اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی فضیلت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب فضل المتحابين فى الله »
اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی فضیلت
❀ « عن أبى هريرة قال، قال رسول الله إن الله تبارك و تعالي يقول يوم القيامة أين المتحابون بجلالي اليوم أظلهم فى ظلي يوم لا ظل الأظلي. » [صحيح: رواه مالك فى الشعر 10 ومسلم 2566: 37]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری عظمت کے لیے آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔“

❀ «عن أبى إدريس الخولاني رحمه الله قال: دخلت مسجد دمشق، فإذا فتى براق الثنايا، وإذا الناس معه، إذا اختلفوا فى شيء أسندوه إليه، وصدروا عن قوله، فسألت عنه، فقيل: هذا معاذ بن جبل ، فلما كان من الغد هجرت، فوجدته قد سبقني بالتهجير، ووجدته يصلي، فانتظرته حتى قضى صلاته، ثم جئته من قبل وجهه، فسلمت عليه، ثم قلت: والله إني لأحبك لله، فقال: آلله؟ فقلت: آلله، فقال: آلله؟ فقلت: آلله، فقال: آلله؟ فقلت: آلله، قال فأخذ بحبوة ردائي، فجبذني إليه، فقال: أبشر، فإني سمعت رسول الله ﷺ يقول: قال الله تعالى: وجبت محبتي للمتحابين في، والمتجالسين في، والمتزاورين في، والمتباذلين فى» [صحيح: رواه مالك فى الشعر 16، وأحمد 22030، وصححه ابن حبان 575، والحاكم 269/3]
حضرت ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا۔ وہاں ایک نوجوان کو دیکھا جس کے اگلے دانت خوب چمکیلے تھے، اور لوگ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر لوگ کسی چیز میں اختلاف کرتے ہیں تو مسئلے کے حل کے لیے ان سے رجوع کر لیتے ہیں اور جب وہ کوئی بات پیش کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنے قول سے رجوع کرتے ہیں۔ میں نے اس نوجوان کے تعلق سے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب دوسرا دن ہوا تو میں صبح جلدی مسجد چلا گیا، تو میں نے ان کو اپنے سے پہلے مسجد میں پایا، وہ جلد آنے میں مجھ سے سبقت کر چکے تھے۔ میں ان کو حالت نماز میں پایا تو ان کا انتظار کر تارہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔ تو میں ان کے سامنے کی طرف ان کے پاس گیا، پھر انھیں سلام کیا۔ اور کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں تو انھوں۔ پوچھا: کیا واقعی ؟ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم انھوں نے پوچھا: کیا واقعی ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم واقعی۔ پھر انھول نے پوچھا: کیا واقعی ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں واقعی آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، تو انھوں نے میری چادر کے کنارے پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: خوش ہو جائے۔ یقیناً میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری محبت ان کے لیے واجب ہو گی جو میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، باہم مل بیٹھتے ہیں، میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔

❀ «عن أبى إدريس عائذ الله بن عبدالله : انه دخل المسجد يوما مع اصحاب الرسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا أول إمارة عمر بن الخطاب، قال :
فجلست مجلسا فيه بضعة وعشرون كلهم يذكرون حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي الحلقة فتى شاب شديد الأدمة حلو المنطق وضيء وهو أشب القوم شبابا فإذا اشتبه عليهم من الحديث شيء ردوه إليه فحدثهم حديثهم فبينما عائذ الله جالس معهم فى حلقتهم أقيمت الصلاة ففرقت بينهم فاقسم لي ما مرت عليه ليلة من الدهر لا مرض شديد سقمه ولا حاجة مهمة أطول عليه من تلك الليلة رجاء أن يصبح فتلقاهم، قال فغدا إلى المسجد فأقبل وأدبر فلم يصادف منهم أحدأ ثم هجر الرواح فأقبل وأدبر فإذا هو بالفتى الذى كان بالأمس يشيرون إليه بحديثهم يصلي إلى اسطوانة فى المسجد فقام عائذ الله إلى الأسطوانة التى بين يديه فلما قضى صلاته أسند ظهره إليها فجعلت أنظر إليه حتى علم أن لي إليه حاجة قال : قلت : قد صليت أصلحك الله، فقال الفتى: نعم، قلت: فقمت فجلست مقابله محتبية لا هو يحدثني شيئا ولا أنا أبدأه بشيء حتى ظننت أن الصلاة مفرقة بيننا قال: قلت: أصلحك الله حدثني فوالله إني لأحبك وأحب حديثك قال: ألله إنك التحبني وتحب حديثي؟: قلت: والله الذى لا إله إلا هو إني الأحبك وأحب حديثك، فقال الفتى: لم تحبني وتحب حديثي ؟ والله ما بيني وبينك قرابة، ولا أعطيتك مالا، قال: قلت: أحبك من جلال الله قال له: إنك لتحبني من جلال الله ؟ قلت له: والله لأحبك من جلال الله، قال: فأخذ بحبوني فبسطها إليه حتى أدناني منه ثم قال: أبشر فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الذين يتحابون بجلال الله فى ظل عرش الله يوم لا ظل الا ظنة فلما حدثني بهذا الحديث اقيمت الصلاة قال : قلت من انت يا عبدالله ؟ قال معاذ بن جبل، وكان عائذ الله يكثر ان يحدث حديث معاذ بن جبل.
» [حسن: رواه البزار 2672. والطبراني فى الكبير 78/20.]
حضرت ابوادریس عائذ اللہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ انھوں نے کہا: میں ایک مجلس میں بیٹھ گیا جس میں تقریبا بیس لوگ تھے۔ سب حدیث رسول کا تذکرہ کر رہے تھے، اور اس حلقہ میں گہرے گندمی رنگ، روشن چہرے اور میٹھی زبان والے ایک نوجوان بھی تھے۔ وہ لوگوں میں سب سے جوان تھے۔ جب ان لوگوں کو حدیث میں کوئی بات پوچھنی ہوتی تو وہ اس نوجوان سے رجوع کرتے اور وہ انھیں حدیث بیان کرتے۔ اس دوران کہ عائذ اللہ ان کے ساتھ ان کے حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے، نماز کھڑی ہو گئی اور نماز کی وجہ سے وہ جدا ہو گئے۔ عائذ اللہ نے مجھ سے قسم کھا کر کہا کہ ان پر زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں گزری، نہ کوئی سخت بیماری جس نے انھیں بیمار کر دیا ہو اور نہ کوئی اہم ضرورت جو اس راستہ سے زیادہ ان پر طویل گزری ہو۔ اس امید کے ساتھ کہ صبح ہو جائے تو ان سے ملاقات کریں گے۔ فرمایا: صبح ہی مسجد کی طرف میں چل پڑا۔ پھر آگے پیچھے تلاش کرتا رہا۔ لیکن ان میں سے کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر وہ دوپہر کو بھی جلد پہنچے اور آگے پیچھے ڈھونڈھتے رہے، تو اچانک وہی نوجوان کل جن سے لوگ اپنی حدیثوں کے سلسلے میں رجوع کر رہے تھے تو وہ مسجد کے ایک ستون کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ عائذ الله اس ستون کے پاس جاکر کھڑے ہو گئے تو وہ اسی ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ (عائذ کہتے ہیں) میں ان کی طرف دیکھنے لگا یہاں تک کہ وہ جان گئے کہ مجھے ان سے کچھ ضرورت ہے۔ (میں نے پوچھا) اللہ آپ کے احوال درست فرمائے، کیا آپ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ اس نوجوان نے عرض کیا : ہاں تو میں اٹھا اور ان کے سامنے چادر لپیٹ کر بیٹھ گیا نہ وہ مجھ سے کچھ بیان کر رہے تھے اور نہ میں خود ہی کسی چیز میں پہل کر رہا تھا، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ نماز جدا کر د ے گی، تو میں نے کہا : اللہ آپ کے احوال درست فرمائے، مجھ سے حدیث بیان کیجئے، میں آپ سے اور آپ کی حدیث سے محبت کرتا ہوں۔ تو انھوں نے کہا: کیا تم واقعی مجھ سے اور میری حدیث سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، یقیناً میں آپ سے اور آپ کی حدیث سے محبت کرتا ہوں۔ تو اس نوجوان نے پوچھا: آپ مجھ سے اور میری حدیث سے کیوں محبت کرتے ہیں اللہ کی قسم نہ میرے اور آپ کے درمیان کوئی قرابت داری ہے اور نہ میں نے آپ کو کچھ مال دیا ہے؟ میں نے کہا: میں اللہ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: کیا تم یقیناً مجھ سے اللہ کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں آپ سے اللہ کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے محبت کرتا ہوں۔ تو راوی نے کہا: انھوں نے میری چادر کے کنارے پکڑے اور ایک طرف اس کو کھینچا، یہاں تک کہ مجھے اپنے سے قریب کر لیا۔ پھر فرمایا: خوش ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: یقیناً جو لوگ اللہ کی عظمت کے لیے باہم محبت کرتے ہیں وہ اللہ کے عرش کے سایے میں ہوں گے، جس دن اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ جب انھوں نے مجھ سے حدیث بیان کر دی تو نماز کھڑی ہو گئی۔ میں نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: معاذ بن جبل، اور عائذ اللہ کثرت سے معاذ بن جبل کی حدیث بیان کرتے تھے۔

❀ « عن أبى مسلم الخولاني قال: أتيت مسجد دمشق فإذا حلقة فيها كهول من أصحاب النبى صلى الله عليه و سلم وإذا شأب فيهم أكحل العين براق الثنايا ما اختلفوا فى شيء ردوه إلى الفتي فى شاب قال قلت لجليس لي من هذا قال هذا معاذ بن جبل قال فجئت من العشي فلم يحضرو قال فغدوت من الغد قال فلم يجيئوا فرحت فإذا أنا بالشات يصلي إلى سارقة فركعت ثم تحولت إليه قال قفسلم فدنوت منه فقلت إني لأحبك فى الله قال فمدني إليه قال كيف قلت قلت إنى لاحبك فى الله قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه يقول المتحابون فى الله على منابر من نور فى ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله قال فخرجت حتي لقيت عبادة بن الصامت فذكرت معاذ بن جبل فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه عزوجل يقول حقت محبتي للمتحابين فى وحقت محبتي للتباذلين فى وحقت محبتي للمتزاورين فى والمتحابون فى الله على منابر من نور فى ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله.» [صحيح: رواه أحمد 22064 واللفظ له، والترمت 2390، وصححه ابن حبان 577]
حضرت ابو مسلم خولانی نے بیان کیا ہے کہ میں اہل دمشق کی مسجد آیا تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض ادھیڑ عمر والوں کی محفل سجی ہوئی تھی، اور ان میں ایک سر مگین آنکھوں والا نوجوان تھا جس کے اگلے دانت خوب چمکیلے تھے۔ جب کبھی وہ کسی چیز میں اختلاف کرتے تو اس نوجوان سے رجوع ہوتے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا یہ نوجوان کون ہیں ؟ انھوں نے بتایا کہ یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر میں رات کو آیا تو لوگ موجود نہیں تھے۔ پھر میں دوسرے دن آیا تو بھی وہ لوگ نہیں آئے۔ پھر میں دوپہر کو گیا تو اچانکہ میں نے ان نوجوان کو ایک ستون کے پاس نماز پڑھتے ہوے پایا۔ میں نے بھی نماز پڑھی۔ پھر ان کی طرف رخ کر کے انھیں سلام کیا۔ پھر میں ان کے قریب ہوا اور ان سے عرض کیا: یقیناً میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنی طرف کھینچ کر فرمایا: تم نے کیا کہا؟ میں نے کہا: یقیناً میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کر تاہوں۔ انھوں نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کو اپنے رب سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے (یعنی حدیث قدسی) کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والے نور کے منبروں پر اللہ کے عرش کے سایے میں ہوں گے، جس دن اللہ کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ابو مسلم خولانی کہتے ہیں کہ میں مسجد سے نکلا، یہاں تک کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ نے فرمایا : میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے: میری خاطر باہم محبت کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہو گئی۔ اور میری خاطر باہم خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہو گئی۔ میری باہم ملاقات کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہوگیا۔ اور اللہ کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے نور کے منبروں پر الله کے عرش کے سایہ میں ہوں گے، جس کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔

❀ «عن أبى أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحب بن عبدا لله إلا أكرم ربه. عز وجل . » [حسن: رواه أحمد 2229.]
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی نے اللہ کے کسی بندے سے محبت کی اس نے گویا اپنے رب عزوجل کی تعظیم بجا لائی۔“

❀ «عن أبى الدرداء يرفعه قال: ما من رجلين تحابا فى الله يظهر الكغيب إلا كان أحبهنا إلى الله أشدهما حبا لصاحبه. » [حسن: رواه الطبراني فى الأوسط 5275]
حضرت ابو دردار ضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا: جو دو آدمی اللہ کی خاطر آپس میں غائبانہ محبت کرتے ہیں تو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک وہ شخص زیادہ محبوب ہو گا جو اپنے ساتھی سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔

❀ «عن أنس قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم ما تحاب رجلان فى الله إلا كان أفضلهما اشدهما حبا لصاحبه،» [حسن: رواه ابن الجعد 3192، والبخاري فى الأدب المفرد 544، وابن حبان 566]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ آپس میں اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں
ان دونوں میں افضل وہ ہے جو اپنے ساتھی سے زیادہ محبت کر تا ہے۔“

❀ «عن أبى ظبية قال إن شر حبيل بن السمط دعا عمرو بن عبسة السلمي فقال يا ابن عبسة هل أنت محدثني حديثا سمعته انت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس فيه تزيد ولا كذب ولا تحدثنيه عن آخر سمعته منه غيرك قال نعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الله عز وجل يقول قد حقت محبتي للذين يتحابون من أجلى وحقت محبتي للذين يتصافون من أجلي وحقت محبتي للذين يتزاورون من أجلى وحقت محبتي للذين يتباذلون من أجلى وحقت محبتي للذين يتناصرون من أجلي. » [حسن: رواه عبد الله بن المبارك فى الزهد 716، وأحمد 19436]
حضرت ابو ظبیہ سے روایت ہے کہ شرحبیل بن سمط نے عمرو بن عبسہ سلمی کو بلایا پھر فرمایا: اے ابن عبسہ : کیا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنا سکتے ہیں جسے خود آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اس میں نہ کوئی زیادتی ہو اور جھوٹ ہو، اور آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان نہ کریں جسے آپ نے کسی دوسرے سے سنا ہو ؟ (یعنی آپ نے جو حدیث براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو وہی سنائیں) ابن عبسہ نے کہا : ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، بے شک اللہ عزوجل فرماتا ہے یقیناً میری محبت واجب ہو گی ان لوگوں کے لئے جو میری خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں، میری محبت واجب ہوگی ان کے لیے جو میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں، میری محبت واجب ہوگی ان کے لیے جو میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور میری محبت واجب ہو گی ان لوگوں کے لئے جو میری خاطر آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

اس تحریر کو اب تک 54 بار پڑھا جا چکا ہے۔