سقیفہ بنی ساعدہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ ! اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں شخص کی بیعت کروں گا۔ دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اچانک ہوگئی تھی اور وہ مکمل ہوگئی۔ سنو، یقینا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ ایسے ہی تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس ناگہانی بیعت کے شر سے (ہمیں) بچائے رکھا اور تم میں سے کوئی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں جس کی ملاقات کے لیے لمبے سفر طے کیے جاتے ہوں (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی و پارسا تم میں کوئی نہیں )۔ کوئی شخص مسلمانوں کے صلاح مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت نہ کرے، جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے۔ سنو! بلا شبہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا :” اے ابو بکر ! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلیے۔ “ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادے سے چل پڑے، جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو صالح آدمیوں سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں نے (ہمیں) انصار کے عزائم سے مطلع کیا، پھر سوال کیا : ”اے مہاجرین کی جماعت ! آپ کہاں جارہے ہیں؟ “ ہم نے کہا : ”ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ “ ان دونوں نے کہا : ”آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں، بلکہ خود جو معاملہ کرنا ہے کر لیں۔ “ میں نے کہا : ” ”واللہ ! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے۔ “چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے۔ مجلس میں ایک صاحب (خزرج کے سردار) چادر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا : ”یہ صاحب کون ہیں؟“ لوگوں نے بتایا : ”سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔“ میں نے پوچھا: ”انھیں کیا ہوا ہے ؟“ لوگوں نے بتایا : ”بخار آ رہا ہے۔“ پھر ہم تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے کہ ان کے خطیب نے خطبہ مسنونہ پڑھا اور اللہ تعالی کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی، پھر گویا ہوئے :
فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام، و أنتم معشر المهاجرين رهط، وقد دافت دافة من قومكم، فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا، وأن يخضنونا من الأمر
”ہم اللہ کے (دین کے ) مددگار (انصار ) اور اسلام کے لشکر ہیں اور اے مہاجرین! تم ایک مختصر سی جماعت ہو تم میں سے کچھ لوگ اپنی قوم میں سے نکل کر آئے تھے اور اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیخ کنی کریں اور ہمیں خلافت سے بے دخل کر دیں (ایسا نہیں ہوگا )۔“
وہ شخص خاموش ہوا تو میں نے گفتگو کرنا چاہی اور میں نے احسن انداز میں اپنی بات کہنے کے لیے تیاری کر لی تھی، جسے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پہلے کرنا چاہتا تھا۔ میں اس گفتگو سے مجلس کی تلخی کو دور کرنا چاہتا تھا، لیکن جب میں نے بولنا چاہا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : على وسلك ”ٹھہرو۔“ میں نے آپ کو ناراض کرنا پسند نہ کیا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، وہ مجھ سے زیادہ بردبار اور باوقار تھے، واللہ! انھوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی جو مجھے پسند تھی اور جو میں نے اپنے دل میں سوچ رکھی تھی، انھوں نے فی البدیہ اس جیسی یا اسب سے بہتر بات کی۔ آپ نے اپنی بات ختم کی، پھر فرمایا :
ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل، ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش، هم أوسط العرب نسبا ودارا، وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين، فبايعوا أيهما شئتم
تم نے اپنے بارے میں جو خیر کی باتیں کی ہیں یقینا تم اس کے مستحق ہو، لیکن خلافت و امارت قریش ہی کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ کیونکہ قریش از روئے نسب اور از روئے خاندان تمام عرب کی قوموں میں بڑھ کر ہیں، میں تمھارے لیے ان دو آدمیوں میں سے ایک کو پسند کرتا ہوں، تم جسے چاہو منتخب کر کے اس کی بیعت کر لو۔‘‘
پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابو عبیدہ بن جراح ( رضی اللہ عنہ ) کا ہاتھ پکڑ کر ( آگے کر دیا ) اور
آپ ہمارے درمیان ہی بیٹھے ہوئے تھے، ان کی ساری گفتگو میں سے صرف یہی ایک بات مجھے ناگوار گزری ( کہ میرا ہاتھ بیت کے لیے آگے کر دیا )۔ اللہ کی قسم ! مجھے آگے کر دیا جاتا اور بے گناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر الله رضی اللہ عنہ موجود ہوں۔ اے اللہ! میرا اب تک یہی خیال ہے، ہوسکتا ہے کہ موت کے وقت نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جواب میرے دل میں نہیں ہے۔
انصار میں سے ایک شخص ( حباب بن منذر رضی اللہ عنہ ) نے کہا : ”(سنو!) میں ایک لکڑی ہوں کہ جس کے ساتھ اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑھ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے (یعنی میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ) ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہو۔ “(یہ رائے آنے کے بعد وہاں شور داخل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ کہتا، مجھے (مسلمانوں میں ) اختلاف رونما ہونے کا خوف دامن گیر ہوا تو میں نے کہا :
أبسط يدك أبا بكر!
”ابوبکر ! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔“
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو سب سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کی، پھر مہاجرین نے بیعت کی اور پھر انصار نے بھی آپ کی بیعت کر لی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبہ میں یہ بھی فرمایا : ”اس وقت ہم کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوئی، کیونکہ ہمیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی بیت نہ ہوئی ہو اور وہ اپنے میں سے کسی شخص کی بیعت کر بیٹھیں۔ تب یہ معاملہ دو صورتوں سے خالی نہ ہوتا، یا تو ہم بھی طوعا و کرہا اس کی بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا ( اور پھوٹ پڑ جاتی۔ دیکھو، میں پھر کہتا ہوں کہ ) جس شخص نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے۔“ [ بخاري، كتاب المحاربين، باب رجم الحبلى من الزنا إذا أحصنت : 683۰]
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس بیعت کے سلسلے میں سیدنا عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
ولينا أبو بكر فكان خير خليفة الله، و أرحمه بنا، و أحناه علينا
[ مستدرك حاكم : 3 /79، ح : 4468، و إسناده حسن لذاته۔ معرفة السنن والآثار للبيهقي : 4 / 94، ح : 74۔ فضائل الصحابة للإمام أحمد ابن حنبل : 1 / 536، ح: 499]
”ہمارے خلیفہ ابو بکر ( رضی اللہ عنہ ) بنے جو اللہ کی طرف سے سب سے بہتر خلیفہ تھے اور وہ ہم پر نہایت رحم دل اور نرم خو تھے۔ “
اس تحریر کو اب تک 43 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply