وکالت سے کیا مراد ہے؟

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

441- وکالت
ہم نے دیکھا ہے کہ وکالت سے مراد کسی آدمی کی طرف سے اس کے مخالف کے ساتھ بحث و تکرار کرنے کے لیے وکیل بنتا ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کی دو اقسام ہیں:
(1) ایک قسم میں وہ حق کے لیے اور حق کی طرف سے وکالت کرتا ہے، تو اس میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہی بات ہے کہ آدمی اجرت اور فیس لے کر کسی کا وکیل بنتا ہے اور اجرت کے ساتھ وکیل اور نائب بننا جائز ہے۔
(2) وکالت کی دوسری قسم میں وکیل اپنا قول پورا کرنا چاہتا ہے، وہ حق کے ساتھ ہو یا باطل کے ساتھ، اس قسم کے مقدمے میں داخل ہونا جائز نہیں کیونکہ وہ حق کا دفاع کرنے والا بھی ہوگا اور باطل کا بھی، اور یہ حرام ہے، بلکہ مسلمان کا فرض ہے کہ جب اپنے بھائی کو باطل میں کودتا ہوا دیکھے تو اس کو نصیحت کرے اور اس کی طرف سے وکیل نہ بنے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے:
”تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان کے ساتھ، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔“ [صحيح مسلم 49/78]
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 7]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔