نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء بھی ادا کی جا سکتی ہے؟

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَفِي رِوَايَةِ بْنِ فُضُيلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الصَّلَاةُ قَالَ: سِرٌ حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى لْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ لَمْ كَانَ إِذَا عَجَلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ – قِيلَ وَ بِمَعْنَاهُ رَوَاهُ عَقِيلُ ابْنُ جَابِرٍ وَعَطَاءُ.
ابن فضیل کی ایک روایت میں ہے ، وہ اپنے باپ سے اور وہ نافع اورعبداللہ بن واقد سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر کا مؤذن کہتا ”الصلاة“ آپ فرماتے چلو جب ابھی شام کی سرخی غروب نہیں ہوئی اس سے پہلے ہی آپ پڑاؤ کرتے تو مغرب کی نماز پڑھتے پھر انتظار کرتے یہاں تک کہ شفق غائب ہو جاتی تو آپ عشاء کی نماز پڑھتے پھر فرماتے ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جلدی ہوتی تو آپ اسی طرح کرتے جس طرح میں نے کیا ہے ۔
اسی مفہوم کی عقیل ابن جابر اور عطاء سے روایت منقول ہے ۔
تحقیق و تخریج:
یہ حدیث صحیح ہے .
ابوداؤد: 1212، باسناد حسن، ابوداود: 1218 راوی عقیل بن خالد ابوداود: 1213، راوی عبدالرحمن بن یزید بن جابر ۔

فوائد:
➊ انسان سفر میں کسی ایسے ساتھی کو ساتھ لے جا سکتا ہے جو اذان تکبیر کا اہتمام کر سکتا ہو اور دوسرا فائدہ ساتھی کا یہ ہوتا ہے کہ انسان سفر میں بھی نماز جماعت کی صورت میں ادا کر سکتا ہے ۔
➋ نماز مغرب کے بعد نماز عشاء کو سرخی غائب ہو جانے کے وقت پڑھا جا سکتا ہے یعنی بقدر تقدیم سے نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء بھی اداکی جا سکتی ہے یہ اس صورت میں ہے جب انسان جلدی میں ہو ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: