کیا امیر معاویہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا؟
تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گوشئہ بتول ، نوجوانان جنت کے سردار اور گلستان ِ رسالت کے پھول ، سیدنا و امامنا و محبوبنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا گیا تھا ، جیسا کہ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں :
«دخلت أنا ورجل على الحسن بن على نعوده ، فجعل يقول لذلك الرجل : سلنى قبل أن لا تسألنى ، قال : ما أريد أن أسألك شيئاً ، يعافيك الله ، قال : فقام فدخل الكنيف ثم خرج إلينا ، ثم قال : ما خرجت إليكم حتى لفظت طائفة من كبدی أقلبها بهذا العود ، ولقد سقيت السم مرارا ، ما شیء أشد من هذه المرة ، قال : فغدونا عليه من الغد ، فإذا هو في السوق ، قال : وجاء الحسين فجلس عند رأسه ، فقال : يا أخي ، من صاحبك ؟ قال : تريد قتله ؟ ، قال : نعم ، قال : لئن كان الذی أظن ، لله أشد نقمة ، وإن كان بريئاً فما أحب أن يقتل بریء»
’’میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر عیادت کے لیے داخل ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کر سکنے سے پہلے سوال کر لیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہما کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، پھر فرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیا ہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہما حالت ِ نزع میں تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی! آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اور اگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۹۴،۹۳/۱۵، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۱۷۶/۳، الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۱۵/۳، تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳، وسندہ حسن)