جھوٹی قسم کھانا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ
”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں سے ہے۔ “ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6675]
فوائد :
جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا مہلک ترین کبیرہ گناہ ہے، شرعی اصطلاح میں اسے يمين غموس کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غموس کی یوں تعریف کی ہے۔ :
”وہ جھوٹی قسم جس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر ہتھیا لیا جائے۔ “
جھوٹی قسم کھاکر دوسروں کا مال ہڑپ کر جانا، تین جرائم کے برابر ہے جو حسب ذیل ہیں :
➊ اس انسان نے اللہ تعالیٰ کی عزت و کبریائی کو داؤ پر لگایا۔
➋ دوسرے کا مال چھین کر خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ [ صحيح بخاري، استابة المرتدين : 6920 ]
➌ جس شخص کا مال ہڑپ کیا، اس پر بھی ظلم و ستم روا رکھا۔
اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا نیز انہیں گناہوں سے پاک نہیں قرار دے گا بلکہ انہیں تکلیف دہ عذاب ہو گا۔ “ [آل عمران : 77 ]
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا مال رکھا اور ایک مسلمان کو پھانسنے کے لئے جھوٹی قسم کھاکر کہنے لگا کہ اس مال کی اتنی اتنی رقم ملی تھی، حالانکہ یہ بات غلط تھی تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی۔ [ صحيح بخاري، التفسير : 4551 ]

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔