قبلہ کا احترام

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا
”قضاء حاجت کے وقت قبلہ رخ مت بیٹھو اور نہ ہی اس کی طرف پشت کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب پھر جاؤ۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 394]
فوائد :
مکہ مکرمہ کے جنوب کی جانب مدینہ طیبہ واقع ہے۔ اس لئے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کی اجازت اسی خطے کے ساتھ خاص ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ قبلہ مغرب کی جانب ہے اس لئے ہمیں شمال یا جنوب کی طرف منہ کرنا ہو گا۔ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طو ر پر قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی منہ یا پشت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا آبادی یا صحرا میں قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ راوی حدیث سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم شام کے علاقے میں آئے تو وہاں ہم نے ایسے بیت الخلاء دیکھے جو کعبہ کی جانب بنے ہوئے تھے تو ہم احترام کعبہ کے پیش نظر دوسری جانب پھرنے کی کوشش کرتے اور اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ صحیح بخاری، حولہ سابقہ ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہوتا، اپنا رخ دوسری طرف کرنے کی کوشش کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتے کہ جس قدر ہم سے ممکن تھا۔ ہم نے قضاء حاجت کے وقت کعبہ سے انحراف کی کوشش کی ہے۔ جو ہمارے بس میں نہ تھا۔ ہم اس کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں، اگرچہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل پیش کیا جاتا ہے کہ آپ قضاء حاجت کے وقت شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کئے ہوئے تھے۔ [بخاري الوضوء : 145 ]
اس معلوم ہوتا ہے آبادی یا عمارتوں میں یہ پابندی ضروری نہیں تاہم بیت اللہ کی تقدیس اور تعظیم کا تقاضا یہی ہے کہ مطلق طور پر قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی بھی عمل امت کو دیئے ہوئے حکم خاص کے مخالف نہیں ہوتا۔ والله اعلم

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔