تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سوال: ایک آدمی نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لی۔ کیا وہ اپنی دوسری بیوی کی بہن سے اپنی پہلی بیوی سے ہونے والے بیٹے کا نکاح کر سکتا ہے؟
جواب: کر سکتا ہے۔ یہ حرام رشتوں میں سے نہیں ہے۔
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سوال: کیا کوئی شخص اپنے بھانجے کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟
جواب: جائز ہے۔ یہ بھی حرام رشتوں میں سے نہیں ہے۔
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے طلاق دے دی، کیا اب اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے؟
جواب: نہیں وہ اس کی ساس ہے اور ساس سے نکا ح بروئے قرآنِ کریم حرام ہے، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ الله ( 279 – 279 ھ ) ایک ’’ ضعیف “ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَالْعَمَلُ عَلٰي هٰذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوْا : إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرأَةَ، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَّدْخُلَ بِهَا، حَلَّ لَه أَنْ يَّنْكِحَ ابْنَتَهَا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الاِبْنَةَ، فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَّدْخُلَ بِهَا، لَمْ يَحِلَّ لَه نِكَاحُ أُمِّهَا، لِقَوْلِ اللهِ تَعَالٰي : ﴿وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ﴾ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ .
”اکثر اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آدمی کسی عورت سے شادی کرے، پھر اسے خلوت سے پہلے طلاق دے دے تو اس کی بیٹی سے نکا ح کر سکتا ہے، لیکن اگر وہ بیٹی سے نکا ح کرے اور خلوت سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس کی ماں سے نکا ح جائز نہیں، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ [ النساء 4 : 23 ] ”اور تمہاری بیویوں کی مائیں بھی تم پر حرام ہیں۔ “
امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق راہویہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔ “ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 1117 ]
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سوال: حرمت والے مہینے کون سے ہیں ؟
جواب: حرمت والے مہینے چار ہیں : ➊ رجب ➋ ذوالقعدہ ➌ ذوالحجہ ➍ محرم
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سوال: اگر کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے لیے غسل کرنا کیسا ہے؟
جواب: اسلام قبول کرنے والے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، جیسا کہ قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّه أَسْلَمَ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَّغْسِلَ بِمَاءٍ وَّسِدْرٍ .
”وہ مسلمان ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل کرنے کا حکم دیا۔ “ [ مسند الإمام أحمد : 2611، سنن أبى داؤد : 355، سنن النسائي : 188، سنن الترمذي : 605، وقال : حسنٌ، وسندهٗ حسنٌ ]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (254، 255)، امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 1240) اور امام ابن جارود (14) رحمہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ لِلرَّجُلِ إِذَا أَسْلَمَ أَنْ يَّغْتَسِلَ وَيَغْسِلَ ثِيَابَه.
”اہلِ علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جب کوئی شخص مسلمان ہو
جائے تو وہ اس کے لیے غسل کرنا اور اپنے کپڑے دھونا مستحب سمجھتے ہیں۔ “ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 605 ]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ثُمَامَہ بن اُثال رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذْهَبُوا بِه إِلٰي حَائِطِ بَنِي فُلَانٍ، فَمُرُوهُ أَنْ يَّغْتَسِلَ
”اسے فلاں شخص کے باغ میں لے جاؤ اور غسل کرنے کا کہو۔ “
[ مسند الإمام أحمد : 304/2، وسندهٗ قويٌّ ]
(more…)