ایک کلمہ سے تین طلاقوں کا حکم

فتویٰ علمائے حرمین

ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقوں کا حکم
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک کلمہ سے تین طلاقیں دیں ، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: جب آدمی اپنی بیوی کو ایک کلمہ سے تین طلاق دے ، مثلاًً وہ کہے:
أنت طالق بالثلاث (تجھے تین طلاق ہو ) یا کہے:
”أنت مطلقة بالثلاث
(تجھے تین طلاق ہو )
تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کلمہ سے عورت پر تین طلاق واقع ہو جائے گی ، اور وہ اس کے ذریعہ اپنے خاوند پر حرام ہوگی ، حتی کہ وہ اس کے علاوہ کسی مرد سے نکاح رغبت کرے نہ کہ ایسا نکاح جو محض پہلے خاوند کے لیے حلال ہونے کی غرض سے کیا گیا ہو ، اور دوسرا خاوند اس سے وطی بھی کرے ، پھر وہ فوت ہو جائے یا طلاق دے کر الگ کر دے ۔ انہوں نے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کے فتوی کو دلیل بنایا ہے کہ انہوں نے اس طرح کی تین طلاقوں کو لوگوں پر نافذ کر دیا تھا ۔
لیکن کچھ دوسرے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ یہ صرف ایک طلاق ہو گی اور مرد کو دوران عدت عورت سے رجوع کا حق حاصل ہوگا ، اور اگر عورت عدت گزار چکی ہو تو وہ نئے نکاح کے ساتھ اس مرد کے لیے حلال ہو گی ۔ انہوں نے اس پر صحیح مسلم میں موجود ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے دلیل لی ہے ۔ انہوں نے کہا:
كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعهد أبى بكر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحدة ، فقال عمر: إن الناس رضي قد استعجلوا فى أمر كانت لهم فيه أناة ، فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم [صحيح مسلم ، رقم الحديث 1472]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں طلاق ثلاثہ ایک طلاق شمار ہوتی تھی ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بلاشبہ لوگ ایک ایسے معاملے میں جلدی کرنے لگے جس میں ان کے لیے مہلت اور سہولت تھی ، پس اگر ہم اس (طلاق ثلاثہ ) کو ان پر نافذ کر دیتے (تو اچھا ہوتا ) چنانچہ انہوں نے اس کو ان پر نافذ کر ہی دیا ۔“
اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: بلاشبہ ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہا سے کہا: کیا یکبارگی کی تین طلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کے تین سالوں میں ایک نہ تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہاں ، کیوں نہیں؟ [صحيح مسلم ، رقم الحديث 1472]
ان اہل علم نے ایک کلمہ کی تین طلاق کے ایک طلاق ہونے پر مسند احمد میں جید سند کے ساتھ مذکور ابن عباس کی اس حدیث سے بھی دلیل پکڑی ہے کہ بلاشبہ ابورکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس پر غمزدہ ہوئے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ان پر ان کی بیوی لوٹا دی اور فرمایا: إنها واحدة ”بلاشبہ وہ ایک طلاق ہے ۔“ [مسند أحمد 265/1]
اہل علم نے اس حدیث کو اور اس سے ماقبل کی حدیث کو ایک کلمہ کی تین طلاقوں پر محمول کیا ہے تاکہ ان دو حدیثوں اور اللہ کے قول الطلاق مرتن اور اللہ عزوجل کے اس قول فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غیرہ “ کے درمیان جمع وتطبیق ہو سکے ۔
اور اپنی ایک صحیح روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہا کا یہی موقف ہے ، جبکہ ان سے ایک دوسری روایت جمہور علماء کے قول کی تائید میں بھی موجود ہے ۔ اور ایک کلمہ سے تین طلاقوں کو ایک طلاق کہنے کا قول علی ، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔
اور تابعین کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے ، محمد بن اسحاق ”صاحب السیرۃ“ اور متقدمین اور متاخرین اہل علم کی ایک جماعت بھی اسی مذہب پر ہے ، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اس کو اختیار کیا ہے ، اور میں بھی یہی فتوی دیتا ہوں ، کیونکہ اس قول میں شرعی دلائل پر عمل ہوتا ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے رحمت اور نرمی بھی ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔