہے۔ یقیناً جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔ “ [ الأعراف: 201 ,200 ]
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ جب شیطان ایسا غصہ دلا دے کہ جاہل کی جہالت سے اعراض مشکل ہو جائے تو پھر شیطان کے حملے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ”عياذ“ کا معنی التجا کرنا، شر سے پناہ مانگتا ہے اور پناہ گاہ بھلائی طلب کرنے ہی میں ہے۔
إِذَا مَسَّهُمْ یعنی جب انھیں شیطانی خیال آئے۔ بعض نے مَسَّ الشَّيْطَانِ ، کی تفسیر اس کے مغلوب کر دینے سے کی ہے۔
——————
129۔ کیا شیطان سونے والے کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، حتی کہ وہ نماز بھی نہیں پڑھ سکتا ؟
جواب :
ہاں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا نام ثلاث عقد، يضرب كل عقدة: عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ فذكر الله إنحلت عقدة، فإن توضا، انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة فأصبح نشيطا طيب النفس وإلا أصبح خبيث النفس كسلان
”جب کوئی بندہ سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے اور ہر گرہ لگاتے وقت کہتا ہے: لمبی رات ہے سو جا۔ اگر بنده بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، وضو کرے تو دوسری بھی کھل جاتی ہے اور نماز پڑھ لے تو تیسری بھی کھل جاتی ہے تو صبح کو چاق و چوبند اور چست ہوتا ہے۔ اگر وہ مذکورہ کام نہیں کرتا تو پراگندگی اور سستی کی حالت میں صبح کرتا ہے۔“ [ صحيح بخاري، رقم الحديث 19]
——————
130۔ کیا شیاطین عالم الغیب ہیں ؟
جواب :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فى طائفة من اصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وارسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين، فقالوا: ما لكم؟ فقالوا: حيل بيننا وبين خبر السماء، وارسلت علينا الشهب، قال: ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا أمر حدث، فاضربوا مشارق الارض ومغاربها، فانظروا ما هذا الامر الذى حدث، فانطلقوا، فضربوا مشارق الارض ومغاربها ينظرون ما هذا الامر الذى حال بينهم وبين خبر السماء، قال: فانطلق الذين توجهوا نحو تهامة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنخلة وهو عامد إلى سوق عكاظ، وهو يصلي باصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن تسمعوا له، فقالوا: هذا الذى حال بينكم وبين خبر السماء، فهنالك رجعوا إلى قومهم، فقالوا: يا قومنا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ ، فأنزل الله عز وجل على نبيه صلى الله عليه وسلم:قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ [ سورة الجن 1 ] وإنما اوحي إليه قول الجن.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کی معیت میں عکاظ کے بازار کی طرف گئے، درآنحالیکہ شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ حائل ہو گئی اور شیاطین پر آگ کے شعلے پھینکے گئے۔ شیطان واپس (زمین پر) آ گئے تو دوسرے شیاطین نے پوچھا: تمھیں کیا ہوا ہے؟ ( کیوں واپس آگئے ہو) تو انھوں نے کہا: ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ بن گئی ہے اور ہم پر آگ کے شعلے برسائے گئے (جس کی وجہ سے ہم واپس آگئے ہیں) تو دوسرے شیاطین (جو زمین پر تھے) نے کہا: کسی عظیم واقعہ کی بنا پر آسمانی خبروں اور تمھارے درمیان رکاوٹ حائل ہوئی ہے، تم مشارق و مغارب میں پھیل جاؤ اور دیکھو کیا واقعہ درپیش ہوا ہے۔ راوی نے کہا: جن شیاطین نے تہامہ کی طرف رخ کیا، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نخلہ مقام پر آئے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکاظ کے بازار کو جانے کا ارادہ تھا اور آپ اپنے اصحاب کو فجر کی نماز پڑھارہے تھے۔ جب شیاطین نے قرآن مجید سنا تو کان لگا لیے اور کہا: ہاں میں قرآن ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنا ہے۔ پھر وہ وہاں سے اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾
”بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب) ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے۔ “ [ الجن: 1 , 2]
اللہ تعالی نے اپنے نبی پر یہ آیت: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ [الجن:1] نازل فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنات کا قول وحی کیا گیا۔
تو اس حدیث مبارک سے بداہتا واضح ہوتا ہے کہ شیاطین و جنات عالم الغیب نہیں ہوتے، اسی لیے تو کہہ رہے تھے کہ کوئی عظیم واقعہ رونما ہوا ہے، اس کا سراغ لگاؤ۔ اگر عالم الغیب ہوتے تو وہ پہلے ہی سے جانتے ہوتے اور یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، رقم الحديث 733]
——————