تفسیر ۔۔۔ جنوں اور انسانوں میں سے وہ دونوں دکھا

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

153۔ اللہ کے فرمان : ﴿اللَّذَیْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْس﴾ کی تفسیر کیا ہے ؟
جواب :
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ ﴿٢٩﴾
” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، کہیں گے اے ہمارے رب! تو ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ دونوں دکھا جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا، ہم انھیں اپنے قدموں کے نیچے ڈالیں، تا کہ وہ سب سے نچلے لوگوں سے ہو جائیں۔“ [حم، السجدة: 29]
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کہا گیا : اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا سے کون لوگ مراد ہیں تو انھوں نے جواب دیا ابلیس اور وہ ابن آدم جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا پس ابلیس اس کے ساتھ ہر مشرک کو دعوت دیتا ہے اور آدم کا بیٹا کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو، پھر ابلیس شر اور شرک اور اس سے کم کی طرف دعوت دیتا ہے اور ابن آدم، زمین پر کوئی بھی ظلم سے قتل ہو تو آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا بوجھ ہوتا ہے، کیوں کہ سب سے پہلے اسی نے قتل شروع کیا۔ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا یعنی وہ ہم سے نیچے ہوں، تاکہ انھیں ہم سے زیادہ عذاب ہو۔
لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ یعنی آگ کے نچلے گڑھے میں ہوں۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تو نے نماز ادا کر لی ہے؟ میں نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو اور نماز پڑھ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اٹھا اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا أبا ذرا تعوذ بالله من شر شياطين الإنس والجن
”اے ابوذر ! انس و جن کے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! نماز کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خير موضوع من شاء أقل ومن شاء أكثر
”بہترین وضع کردہ امر ہے، جو چاہے اسے کم کرے اور جو چاہے زیادہ کرے۔ “
میں نے کہا: یا رسول اللہ ! روزہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فرض مجزئ وعند الله مزيد
”بہترین جزا والا فریضہ ہے اور اللہ کے ہاں مزید (اجر بھی) ہے۔ “
میں نے کہا: اللہ کے رسول ! صدقہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أضعاف مضاعفة ”کئی گنا بڑھایا ہوا اجر۔“
میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ان میں سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جهد من مقل أو سر إلى فقير
”کم مال والے کا کوشش کرنا یا فقیر کی طرف جانا۔ “
میں نے کہا: یا رسول اللہ ! انبیاء میں سب سے پہلے کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم ”آدم (علیہ السلام)۔ “
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعم نبی مكلم ”ہاں وہ نبی تھے، ان سے کلام ہوتا تھا۔ “
ابوذر کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! رسولوں کی تعداد کتنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث مائة و بضعة عشر جما غفيرا
”تین سو دس سے کچھ اوپر، ایک بڑی جماعت۔ ‘‘ [مسند أحمد 179/5]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔