حسین ابن علی رض کی شہادت کا المیہ صحیح روایات کی روشنی میں
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث حضرو

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کر دیا ہے؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں ، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا ۔ [مسند احمد 85/1 ح 648 و سنده حسن ، عبدالله بن نجي و ابوه صدوقان و ثقهما الجمهور ولا ينزل حديثهما عن درجة الحسن ، انظر نيل المقصود فى تحقيق سنن ابي داود: 227]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے ، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں ۔ [مسند احمد 242/1و سنده حسن ، ديكهئے ماهنامه الحديث حضرو: 10 ص 14 تا 16 اور شماره: 20 ص 18 تا 23]
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) موجود تھے اور آپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی ۔ [مشخية ابراهيم بن طهمان: 3 و سنده حسن و من طريق ابن طهمان رواه ابن عساكر فى تاريخ دمشق 192/14 ، وله طريق آخر عندالحاكم 398/4 ح 5202 و صححه عليٰ شرط الشيخين و وافقه الذهبي ]
شہر بن حو شب (صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا ) حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو ، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ، اللہ انہیں قتل کرے ، انہوں نے آپ سے دھوکاکیا اور آپ کو ذلیل کیا ، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ [فضائل الصحابة ، زوائد القطيعي 782/2ح 1392 و سنده حسن ، و مسند احمد 298/6 ح 6550 و سنده حسن ]
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کیا گیا تو آپ کاسر مبارک عبیداللہ بن زیاد (ابن مرجانہ ، ظالم مبغوض ) کے سامنے لایا گیا تو وہ ہاتھ میں چھڑی کے ساتھ آپ کے سر کو کریدنے لگا ۔ یہ دیکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حسین (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۔ [ديكهئے صحيح بخاري: 3748 ]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی (عراقی) نے مچھر (یا مکھی) کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: اسے دیکھو ، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے (نواسے ) کو قتل (شہید) کیا ہے ۔ [صحيح بخاري: 5994 ، 3753 ]
سعد بن عبیدہ (ثقہ تابعی) بیان کرتے ہیں کہ میں نے (سیدنا )حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا ، آپ ایک کپڑے (برود) کا جبہ (چوغہ) پہنے ہوتے تھے ۔ عمرو بن خالد الطہوی نامی ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کے چوغے سے لٹک رہا تھا ۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر 214/14 و سنده صحيح ]
شہر بن حو شب سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس موجود تھا ۔ میں نے (سیدنا ) حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کی خبر سنی تو ام سلمہ کو بتایا ۔ (کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے ہیں)انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کر دیا ہے ، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے ) بیہو ش ہو گئیں ۔ [تاريخ دمشق 229/14 و سندحسن ]
سیدہ اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہ (توفیت سنۃ 65؁ھ) نے فرمایا: میں نے جنوں کو (امام) حسین (رضی اللہ عنہ کی شہادت ) پر روتے ہوئے سنا ہے ۔ [المعجم الكبير للطبراني 121/3 ح 2862 ، 122/3 ح 2867 ، فضائل الصحابه لا حمد 776/2ح 1373 و سنده حسن ]
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (10) محر م (عاشور اء کے دن) اکسٹھ (61) ہجری میں شہید ہوئے ۔ [ديكهئے تاريخ دمشق لابن عساكر 237/14 وهو قول اكثر اهل التاريخ ]
یہ ہفتے (سبت) کا دن تھا ۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 243 بسند صحیح عن ابی نعیم الفضل بن دکین الکوفی رحمہ اللہ) بعض کہتے ہیں کہ سوموار کا دن تھا ۔ [ديكهئے تاريخ دمشق 236/14 ]
مشہور جلیل القدر ثقہ تابعی ابورجاء عمران بن ملحان العطار دی رحمہ الله نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے مگر صحابیت کا شرف حاصل نہ ہوسکا ۔ وہ ایک سو بیس (120) سال کی عمر میں ، ایک سو پانچ (105؁ھ) میں فوت ہوئے ۔
ابورجاء العطار دی رحمہ الله فرماتے ہیں: علی اور اہل بیت کو برانہ کہو ، ہمارے بلہجیم کے ایک پڑوسی نے (سیدنا ) حسین رضی اللہ عنہ کو برا کہا: تو اللہ تعالیٰ نے اسے اندھا کر دیا ۔ [المعجم الكبير للطبراني 112/3 ح 2830 ملخصاً و سنده صحيح ]
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سی ضعیف و مردود اور عجیب و غریب روایات مروی ہیں جنہیں میں نے جان بوجھ کر یہاں ذکر نہیں کیا ۔ دین کا دارومدار صحیح وثابت روایات پر ہے ، ضعیف و مردود روایات پر نہیں ۔
صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو غیر ثابت اور مردود تاریخی روایات پر اپنے عقائد و عمل کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان مردود روایات کو ”مسلم تاریخی حقائق“ کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا: اگر میں ان لوگوں میں ہوتاجنہوں نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو قتل (شہید) کیا ، پھر میری مغفرت کر دی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتاکہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں ۔ [المعجم الكبير للطبراني 112/3 ح 2829 و سنده حسن ]
آخر میں ان لوگوں پر لعنت ہے جنہوں نے سیدنا و محبو بنا و امامنا الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا یا شہید کرایا یا اس کے لئے کسی قسم کی معاونت کی ۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو سیدنا الامام المظلوم الشہید حسین بن علی ، تمام اہل بیت اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے ۔ آمین
سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہ سے نواصب حضرات بُغض رکھتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ان کے دعویِ محبت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ، اہل بیت رضی اللہ عنہ کی محبت میں غلو کرتے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ دونوں فریق افراط و تفریط والے راستوں پر گامزن ہیں ۔ اہل سنت کا راستہ اعتدال اور انصاف والا راستہ ہے ۔ والحمدللہ
اہل سنت کے ایک جلیل القدر امام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ الله نے شہادتِ حسین وغیرہ تاریخی واقعات کو ابومخنف وغیرہ کذابین و متروکین کی سند سے اپنی تاریخ طبری میں نقل کر رکھا ہے ۔
یہ واقعات و تفاصیل موضوع اور من گھڑت وغیرہ ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لیکن امام طبری رحمہ الله بری ہیں کیونکہ انہوں نے یہ سندیں بیان کر دی ہیں ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے صرف وہی روایت پیش کرنی چاہئے جس کی سند اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی رو شنی میں صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو ورنہ پھر خامو شی ہی بہتر ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مسند متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں ۔ وما علينا إلا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے