قنوت نازلہ کا حکم

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : قنوت نازلہ کا کیا مطلب ہے، یہ کیوں اور کیسے کی جاتی ہے؟ مکمل وضاحت سے سمجھا دیں۔
جواب : قنوت دعا کو کہتے ہیں اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے۔
زمانے کے حوادثات میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کر کے ان حوادثات و وقائع سے نجات پانے کے لیے التجا و دعا کرنا قنوتِ نازلہ کہلاتا ہے۔
دنیا میں مصائب وآلام کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثلاً دنیا کے کئی خطوں میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین اور یہود ونصاریٰ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، دن رات ان کو پریشانیوں میں مبتلا کر رہے ہیں، ان کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور کمزور و لاغر مسلمان ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں، تو ان تمام حالات میں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، فقہاء ومحدثین اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علہیم کا طریقہ رہا ہے۔ اس دعا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی تذلل اور عجز و انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اے اللہ ! ہمیں ان مصائب و آلام سے محفوظ فرما، ہمارے گناہوں کو بخش دے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میں قنوت اس لیے کرتا ہوں تاکہ تم اپنے پروردگار کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو۔“ [مجمع الزوائد 138/2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت و پریشانی اور رنج و غم کے پیشِ نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والله لا قربن بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان ابو هريره يوٓقنت فى الظهر والعشاء الاخرة وصلاة الصبح ويدعو
للمومنين ويلعن الكفار
[مسلم، كتاب المساجد : باب استحباب القنوت فى جميع الصلوات 676 ]
”اللہ کی قسم ! میں تمہارے قریب وہ نماز ادا کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے۔“ پس سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر، عشاء اور فجر کی نماز میں قنوت کرتے تھے اور مومنوں کے لیے دعا کرتے تھے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت کرتے تھے۔ “ [مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة : باب استحباب القنوت فى جميع الصلوات اذا نزلت بالمسلمين نازلة 678 ]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة العتمة شهرا [ ابوداود، كتاب الوتر : باب القنوت فى الصلاة 1442 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشاء میں ایک ماہ قنوت کی۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا متتابعا فى الظهر والعصر والمغرب والعشاء وصلاة الصبح فى دبر كل صلاة اذا قال سمع الله لمن حمده من الركعة الاخرة يدعو على احياء من بني سليم على رعل وذكوان وعصيه ويؤمن من خلفه [ابوداؤد، كتاب الوتر : باب قنوت فى الصلاة 1443 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متواتر ایک ماہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز میں جب آخری رکعت میں سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو قنوت کرتے اور بنو سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ پر بددعا کرتے اور مقتدی آمین کہتے۔“
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں، کبھی دو تین اور کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کرتے تھے۔ تو ہمیں بھی حالات و اقعات کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری رہے جب تک دشمنوں کی مکمل سرکوبی نہیں ہو جاتی اور مسلمانوں کے مصائب و آلام میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم قنت بعد الركعة فى صلاه شهرا اذا قال سمع الله لمن حمده يقول فى قنوته اللهم نج الوليد بن الوليد، اللهم نج سلمة بن هشام، اللهم نج عياش بن ابي ربيعه، اللهم نج المستضعفين من المؤمنين اللهم اشدد وطاتك على مضر اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف. قال ابو هريرةه ثم رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الدعاء بعد فقلت اري رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ترك الدعاء لهم قال فقيل وما تراهم قد قدموا؟ [مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب استجاب القنوت فى جميع الصلوات 675 ]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کی۔ جب آپ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو اپنی قنوت میں کہتے : ”اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ ! ضعیف مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ ! اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر۔ اے اللہ ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط ڈال دے۔ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ”پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے دعا کرنا چھوڑ دی تو میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیا ہے ؟ تو لوگوں نے کہا: ”تم دیکھتے نہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں (یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے )۔ “
موجودہ حالات میں چونکہ مسلمان کئی ممالک (مثلاً فلسطین، کشمیر اور الجزائر وغیرہ ) میں سفاک و خونخوار دشمن کے ظلم و ستم اور جبر و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور کئی ممالک میں مسلمان سالہا سال سے جور و جفا کی چکی میں پس رہے ہیں تو ان کی نصرت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جب ہم جہاد بالسیف وغیرہ جیسی تدابیر کے ساتھ صف آرا ہیں تو ہمیں قنوتِ نازلہ جیسے مجرب ہتھیار سے بھی کام لینا چاہیے۔ تمام مسلمان اپنی نمازوں میں رکوع کے بعد سمع الله لمن حمده کہہ کر سجدہ میں جانے سے پہلے مجاہدین اور مظلوم مسلمانوں کے لئے دعا کریں۔ دعا کرتے وقت امام مختلف دعائیں پڑھے جب کہ پیچھے مقتدی آمین کہیں۔ قنوت نازلہ سے مقصود مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور سفاک جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے۔ اس لیے اس مقصد کو جو دعا بھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
والصحيح انه لا يتعين فيه دعاءمخصوص بل يحصل بكل دعاٰ و فيه وجه انه لا أخرجه يحصل الا بالدعاء المشهور اللهم اهدني فيمن هديت الٰي آخره والصحيح ان هٰذا مستحب لا شرط [شرح مسلم 237/1 ]
”صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں بلکہ ہر اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہو اور اللہم اهدني فيمن هديت . . . إلخ پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں۔“
یاد رہے کہ اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ یہ مذکورہ دعا بھی پڑھی جائے اور اس کے بعد وہ دعائیں پڑھی جائیں جو اس معنی کی قرآن مجید اور حدیث نبوی میں موجود ہیں۔ مختلف دعائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت ہیں جیسا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر مخالفین اسلام کے لئے بدعا کرتے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور مسلمانوں کے لئے استعفار کرتے تھے۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :
وكان يلعن الكفرة فى النصف اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك و يكذبون رسلك و لا يوءمنون بوعدك و حالف بين كلمتهم و الق فى قلوبهم الرعب و الق عليهم رجزك وعذابك الٰه الحق ثم يستغفر للمؤمنين [ ابن خزيمة 155/2۔ 156، قيام رمضان للألباني ص/32 ]
”نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے : ”اے اللہ ! ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے، تباہ کر دے اور ان کے کلمات میں مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر عذاب و سزا نازل فرما۔ “ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے اور مسلمانوں کے لئے اپنی استطاعت سے بھلائی کی دعا کرتے اور مومنوں کے لئے استعفار کرتے۔ “
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا درست ہے
سوال : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے ؟
جواب : قنوت نازلہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر ہی دعا مانگتے تھے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة الغداة رفع يديه فدعا عليهم [مسند أحمد 137/3]
اس روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ إرواء الغليل ]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنانِ اسلام پر بددعا کی۔“ یاد رہے کہ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔ اس کے متعلق جتنی روایات مروی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں، جو قابلِ حجت نہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ”السنن الصغرٰی“ میں لکھا ہے : ”فَاِنَّھَا مِنَ الْمُحْدَثَاتِ“ کہ یہ عمل بدعات میں سے ایک بدعت ہے۔

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔