کورٹ میرج کی شرعی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : میرج کورٹ کے متعلق شرعی احکام سے آگاہ فرما دیں؟
جواب : موجودہ معاشرے میں امت مسلمہ کے اندر فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے لئے مختلف یہودی ادارے آزادی نسواں کے نام سے اٹھنے والی تحریکیں اور یہود و نصارٰی کے تحت اسلامیات کی ڈگریاں لینے والے پروفیسرز اور وکلاء اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی عشق معاشقے کے مارے گھر سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو انہیں پولیس اور نام نہاد عدالتوں کا سہارا مل جاتا ہے۔ وہ اپنی اس غلط روش کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے بندھن کا روپ دے لیتے ہیں۔
آج کل نوجوان لڑکیوں کی خود سری اور گھروں سے فرار کی وبا عام ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ بعض نام نہاد علماء بھی انہیں سند جواز فراہم کرتے ہیں۔ ان بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کر کے معزز اور شریف والدین کی بے عزتی اور بے بسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن اس تاریک دور میں بعض جج ایسے بھی ہیں جو عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اس بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے ایسی لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور کتاب و سنت کے دلائل کو مدنظر رکھ کر صحیح فیصلہ بھی کر جاتے ہیں لیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اکثر جج یہی فیصلے کیے جا رہے ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی گھر سے فرار ہو کر کے عدالت کے سامنے یا پولیس ہی کے سامنے ازدواجی زندگی کا اقرار کر لیں تو یہ نکاح صحیح شمار ہوگا حالانکہ کتاب و سنت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے۔ اس نکاح کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نکاح میں لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اور یہ بات پچھلے مسئلے میں ثابت کی جا چکی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح باطل و ناجائز ہے۔

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔