دیوالیہ شخص کے پاس اپنا مال بعینہ پانے والا

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ – { مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ – أَوْ إنْسَانٍ – قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ } .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو کسی شخص یا (فرمایا کہ ) کسی انسان کے پاس اپنا مال بعینہ پائے جو دیوالیہ ہو گیا ہو تو وہ غیر کی نسبت اپنے مال کا زیادہ حقدار ہے۔
شرح المفردات:
بعينه: یعنی وہی مال۔
شرح الحدیث:
ایک شخص نے کسی سے کوئی چیز خریدی اور اس کی خریداری کے بعد وہ شخص دیوالیہ ہو گیا، تو اگر اس چیز کی قیمت بالکل ہی ادا نہ ہوئی ہو تو وہ سود افسخ سمجھا جائے گا اور بائع اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے کا حقدار ہے، دیگر قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس چیز کی کچھ نہ کچھ قیمت ادا ہوئی ہو تو پھر تمام قرض خواہ اس میں برابر کے حصہ دار ہیں۔
(282) صحيح البخاري، كتاب الاستقراض ، باب اذا وجد ماله عند مفلس فى البيع والقرض والوديعة فهو أحق به ، ح: 2402 – صحيح مسلم ، كتاب المساقاة، باب من أدرك ماباعه عند المشتري ، ح: 1559

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل