صحابہ اکرام کی نظر میں سنت کی اہمیت اور منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کے جوابات

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

دین اسلام کے مصادر :

دین اسلام کے مصادر چار ہیں:
(1) كتاب الله عز وجل
(2) بسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(3) اجماع
(4) قياس
اور یہ اصول وضوابط و مصادر کتاب وسنت ہی کے نصوص پر مبنی ادلہ سے ماخوذ و مستنبط ہیں۔ امام دارمی اور بیہقی نے میمون بن مہران سے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تو اگر اس کا حل کتاب اللہ میں پاتے تو فیصلہ کرتے نہیں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھونڈتے اگر اس میں حل ملتا تو اس کا فیصلہ کرتے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے کہ کیا کسی کو اس مسئلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم اور فیصلہ معلوم ہے؟ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوتا اور بتاتے تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے ۔ اگر کوئی فیصلہ نہیں ملتا تو اکابر صحابہ کرام کو جمع کر کے اُن سے مشورہ کرتے ، اگر وہ متفق ہو کر فیصلہ دیتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا فیصلہ فرماتے۔
بحواله اعلام الموقعين: 118/2۔
عبد اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ کو اگر وہ مسئلہ قرآن کریم میں مل جاتا تو اس سے جواب دیتے ۔ نہیں تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو جواب دیتے نہیں تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا کے اقوال وفتاوی میں ملتا تو اس سے جواب دیتے، ورنہ اپنے اجتہاد سے جواب دیتے تھے۔
سنن دارمي 55/1 ۔ الفقيه والمتفقه: 203/1۔

کتاب الله عز وجل :

اللہ تعالیٰ کا قرآن شریعت اسلامیہ کا مصدر اوّل ہے، اور مکمل ضابطہ حیات ہے،مشعل ہدایت ہے اس کا نور عالمتاب قیامت تک انسانوں کو راہ دکھاتا رہے گا۔ آندھیاں چلیں گی، طوفان اُٹھیں گے، بڑی بڑی سازشیں ہوں گی لیکن جب تک قیامت نہیں آجاتی ، یہ قرآن بغیر کسی ادنی تغییر و تحریف کے باقی رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‎
(15-الحجر:9)
”بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں دوسرا حصہ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی قیامت تک حفاظت کرتا رہے گا۔
امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ احکامِ شرعیہ اور ان مسائل میں جن میں ظاہری علوم کا دخل نہیں دلیلوں کے پانچ اصول ہیں:
پہلا اصل :
اللہ کی کتاب ہے۔ اور یہ آیت تلاوت کرتے :
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ
(6-الأنعام:38)
”ہم نے کتاب میں کوئی چیز بیان کیے بغیر نہیں چھوڑی۔“
دوسرا اصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت ہے۔ اور بطور استدلال یہ آیت پڑھتے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(4-النساء:59)
” اگر کسی چیز میں اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو “
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کی وفات کے بعد لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے ۔ عليكم بسنتي حدیث کی روایت بھی کرتے ، اور یہ آیت کریمہ تلاوت کرتے
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:8)
”جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کرے اس سے باز آجاؤ ۔ “
تیسرا اصل:
کسی زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اگر وہ آپس میں اختلاف نہ کریں۔ اگر ان میں سے ایک عالم نے بھی اختلاف کر دیا تو اجماع ثابت نہ ہوگا۔ اجماع کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بعض علماء سے کوئی قول مشہور ہو دوسرے لوگوں کو اس کا علم ہو لیکن کسی نے اس کا انکار نہ کیا ہو۔
پہلا درجہ اجماع صحابہ کا ہے بعد کے لوگوں کو اس کے تابع رہنا ہے۔
چوتھا اصل :
کسی ایک صحابی کا قول ہے جولوگوں میں مشہور ہو۔ کسی صحابی نے اس پر نکیر نہ کی ہو۔
پانچواں اصل :
قیاس ہے، اور قیاس یہ ہے کہ کسی مسئلے کا شرعی حکم ثابت ہو تو اس جیسے دوسرے مسئلے پر بھی مشترک سبب کی بنا پر حکم لگانا اور اگر دونوں مسئلوں میں کوئی مشترک سبب نہ ہو تو قیاس جائز نہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ ایسے ہی قیاس کو جائز سمجھتے تھے، پھر بھی قیاس کو دلیلوں کے درمیان مجبوری میں مردہ گوشت کھانے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی سے تیمم کی طرح جانتے تھے۔
اصول مذهب الإسلام أحمد ومشربه المطبوع بآخر طبقات الحنابلة لابن أبى يعلى: 283/2، 285.

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم :

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم شریعت اسلامیہ کا مصدر ثانی ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم وتفسیر اور بیان کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔ آپ پر قرآن مجید کا نزول ہوتا تو آپ اس کی توضیح فرما دیتے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(16-النحل:64)
”اور اس کتاب کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تا کہ آپ لوگوں کے لیے اس کو کھول کر بیان کر دیں جس بات میں وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور وہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ “
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حقیقت میں قرآنِ مجید کی تفسیر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع أميري فقد أطاعني، ومن عصى أمري فقد عصاني.»
صحيح بخاري، كتاب الأحكام، رقم: 7137
”جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ “
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس پر شاہد عدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیل کرتی ہیں۔“
ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے ابن مسعود! میں نے سارے قرآن کو پڑھا ہے لیکن قرآن میں ایسی عورت پر لعنت کہیں نہیں ہے۔ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو پڑھتی تو ضرور پالیتی ، اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے سارا قرآن پڑھا ہے۔ لیکن لعنت کہیں نہیں ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو نے یہ آیت کریمہ نہیں پڑھی؟
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
(59-الحشر:7)
” اور جو تمہیں رسول دیں اسے لے لو، اور جس سے روکیں اس سے باز آ جاؤ۔“ اس نے کہا:” کیوں نہیں“
صحيح بخاري، كتاب التفسيں، رقم: 4886.
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ‎
(6-الأنعام:82)
”وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کیا، انہی کے لیے امن ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ “
تو سب مسلمان پریشان ہو گئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی کہ ”اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا ۔ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 336۔ سنن ترمذي، رقم: 2425

قرآنِ مجید کی روشنی میں سنت رسول کا مقام :

اہل ایمان کا طرز یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں قرآن وسنت کی طرف بلایا جاتا ہے، تو فورا سر نیا زخم کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(24-النور:51)
” مومنوں کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں، تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی اور اسے مان لیا، اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی ہو
ادھر فرمانِ محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو
اطاعت فرض عین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
(8-الأنفال:20)
”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کے حکم کو سن کر اس سے روگردانی نہ کرو۔ “
دوسری جگہ فرمایا:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(3-آل عمران:132)
”اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ “
مزید ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎(31‏) قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ(32)
(3-آل عمران:31، 32)
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا ۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ یہ آیت کریمہ اُن تمام لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور طریقہ محمدی پر گامزن نہیں ہوتے۔ جب تک آدمی اپنے تمام اقوال و افعال میں شرع محمدی کی اتباع نہیں کرتا ، وہ اللہ سے دعوئے محبت میں کاذب ہوتا ہے۔
تفسير ابن كثير تحت الآية.
مزید برآں یہ آیت دلیل ہے کہ طریقہ محمدی کی مخالفت کفر ہے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا: اگر انہوں نے اعراض سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا ۔ معلوم ہوا کہ طریقہ محمدی سے اعراض کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ سورۃ النور میں فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(24-النور:63)
”پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہو جائے ، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔ “
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ آیت کریمہ کا یہ جز اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے تمام امور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت غرا اور ان کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا واجب ہے، جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوگی اسے قبول کر لیا جائے گا، اور جو قول و عمل اس کے مخالف ہو گا اسے رد کر دیا جائے گا، چاہے کہنے یا کرنے والا کوئی بھی انسان ہو۔
فقہاء امت نے اسی آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا ”امر“ وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں آپ کے حکم کو ترک کر دینے کا لازمی نتیجہ دو سزاؤں میں سے ایک کو بتایا گیا ہے کہ یا تو کوئی بلا نازل ہوئی یا کوئی دردناک عذاب۔ اس لیے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، یا فاسد تاویلوں کے ذریعہ دوسروں کے اقوال کو اس پر ترجیح دیتے ہیں، انہیں اس آیت پر ضرور غور کرنا چاہیے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومحبت کا تصور کرتے ہوئے، کسی کے قول و عمل کے مقابلے میں درخور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و اقرار
سورۃ الحجرات میں فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎
(49-الحجرات:1)
”اے ایمان والو! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع کر دیا ہے کہ وہ عجلت میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بات کہیں، یا کوئی کام کریں، یا اللہ اور اس کے رسول کا حکم جاننے سے پہلے کوئی اقدام کریں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانو ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی کام کرنے میں جلدی نہ کرو، بلکہ تمام امور میں ان کی پیروی کرو۔
تفسير ابن كثير۔
ابن جریر نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اے وہ لوگو! جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا ہے، تم اپنے کسی جنگی یا دینی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے پہلے خود کوئی فیصلہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف فیصلہ کر لو۔ عرب کہا کرتے ہیں:فلان يتقدم بين يدى إمامه ، یعنی فلاں شخص امام سے پہلے امر اور نہی صادر کرنے لگتا ہے ۔
تفسير ابن جرير
اور آیت کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو! اپنے تمام معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان معاملات میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ کوئی کام کیا جائے ، نہ کوئی بات کہی جائے ، اور نہ ان کے فیصلہ سے پہلے کوئی فیصلہ کیا جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
(4-النساء:59)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اس میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔“
علامہ طیبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ واطيعوا الرسول میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل اور” واولی الامر“ میں فعل کا عدم اعادہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن وسنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی ، ورنہ نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”واولی الامر“ سے مراد اہل فقہ ودین ہیں ۔ اور مجاہد ، عطا اور حسن بصری وغیر ہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں ۔
امام مجاہد اور دوسرے علماء سلف نے کہا ہے کہ ”اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو“ سے مقصود قرآن و سنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن وسنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن وسنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے۔
بحواله تيسير الرحمن ص: 269۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(4-النساء:65)
”پس آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں ، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں ۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لیے کہ آپ کا فیصلہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دعویٰ دل میں اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر و باطن اسے تسلیم کرلے، اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں بھی شبہ باقی نہ رہے۔
کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نا فرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
(33-الأحزاب:36)
”اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : کہ اس آیت کریمہ میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے، یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے ، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
تفسير ابن كثير تحت الآية.
کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر کے اللہ کا فرمانبردار نہیں بن سکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی کر کے اللہ کی بندگی اور عبادت نہیں ہو سکتی ۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ‎
(4-النساء:80)
”جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی ، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان کا پہرہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفسیر و توضیح اپنی خواہش نفس کے مطابق نہیں لاتے ہیں، بلکہ وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (‎3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(4)
(53-النجم:3، 4)
” اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں، وہ تو وحی ہوتی ہے جو اُن پر اُتاری جاتی ہے۔ “
سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
(4-النساء:113)
” اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت دونوں کو نازل کیا ہے۔“
صاحب فتح البیان رقمطراز ہیں: یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحی ہوتی تھی جو آپ کے دل میں ڈال دی جاتی تھی۔
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
« وسمعت من أرضاه من أهل العلم بالقرآن يقول: الحكمة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.»
الرسالة، ص:13
”میں قرآن مجید کے جن اہل علم کو پسند کرتا ہوں ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا نام ہے۔ “
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والحكمة هي السنة باتفاق السلف»
كتاب الروح، ص: 119۔
سلف صالحین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حکمت سے مراد سنت ہے۔
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، ایک شخص آیا، اس نے جبہ پہن رکھا تھا۔ اس پر زعفران یا پیلے رنگ کے نشان تھے۔ اس نے سوال کیا کہ آپ مجھے عمرہ میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا: جب آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے کپڑے سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں چاہتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت دیکھوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم وحی کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ”ہاں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کپڑے کا کونہ اٹھایا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سے اونٹ کی آواز کی طرح آواز آرہی تھی۔ جب آپ سے وحی کی کیفیت دور ہوئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمرہ سے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ پھر آپ نے اس سے کہا: جبہ اتار دو، زعفران اور پیلا رنگ اپنے جسم سے صاف کرلو، اور جس طرح حج میں کرتے ہو اسی طرح عمرہ میں کرو ۔
صحيح بخاري، كتاب الحج، رقم: 1536۔ صحيح مسلم، رقم: 1180/6۔ سنن ابوداؤد، رقم: 1819.
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
(47-محمد:33)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال کو بے کار نہ بناؤ۔“
اور سورۃ القیامہ میں فرمایا:
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ‎(16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‎(17)‏ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18)‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (‎19)
(75-القيامة: 16 تا 19)
”اے میرے نبی ! آپ ( نزول وحی کے وقت ) اپنی زبان نہ ہلائیے تا کہ اسے جلدی کریں۔ بے شک اس کا جمع کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہمارا کام ہے۔ اس لیے جب ہم اس کی قراءت پوری کر لیں تو آپ اُسے پڑھ لیا کیجیے۔ پھر یقینا اس کی تفسیر و توضیح بھی ہمارا ہی کام ہے۔“
بخاری و مسلم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ ہونٹ ہلانے لگتے ۔ آپ سے کہا گیا کہ آیتوں کو یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلائے ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آپ کے سینے میں محفوظ کر دیں تاکہ نزول وحی ختم ہونے کے بعد آپ انہیں پڑھیں۔ اس لیے جب ہم پوری وحی نازل کر چکیں، تب آپ پڑھیے پھر اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جبریل وحی لے کر آتے تو آپ غور سے سنتے ، اور جب جبریل چلے جاتے ، تو آپ ویسے ہی پڑھتے جس طرح جبریل نے پڑھا تھا۔
صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي، رقم: 5 و كتاب التفسير رقم: 4929۔ صحيح مسلم، كتاب الصلاة رقم: 448۔
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ کے ضمن میں مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیئس سالہ نبوت کی زندگی میں قرآن کریم کی تشریح و توضیح کے لیے جو کچھ کہا اور کیا، اور جنتی باتوں کی تائید کی اور جتنی باتوں سے منع فرمایا، جسے اسلام کی زبان میں ”حدیث“ کہا جاتا ہے، وہ پورا ذخیرہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کا حصہ تھا، اور اگرچہ قرآن نہیں تھا، لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں موجود ربانی وعدے کے مطابق، وہ ذخیرہ قرآن کی تشریح اور اس کا بیان تھا، اور امت کے لیے آسمانی وحی کی حیثیت سے واجب الاتباع تھا۔
مصطفیٰ سے ہم کو ورثے میں ملی ہیں دو کتاب
ایک کلام اللہ دوم آپ کا فعل الخطاب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے سنت کی اہمیت کا بیان :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور عام امت کو اپنی اطاعت اور اتباع کا حکم فرمایا اور اپنی زبانِ اطہر سے اپنی سنت مطہرہ کی اہمیت کو واضح کیا۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبي، قالوا : يا رسول الله، ومن يأبي؟ قال: من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد أبي.»
صحيح بخارى، كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 827.
” میری ساری امت جنت میں جائے گی مگر جس نے انکار کیا، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انکار کون کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی ، پس تحقیق اس نے انکار کیا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی اتباع واطاعت میں ہی خیر اور بھلائی ہے۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرماتے:
«أما بعد، فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدى محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة.»
صحيح مسلم، كتاب الجمة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، رقم: 2005.
”اما بعد، سب سے اچھا کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین طریقہ وسیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ اور سب سے برے کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علاوہ گمراہی ہی گمراہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما أبدا كتاب الله وسنه نبيه»
مؤطا امام مالك، كتاب القدر باب النهي عن القول بالقدر رقم: 3- مستدرك حاكم: 1/39- سلسلة الصحيحة رقم: 1791.
”میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت “
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من لم يكن يكفيه ذان فلا كفا ه الله شر حوادث الأزمان
من لم يكن يشفيه ذان فلا شفا ه الله فى قلب ولا أبدان
من لم يكن يغنيه ذان رما ه الله رب العرش بالأعدام والحرمان
من لم يكن يهديه ذان فلا هدا ه الله سبل الحق والإيمان .

القصيدة النونية مع شرحه للخليل الهراس،ص:347
”جو شخص قرآن وحدیث کو کافی نہیں سمجھتا تو اللہ تعالیٰ اس کو گردش دوراں کے حوادث کے شر کی نظر کر دے ۔
جس شخص کی تشفی کتاب وسنت سے نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب و جسم کو شفاء نہ دے۔
جو شخص قرآن وحدیث کے ذریعے دیگر اشیاء سے بے پرواہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اعدام اور حرمان نصیبی اس کا مقدر بنادے۔
جس کو قرآن وحدیث ہدایت نہ دے اللہ تعالیٰ اس کو حق اور ایمان کی دولت سے محروم کر دے۔ “
سید نا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة»
سن ابوداؤد، رقم: 4607۔ جامع ترمذي، رقم: 2676۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
”تم میں جو شخص زندہ رہا تو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے دانتوں سے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہر بدعت (من گھڑت کام ) گمراہی ہے۔ “
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے۔ ہر مسلمان پر اس کا اتباع اسی طرح فرض ہے جس طرح قرآنِ مجید کا اتباع فرض ہے۔ چنانچہ سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«الا اني أوتيت القرآن ومثله معه»
سنن ابوداؤد، كتاب السنة، رقم: 4606۔ سنن ابن ماجة، رقم: 12 ۔ مسند أحمد: 130/4 – محدث الباني نے اسے صحيح قرار ديا هے۔
”خبر دار ! مجھے قرآن مجید دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی مانند اور بھی عطا کیا گیا ہے۔ “
«عن حسان قال: كان جبريل ينزل على النبى صلى الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه القرآن.»
سنن دارمي، المقدمة، رقم: 4/592
” جناب حسان بن عطیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن حکیم لاتے تھے اسی طرح سنت بھی لاتے تھے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلت و حرمت بھی اللہ تعالیٰ کی حلت و حرمت کے مترادف ہے۔
«إنما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حرم الله.»
سنن ترمذي، كتاب العلم، رقم: 2664۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
” بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ چیزوں کو اسی طرح حرام کیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ نے سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا : یہ اس امت کا امین ہے۔
سلسله احاديث صحيحه، رقم: 1963۔ صحيح مسلم، رقم: 2419
یاد رہے کہ عبادات بغیر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادا نہیں ہوسکتیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«خذوا مناسككم»
سنن نسائي، كتاب مناسك الحج، رقم: 3062 ارواء الغليل، رقم: 1095۔ محدث الباني نے اسے صحيح كها هے۔
مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو۔“
اور مزید فرمایا:
«صلوا كما رأيتموني أصلي.»
صحيح البخاري، كتاب الأذان، رقم: 631 .
”جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو، ویسے نماز پڑھو۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«فمن رغب عن سنتي فليس منى.»
صحيح بخاري، رقم: 5063۔ صحيح مسلم، رقم: 1401.
”جس نے میری سنت سے بے رغبتی ظاہر کی وہ مجھ سے نہیں۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”جو شخص میری سنت کا انکاری ہے اس پر اللہ کی، میری اور ہر نبی کی لعنت ہے۔“
مستدرك حاكم: 525/2۔ حاكم نے اسے صحيح كها هے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”میں نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ تعالی سے قریب کرے اور جہنم سے دور مگر میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے ۔ “
سنن الكبرى للبيهقي: 76/7.
مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«((ما تركت شيئا مما أمركم الله به إلا وقد أمرتكم به، ولا شيئا مما نهاكم عنه إلا وقد نهيتكم عنه.»
سنن الكبرى، رقم: 13443.
”اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا تمہیں حکم دیا ہے میں نے اس کو نہیں چھوڑامگر میں نے بھی تم کو اس کا حکم دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تم کو کسی چیز سے منع نہیں کیا لیکن تحقیق میں نے بھی تم کو اس سے روک دیا ہے۔“
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے [اعلام الموقعين : 307/2] میں فرمایا ہے کہ قرآن کے احکام کے ساتھ سنت کے احکام کی وضاحت تین طرح سے آئی ہے:
❀ سنت کے احکام قرآن کے احکام کے مکمل طور پر موافق ہوں۔اس طرح ایک ہی مسئلہ میں قرآن وسنت کا اتفاق ہوگا۔ جیسے نماز روزہ حج زکوۃ کے فرض ہونے کے احکام، جو شرائط اور ارکان کے ذکر کے بغیر ہوں۔
❀ جو قرآن مجید نے چاہا سنت میں ان احکام کی وضاحت و تفسیر کی گئی ۔ یعنی جہاں قرآنِ مجید نے مطلق بات کی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مقید کر دیا، مجمل کہی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بتادی۔ یا قرآنِ مجید کی بات عام ہے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تخصیص کردی۔ مثلاً احکام نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ، لین دین اور خرید وفروخت کے بارے میں قرآنِ مجید میں پوری تفصیلات نہیں ہیں۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
❀ سنت کے وہ احکام جن میں قرآن مجید خاموش ہے یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز کو حرام کیا ہو جن کے بارے میں قرآنِ مجید خاموش ہو جیسے پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا، شادی شدہ زانی و زانیہ کو سنگسار کرایا ، اور دو گواہ نہ مل سکنے کی صورت میں قسم کے ساتھ ایک ہی گواہی قبول کر لی۔ ایسے احکام کسی بھی صورت میں قرآن مجید کے ساتھ نہیں ٹکراتے بلکہ وہ قرآنی احکام پر اضافہ ہیں۔ یہ بھی شریعت ہے جسے ماننا فرض ہے اور نہ ماننا کفر ہے۔ یہ نہ قرآن مجید سے آگے بڑھنے والی بات ہے اور نہ مخالفت کی بلکہ قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو جو عمل اور ایمان کا نام ہے۔ رسول اللہ صلے تعلیم کے ترک کردہ امور بھی سنت ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن قیم جلالہ نے صحابہ صلی اللہ کے رسول اللہ نے ایم کے ترک کو نقل کرنے کی دو قسمیں بیان کی ہیں اور فرماتے ہیں: وُ كِلَاهُمَاسُنَّة ” اور دونوں ہی سنت ہیں“ اس کے بعد ان دونوں قسموں کی تفصیل اور مثالیں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
«فإن تركه صلى الله عليه وسلم سنه كما أن فعله سنة، فإذا استحببنا فعل ما تركه كان نظير استحبابنا ترك ما فعله ، ولا فرق»
إعلام الموقعين: 371۔ 370/2.
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترک سنت ہے جیسا کہ آپ کا فعل سنت ہے۔ پس اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کام کو جسے آپ نے ترک کیا کرنا مستحب سمجھیں تو یہ بعینہ اس طرح ہو گا جیسا کہ آپ نے جو کام کیا اس کے نہ کرنے کو ہم مستحب سمجھیں۔ “
امام جمال الدین المحدث فرماتے ہیں :
«تركه صلى الله عليه وسلم سنته كما أن فعله سنته»
صفة الجنه، ص: 143.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز اور کام کو ترک کرنا بھی سنت ہے، جیسا کہ آپ کا فعل سنت ہے۔ “

قرآن وسنت کا باہمی تعلق :

قرآن مجید کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«آن الأمانة نزلت من السماء فى جذر قلوب الرجال، ونزل القرآن، فقرء وا القرآن وعلموا من السنة»
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 7272.
”دیانتداری آسمان سے لوگوں کے دلوں میں اتری ہے یعنی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور قرآن بھی (آسمان سے ) نازل ہوا ہے، جسے لوگوں نے پڑھا اور سنت کے ذریعے سمجھا۔ “

سنت قرآنی حکم کی وضاحت بیان کرتی ہے :

پہلی مثال :

جب قرآنی آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(6-الأنعام:82)
”جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد اپنے ایمان کو ظلم سے خلط ملط نہیں کیا، انھی لوگوں کے لیے بے خوفی ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔“
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت پریشانی ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کون ایسا ہے، جس نے کوئی ظلم یعنی گناہ نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ليس ذلك إنما هو الشرك، ألم تسمعوا ، قال لقمان لابنه: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم »
صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم: 32۔ صحیح سنن ترمذی، رقم: 2452۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 124، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ .
”آیت میں ظلم سے مراد گناہ نہیں بلکہ شرک ہے، کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی، اے میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی ختم ہوئی۔

دوسری مثال :

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(24-النور:2)
” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کے معاملے میں تم کو ترس نہ آئے ۔ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔“
اس آیت میں زانی کی سزا سو کوڑے بیان کی گئی ہے لیکن یہ وضاحت نہ تھی کہ یہ سزا شادی شدہ جوڑے کی ہے، یا غیر شادی شدہ کے لیے ہے۔ چنانچہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی کہ مذکورہ سزا غیر شادی شدہ کے لیے ہے۔ شادی شدہ کو رجم کرنا ضروری ہے جیسا کہ آنے والے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔ سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
«قال جاء ما عز بن مالك إلى النبى صلی اللہ علیہ وسلم فاعترف بالزنا مرتين فطرده ثم جاء فاعترف بالزنا مرتين فقال: شهدت على نفسك أربع مرات اذهبوا به فارجموه »
صحیح سنن ابوداؤد، کتاب الحدود، رقم: 4426
”جناب ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دو مرتبہ زنا کا اعتراف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں واپس لوٹا دیا۔ ماعز رضی اللہ عنہ پھر حاضر ہوئے اور دو مرتبہ زنا کا اعتراف کیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دے دی ( تب لوگوں کو حکم دیا ) جاؤ اسے سنگسار کر دو۔ “

تیسری مثال:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
(5-المائدة:3)
”حرام کیا گیا ہے تم پر مردار ، خون، خنزیر کا گوشت اور ہر وہ جانور جس پر ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیا جائے ۔ “
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أحلت لنا ميتتان ودمان، فأما الميتتان: فالجوت والجراد وأما الدمان: فالكبد والطحال»
مسند احمد : 97/2ـ سلسلة الصحيحة رقم: 1118 ۔ سنن ابن ماجه، کتاب الصيد، رقم: 97/2، 3218۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 210.
”ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں: دو مردار، مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں ۔“
اس آیت میں کچھ حرام چیزوں کو بیان کیا گیا، ان میں سے مردار بھی ہے، لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی کی تخصیص فرمادی کہ یہ دونوں مردار حلال ہیں ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خون بھی حلال فرمائے کہ ان خونوں کو بھی کھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سمندر کا مردار حلال ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«سئل عن البحر قال: هو الطهورماءه والحل ميته»
سنن ابوداؤد، کتاب الطهارة، رقم: 33۔ سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم: 382، 388۔ صحیح ابن خزیمه، رقم: 112 ۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 380.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار یعنی مچھلی حلال ہے۔ “

چوتھی مثال :

قرآن حکیم میں حکم ربانی ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ
(7-الأعراف:32)
”اے محمد ! ان سے کہو، کس نے اس رزق کی پاکیزہ چیزوں کو اور اللہ کی زینت کو حرام قرار دیا ہے، جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا ہے۔“
اس آیت میں زیب و زینت کی تمام چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے، لیکن اس چیز کی وضاحت نہ تھی کہ عورتوں کے لیے کیا چیزیں حلال ہیں، اور مردوں کے لیے کیا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کی ۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أحل الذهب والحرير لإناث أمتي وحرم على ذكورها»
صحیح سنن نسائی کتاب الزينة، رقم: 5148۔ سنن ترمذی، کتاب اللباس، رقم: 172 ۔ سنن ابن ماجه رقم: 3595 ارواء الغلیل، رقم: 277.
”میری اُمت کی عورتوں کے لیے سونا اور ریشم حلال کیا گیا ہے اور مردوں کے لیے حرام کیا گیا ہے۔“

پانچویں مثال :

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(5-المائدة:6)
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھولو، سروں پر مسح کر لو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھولیا کرو ۔“
اس آیت میں وضو کا حکم دیا گیا، لیکن اعضا کو دھونے کی کیفیت اور کتنی بار دھونا ہے،سر کا مسح کیسے کرنا ہے؟ کتنی دفعہ کرنا ہے؟ اس کی وضاحت حدیث رسول ہی کرتی ہے۔ چنانچہ سیدنا حمران سے روایت ہے کہ:
«أن عثمان رضی اللہ عنہ دعا بوضوء فأفرغ على يديه من إنائه فغسلها ثلاث مرات ثم أدخل بيمينه فى الإناء، ثم تمضمض واستنشق واستنثر ثم غسل وجهه ثلاثا ويديه إلى المرفقين ثلاثا، ثم مسح برأسه، ثم غسل كل رجل ثلاثا ، ثم رأيت النبى صلی اللہ علیہ وسلم يتوضأ وضوني هذا»
صحیح مسلم کتاب الطهارة رقم : 538۔ سنن ابی داود کتاب الطهارة، رقم: 106 ۔ سنن ابن ماجه كتاب الطهارة وسننها، رقم: 285۔ صحیح بخاری، کتاب الوضو باب المضمضة في الوضو رقم: 164.
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور برتن سے دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی ، ناک میں پانی چڑھایا، ناک جھاڑا پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا اور کہنیوں تک بازو تین مرتبہ دھوئے، پھر سر کا مسح کیا پھر تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے، پھر فرمایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ “

چھٹی مثال :

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ
(2-البقرة:187)
”کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سیاہ دھاگہ سفید دھاگے سے نمایاں ہو جائے۔“
اس آیت میں مذکور سفید اور سیاہ دھاگے سے کیا مراد ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ سمجھ سکے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مشکل پیش آئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ سفید دھاگے سے دن اور سیاہ دھاگے سے رات مراد ہے، تو آیت کا مفہوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سمجھ میں آیا ورنہ پریشان تھے، چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے ایک سفید دھاگہ اور ایک سیاہ دھاگہ اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔ سحری کے وقت ان دھاگوں کو قریب رکھ کر دیکھتے رہے، جب دونوں دھاگوں کا رنگ الگ الگ واضح نظر آنے لگا تو کھانا پینا بند کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کا علم ہوا تو از راہ مزاح فرمایا کہ تمہارا تکیہ تو بڑا لمبا چوڑا معلوم ہوتا ہے، جس میں رات اور دن دونوں سما جاتے ہیں ، پھر آپ نے عدی رضی اللہ عنہ کا ابہام دور فرمایا اور اصل حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہاں سیاہ اور سفید دھاگے سے مراد وہ نہیں ہیں، بلکہ رات کی تاریکی سفیدی سحر مراد ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت پر بطور تائید ( من الفجر ) کے الفاظ نازل ہوئے ۔
صحیح بخاری کتاب التفسير باب (وكلوا واشربوا حتى يتيين ) البقره : 187/2، رقم : 4509 ۔ 4511

ساتویں مثال :

قرآن حکیم میں ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(5-المائدة:38)
”چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے جرم کا بدلہ ہےاور اللہ کی طرف سے عبرت کا سامان اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “
اس آیت میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے لیکن یہ وضاحت نہیں ہے کہ کتنے مال پر ہاتھ کاٹنا ہے؟ کہاں سے کاٹنا ہے؟ اور کس چیز پر ہاتھ نہیں کٹے گا، ان تمام چیزوں کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتی ہے۔ سید نا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
«قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا قطع فى ثمر ولا كثر»
سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، رقم: 4388۔ سنن نسائی، کتاب قطع السارق، رقم: 4960، سنن ابن ماجه، كتاب الحدود، رقم: 2593 و 2593۔ ترمذی، کتاب الحدود عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رقم: 1449 مسند احمد: 463/3۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ پھل میں اور کھجور کی گری میں ہاتھ نہیں کٹتا۔ “
فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(2-البقرة:278)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ، جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔“
اس آیت میں سود سے روکا گیا ہے، لیکن سود کی کلی وضاحت موجود نہیں ہے کہ سود کیا ہے؟ کن چیزوں میں ہے؟ کب ہو گا؟ کب نہیں ہوگا؟ ان تمام سوالوں کا جواب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے تو گویا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تفسیر کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے، برابر برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ مانگا اس نے سودی کاروبار کیا ۔
صحیح مسلم کتاب المساقاة، رقم: 1584.

صحابہ کرام بھی اللہ کے فہم وعمل کی روشنی میں سنت کی اہمیت :

ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اس ایمان سے متصف ہو جائے ، جس ایمان سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متصف تھے اور جس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے، تو وہ بندہ صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے گا۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
(2-البقرة:137)
”پس اگر یہ تمہاری طرح ایمان لے آئیں، تو ہ راہ راست پر آگئے، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو وہ مخالفت وعداوت پر آگئے، پس اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا، اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جانے والا ہے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
«اقتدوا باللذين من بعدى من أصحابي، أبى بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار وتمسكوا بعهد ابن مسعود »
صحيح الجامع الصغير رقم: 1134، 1144، 2511۔سلسلة الصحيحة رقم:1233.
” تم میرے بعد میرے صحابہ کی اقتداء کرنا ، جیسے ابوبکر وعمر ہیں ، اور عمار کی سیرت کو اپناؤ اور ایسے ہی ابن مسعود کی بیان کردہ باتوں کو مضبوطی سے تھام لو۔ “
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فانظر رحمك الله كل من سمعت كلامه من أهل فى شيء منه حتى تسأل وتنظر: هل تكلم به أصحاب زمانك خاصة فلا تدخلن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أو أحد من العلماء؟ فإن وجدت فيه أثر أعنهم فتمسك به، ولا تجاوزه لشيي ولا تختار عليه شيئا، فتسقطفي النار»
”اے قاری ! اللہ آپ پر رحم کرے کہ ہر وہ بات جو آپ سنیں خاص طور پر ہمارے دور کے لوگوں کی تو اس کی طرف جلدی نہ کیا کرو اور نہ ہی اس پر اس وقت تک عمل کی کوشش کیا کرو جب تک علماء سے سوال نہ کرلو، اور اس پر غور وفکر نہ کر لو کہ کیا (یہ بات ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا پھر علماء حقہ میں سے کسی ایک نے کہی بھی ہے یا نہیں ؟ اگر اس بارے میں آپ کو کوئی اثر و دلیل مل جائے تو اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور اس پر تجاوز نہ کریں اور اس پر کسی اور چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 146.
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اگر کوئی کسی کو آئیڈیل و نمونہ بنانا چاہتا ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو اپنا آئیڈیل بنائے، کیونکہ وہ دلوں کے لحاظ سے اس امت کے پاکیزہ ترین دلوں والے تھے، اور گہرے علم والے، اور وہ تکلف سے بری تھے اور ہدایت کے لحاظ سے پختہ ترین تھے، اور اچھے حال والے تھے، یہ وہ گروہ تھا جس کو اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے چنا تھا اور انہیں اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے پسند فرمایا تھا۔ ( تو پھر نتیجتا ) تم ان کی فضیلت کا اعتراف کرو اور ان کے آثار وسیرت اور طریقہ کی پیروی کرو، وہ صحیح ہدایت اور صراط مستقیم پر تھے۔ “
التمهيد لا بن عبد الله: 96/2.
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهم أهل السنة والجماعة، فمن لم يأخذ عنهم، فقد ضل وابتدع، وكل بدعة ضلالة، والضلالة وأهلها فى النار»
(منهج سلف صالحین)
” صحابہ کرام ہی اہل السنہ والجماعت ہیں جو ان سے دین کے معاملات میں رہنمائی نہیں لیتا ، وہ گمراہ ہو گیا، اس نے بدعت گھڑی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنمی ہیں ۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
« إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم.»
”اللہ تعالیٰ تمہاری شکل وصورت اور مال کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے ۔ “
صحیح مسلم کتاب البر والصلة، رقم: 2543.
”سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر دوڑائی تو سب سے بہترین دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا۔ چنانچہ انہیں اپنے لیے چن لیا اور انہیں اپنی رسالت دے کر بھیجا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بعد باقی انسانوں کے دلوں کو دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو بہترین پایا۔ چنانچہ انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر بنایا، جو اس کے دین کے لیے لڑتے ہیں۔ تو جس چیز کو وہ اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بری ہے ۔ “
مسند احمد : 1/ 379،صفحہ : 23۔ الفقيه والمتفقه : 1 / 166۔ خطیب بغدادی نے اسے حسن سند کے ساتھ موقوف بیان کیا ہے۔
امام الآجری رحمہ اللہ (م 360ھ) فرماتے ہیں:
«فكل من رد سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنن أصحابه، فهو ممن شاقق الرسول وعصاه، وعصى الله عزوجل بتركه قبول السنن، ولو عقل هذا الملحد وأنصف من نفسه، علم أن أحكام الله عز وجل وجميع ما تعبد به خلقه إنما تؤخذ من الكتاب والسنة، وقد أمر الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم أن يبين لخلقه ما أنزله عليه مما تعبدهم به، فقال جل ذكره: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (16-النحل:44) فقد بين لأمت جميع ما فرض عليهم من جميع الأحكام وبين لهم أمر الدنيا وأمر الآخرة وجميع ما ينبغي أن يؤمنوا به، ولم يدعهم جهلة لا يعلمون، حتى أعلمهم أمر الموت والقبر، وما يلقى فيه المؤمن، وما يلقى فيه الكافي وأمر الحشر والوقوف، وأمر الجنة والنار، حالا بعد حال يعرفه أهل الحق»
”جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سنت کوٹھکرائے گا ، وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور نافرمان ہیں، نیز وہ سنتوں کو چھوڑنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا بھی نافرمان ہوگیا ہے، اگر یہ بے دین شخص عقل کرے اور خود انصاف کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام اور مخلوق جو اس کی عبادات بجالاتی ہے، اس کے تمام طریقے کتاب وسنت سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم بھی فرمایا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کے لیے اس کے نازل کردہ تعبدی فرامین کی توضیح کریں، چنانچہ فرمایا :
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(16-النحل:44)
(اور ہم نے آپ کی طرف ذکر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل کردہ وحی کی وضاحت کریں اور تا کہ وہ غور و فکر کریں) لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے تمام وہ احکام بیان کر دیئے ہیں جو ان پر مقرر کیے گئے ہیں، نیز ان کے لیے دنیا و آخرت کا معاملہ بیان کر دیا ہے اور تمام وہ چیزیں بھی جن پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کو بے علم جاہل نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ ان کو موت اور قبر کے حالات کی بھی خبر دی ہے، مومن و کافر کے انجام، حشر ووقوف ( روز قیامت حساب کے لیے اجتماع اور قیام) اور جنت و جہنم کے لمحہ بہ لمحہ حالات بھی بیان کر دیئے ہیں، جن کو اہل حق جانتے ہیں ۔ “
الشريعة للآجری، ص:350۔ 351.
شیخ الاسلام امام احمد بن عبد الحلیم المعروف ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ ) رقم طراز ہیں:
«ومن أهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حيفة ومالكا والشافعي وأحمد فإنه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبهم ومن خالف ذلك كان مبتدعا عنداهل السنة والجماعة»
منهاج السنة، 256/1.
”یعنی اہل سنت و الجماعت قدیم ومعروف مذہب ہے جو اس وقت سے بھی پیشتر کا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کو پیدا کیا تھا اور وہ ( مذہب اہل سنت و الجماعت) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے۔ انہوں نے وہ مذہب اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا اور جو شخص اس کے خلاف چلے وہ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بدعتی ہے۔ “
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فإنا نعلم بالضرورة أنه لم يكن فى عصر الصحاب رجل واحد اتخذ رجلا منهم»
” ہم بخوبی جانتے ہیں کہ عصر صحابہ میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے ان میں سے کسی ایک کو پکڑ رکھا ہے۔ یعنی اس کی فقہ کومانتا ہو یا اس کی تقلید کرتا ہو۔“
بعینہ یہ سمجھنا کہ دور جدید کے پیدا شدہ مسائل کا حل، قدیم فقہی ذخیرہ میں ملتا ہے تو یہ بھی راست فکر نہیں اس لیے کہ:
«من زعم أن الدين كله فى الفقه بحيث لا يبقى ورائه شيء فقد عاد عن الصواب»
”جو یہ سمجھتا ہے کہ سارے کا سارا دین فقہ میں اس طرح آ گیا ہے کہ اب کوئی شے باقی نہیں رہی ، وہ صحیح سوچ سے ہٹا ہوا ہے۔“
فيض الباري: 10/2.
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” یہودیوں نے تفرقہ کیا حتی کہ وہ اکہتر (71) فرقے بن گئے ، اور نصاری تفرقے کے سبب بہتر (72) فرقے بن گئے اور میری یہ امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، اور وہ تمام کے تمام فرقے آگ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔“ پوچھا گیا کہ وہ ایک کون سا ہوگا؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: «ما أنا عليه وأصحابي»” جس چیز پر ( آج) میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ “
سنن ترمذی، کتاب الایمان، رقم: 2641۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 1348.
مذکورہ روایت میں استعمال شدہ الفاظ «ما أنا عليه وأصحابي»” میں اسی منہج سلف کی وضاحت ہے۔ جس پر وہ واحد فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کار بند ہوگا۔ یہ وہ جماعت ہوگی جو اپنا منہج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیتی ہوگی۔ مزید کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی واشگاف الفاظ میں ان لوگوں کا ذکر بھی کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فوراًبعد آئے:
«خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم.»
صحیح بخاری، کتاب الشهادات، حدیث: 2652.
”بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے بعد آئیں، پھر جوان کے بعد آئیں گے۔ “
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«أصول السنة عندنا : التمسك بما كان عليه أصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم والاقتداء بهم، وترك البدع ، وكل بدعة فهي ضلالة»
شرح اصول السنة للالكائي.
”ہمارے نزدیک اُصول سنت یہ ہیں: (1) جس مسلک و منہج اور صراط مستقیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے اُسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور اُنہی حضرات کی اقتداء کرنا۔ (2) اور بدعات وخرافات کو ترک کر دینا۔ اور یہ بات جان لیجیے کہ ہر بدعت ہی گمراہی ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«من كان مستنا فليستن بمن قدمات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا أفضل هذه الأمة، أبرها قلوبا ، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا اختارهم الله لصحبة نبيه، ولإقامة دينه، فاعرفولهم فضلهم، واتبعوهم على آثارهم، وتمسكوا بما استطعتم من اخلاقهم وسيرهم، فإنهم كانوا على الهدى المستقيم»
مشكوة المصابيح كتاب الإيمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 193.
”جو شخص کسی کی اقتداء کرنے والا ہے تو وہ ان لوگوں کی اقتداء کرے جو اسلام پر فوت ہوئے اس لیے کہ زندہ لوگ فتنے سے محفوظ نہیں ہیں، یہ صحابہ کرام اُمت اسلامیہ میں سب سے افضل ہیں۔ ان کے دل زیادہ اطاعت والے ہیں اور ان کا علم بہت گہرا ہے اور وہ تکلفات سے بری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیغمبر کی رفاقت اور اپنے دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا ۔ پس ان کی دوسری ہر فضیلت کو تسلیم کرو اور ان کے نقش قدم پر چلو اور جہاں تک ممکن ہو ان کے اخلاق اور ان کی سیرت پر عمل پیرا رہو۔ یقینا یہ لوگ ہدایت کے راستے پر تھے ۔ “

خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :

آیئے سالار صحابہ رضی اللہ عنہ خلافت کے عہدہ پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھئے کہ کس قدر سنت سے پیار اور وابستگی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تیسرے دن لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کرنے اور روانہ کرنے کا حکم فرمایا۔ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت نے وقت کے تقاضے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا کہ لشکر نہ روانہ کیا جائے ۔ تو جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”اگر مجھے کتے اور بھیڑیئے اچک لیں ، تب بھی میں اسے ویسے ہی نافذ کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نفاذ کا حکم دیا۔ میں کبھی اس فیصلے کو رد نہیں کر سکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو۔“
الكامل لابن الاثير : 226/2 .
مزید ارشاد فرمایا:
”اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے، تب بھی میں اسے نافذ کر کے رہوں گا۔“
اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے مزید فرمایا:
”اگر میں اپنے معاملات کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ حکم کے علاوہ کسی معاملے سے شروع کروں تو میں پسند کروں گا کہ پرندے مجھے اُچک لیں ۔ “
طبقات ابن سعد.
سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کے بعد پہلے خطبہ میں فرمایا:
«إن أطعت الله ورسوله فأطيعوني، وإن عصيت الله ورسوله فأقيموني»
تاريخ الخلفاء للسيوطي، ص: 118.
” اگر میں اللہ اور رسول کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو، اگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم مجھے سیدھا کر دو۔ “

امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ :

«عن سعيد رضى الله عنه قال كان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يقول: الدية للعاقلة ولا ترث المرأة من ديةزوجها شيئا، حتى قال له الصحال بن سفيان رضى الله عنه كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أورث امرأة أشيم الضبايي من ديقزوجها فرجع عمر رضى الله عنه »
سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض، رقم: 2927۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے دیت صرف والد کے رشتہ داروں کے لیے ہے، لہذا بیوی کو اپنے شوہر کی دیت سے کوئی حصہ نہیں ملتا، ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے ( امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ ) سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ پیغام لکھوا کر بھجوایا کہ میں اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دلاؤں، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ “
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہاتھ کی انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ یہ کیا کہ انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ ، شہادت والی اور درمیانی انگلی کی دس دس اونٹ ، درمیانی انگلی کے ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور چھنگلی کی چھ اونٹ مگر جب انھیں یہ علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آل حزم کی طرف دیت کے بارے میں ایک خط لکھا تھا جس میں یہ تھا کہ انگلیاں سب برابر ہیں۔ یعنی سب کی برابر برابر دیت ہوگی تو انہوں نے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور اس حدیث پر عمل کیا۔
مصنف عبدالرزق: 384/9، 385.
اگر کوئی شخص یا عورت کسی حاملہ عورت کو قتل کر دے اور اس کی وجہ سے اس کا بچہ بھی مر جائے تو قاتل پر عورت کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص یا دیت آئے گی مگر اس کے پیٹ میں جو بچہ ہو اس کے مرجانے سے اس پر کیا لازم آئے گا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے مجلس عام میں اس کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (حمل) کے بدلے میں ایک غلام دینے کا حکم دیا تھا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اس حدیث کو سنا تو فرمایا:
«لو لم نسمع هذا لقضينا بغيره»
” اگر ہم یہ حدیث نہ سنتے تو کوئی دوسرا فیصلہ کر دیتے۔“
سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، رقم: 4573،457۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اسے بوسہ دیا اور کہا: ”میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ تمہیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔“
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم: 1097 ۔ صحیح مسلم، رقم: 127.

سید نا عثمان غنی رضی الله عنہ :

آپ انتہائی متبع سنت تھے۔ حمران بن ابان ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے پانی منگوایا پھر وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا ، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھو یا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو تین تین بار دھویا ، اور سر کا مسح کیا، اور دونوں قدموں کو دھویا ، پھر ہنس پڑے پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم مجھ سے دریافت نہیں کرو گے کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تھوڑا سا پانی طلب کیا پھر جیسا میں نے وضو کیا ہے وضو فر مایا، پھر مسکرا دیئے، پھر ارشاد فرمایا: تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول الله ! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” بندہ جب وضو کے لیے پانی طلب کرتا ہے اور پھر اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے جو گناہ بھی صادر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے، اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے، اور جب مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے اور جب اپنے دونوں قدموں کو دھوتا ہے تو اس کے قدموں کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے۔ “
مسند احمد، رقم: 415۔ شیخ شعیب نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔

سید نا علی المرتضی رضی الله عنہ :

سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«ما كنت لآدع سنة النبى صلی اللہ علیہ وسلم لقول أحد »
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم: 1563 .
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کسی کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا ۔“
جب آپ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ایک عورت کو سنگسار کیا تو ارشاد فرمایا کہ: ”بیشک میں نے اسے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگسار کیا۔ “
صحيح البخاری، کتاب الحدود، رقم: 6812.
ایک دفعہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ سوار ہونے لگے، تو رکاب میں بسم الله کہہ کر پاؤں رکھا، پشت پر پہنچے تو الحمدلله کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی:
لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ‎﴿١٤﴾‏
(43-الزخرف:13، 14)
پھر تین بار الحمد لله اور تین بار الله اكبر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی ۔
سُبحانك إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْلِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
پھر ہنس دیے ، لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی، بولے ” ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں ہنس پڑے، میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ “
سنن ابوداؤد، کتاب الجهاد، باب ما يقول الرجل إذار كب، رقم: 2602۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنہ :

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :” لعنت کی اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں اور اکھڑوانے والیوں اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر خوب صورتی کے لیے اور اللہ کی تخلیق بدلنے والیوں پر ۔“ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کا نام ام یعقوب تھا، وہ قرآن پڑھا کرتی تھی، وہ ایک مرتبہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور بولی : ”مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے اور گودوانے اور منہ کے بال اکھاڑنے اور اکھٹروانے اور دانتوں کو کشادہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے۔“
سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں کیوں لعنت نہ کروں اس پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور یہ تو اللہ کی کتاب میں موجود ہے ۔“ وہ عورت بولی: ”میں نے تو جس قدر قرآن تھا پڑھ ڈالا ، مجھے یہ نہیں ملا۔ “سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر تو پڑھتی تو تجھ کو ملتا“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:7)
” جو رسول تم کو دے اس کو تھامے رکھو، اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ۔ “
وہ عورت بولی: ان میں سے تو بعض کام تمہاری بیوی بھی کرتی ہے۔ سینا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”جاد یکھ تو سہی ۔ وہ ان کی بیوی کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا، پھر لوٹ آئی اور کہنے لگی: ان میں سے کوئی بات میں نے ان میں نہیں دیکھی ۔ سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر وہ ایسا کرتی تو ہم اس سے صحبت نہ کرتے ۔“
صحیح مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة الخ.

سید نا عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہ :

امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سالم بن عبد اللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ملک شام کے ایک شخص کو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے بارے میں سوال کرتے ہوئے سنا تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ جائز ہے، اس شامی آدمی نے کہا: آپ کے والد گرامی نے تو اس سے منع کیا ہے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اگر میرے والد نے ایک کام سے منع کیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر انجام دیا ہو تو کیا میرے والد گرامی کا حکم مانا جائے گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اتباع کی جائے گی؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ اتباع تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی کی کی جائے گی ، تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر یہ ن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے۔
سنن ترمذی، کتاب الحج، رقم الحدیث: 824۔ محدث البانی نے اسے صحیح الاسناد قراردیا ہے۔
جناب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ( جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ہیں ) فرماتے ہیں:
«لو بلغنى عنهم أنهم لم يجاوزوا بالوضوء صفرا ما جاوزتهم به، وكفى على قوم وزرا أن تخالف أعمالهم أعمال بنيتهم»
”اگر مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے یہ بات پہنچے کہ انہوں نے ایک ناخن سے زیادہ وضو نہیں کیا تو میں ان کے عمل سے تجاوز نہیں کروں گا۔ (یعنی ایک ناخن کے برابر وضو کروں گا) اور کسی قوم کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ ان کے اعمال ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مخالف ہوں۔“
شرح اصول اعتقاد اهل السنة الألكائى.
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور»
”تم پر میری سنت وطریقہ کار پر چلنا لازم ہے اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین (خلفاء اربعہ، ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم ) کی سنت وطریقہ کار لازم ہے، ان کو تم اپنی داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تم دین میں بدعات ایجاد کر نے سے بچو ۔ “
مسند احمد: 126/4، 128۔ سنن ابوداؤد، رقم: 4607۔ سنن ترمذی، رقم: 2676 ۔ سنن ابن ماجه ، رقم: 42۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الإسلام بدأ غريبا، وسيعود غريبا كما بدأ وهويأرزبين المسجدين كما تأرز الحية فى جحرها»
”اسلام آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب وہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ آغاز میں تھا۔ اور وہ دو مسجدوں کے درمیان جائے گا، جیسے سانپ اپنی بل میں ٹھس جاتا ہے۔ “
صحیح مسلم کتاب الایمان، رقم: 273
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔
تو کسی نے کہا کہ ہمیں صرف قرآن حکیم سے بتائیں۔
تو آپ نے فرمایا: میرے قریب آؤ، تو وہ شخص آپ کے قریب آ گیا۔
آپ نے فرمایا: دیکھو اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تیرے ساتھیوں کو نماز ظہر کی چار رکعت اور نماز عصر کی چار رکعت اور مغرب کی تین رکعات دورکعات میں اونچی پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تمھارے ساتھیوں کو بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے سات سات چکروں کا ذکر پاتے؟
پھر فرمایا اے لوگو! ہم سے لو۔ یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم ضرور گمراہ ہو گئے۔
الكفاية في علم الرواية: 15 .
جناب ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اگر تم نے کسی شخص کو حدیث سنائی اور اس نے کہا، چھوڑ و حدیث کو اور بیان کر و قرآن کریم سے، تو جان لو ایسا شخص خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔
الكفاية في علم الرواية: 15 .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنه:

ایک دن سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سید نا حسن رضی اللہ عنہ ملے اور کہا کہ ”ذرا پیٹ کھولیے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھا، وہیں میں بوسہ دوں گا، چنانچہ انہوں نے پیٹ کھولا اور انہوں نے وہیں بوسہ دیا۔“
مسند احمد: 488/2۔ صحیح ابن حبان، رقم: 9355۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«ما من أحد إلا يؤخذ من علمه ويترك إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم»
معجم الطبراني الكبير.
”ہر شخص کے علم کو قبول کیا جاسکتا ہے اور ترک بھی کیا جاسکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کی ہر بات واجب ہے۔ “
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے گفتگو کی، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں اس کو صحیح قرار دیا تو لوگوں نے کہا: ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ اس سے روکتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا:
«يؤشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء أقول لكم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقولون قال أبو بكر وعمر»
”ڈر ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہونے لگے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تم کہتے ہو، ابوبکر وعمر نے کہا۔ “
سنن الدارمی۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«أراهم سيهلكون، أقول: قال النبى صلى الله عليه وسلم ويقولون: قال أبو بكر وعمر»
مسند احمد.
”میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ابھی ہلاک ہو جائیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان یہ ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر کا فرمان یہ ہے۔ “

سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی الله عنہ:

سید نا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے بیٹی ، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: بیٹی کے لیے آدھا ہے اور بہن کے لیے آدھا ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر پوچھ لو، وہ میری تائید کریں گے۔ پھر سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور انہیں سیدنا ابو موسی (رضی اللہ عنہ ) کا قول بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں اس کے بارے میں وہ فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا: بیٹی کے لیے آدھا ہے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اس طرح دو تہائی پوری ہوگئی، جو باقی بچا وہ بہن کا ہے۔ پھر سیدنا ابو موسیٰ (رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: جب تک یہ عالم تمہارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسئلے نہ پوچھو۔
صحیح بخاری، رقم: 6737 ملخصاً.

خلاف سنت عمل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رد :

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا خاص خیال رکھتے اور اگر کسی کو خلاف سنت کام کرتے دیکھ لیتے تو فوراً سختی سے اس کا رد کرتے۔ مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ اس پر شاہد عدل کی حدیث رکھتی ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے:
«عن عمران بن حصين قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم الحياء لا يأتى إلا بخير فقال بشير بن كعب: مكتوب فى الحكمة إن من الحياء وقارا ، وإن من الحياء سكينة، فقال له عمران: أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتحدثني عن صحيفتك»
صحیح البخاری: 1/638، کتاب الادب، باب الجهاد.
”سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا خیر ہی لائے گا، بشیر بن کعب نے سن کر کہا: کہ حکمت کے باب میں لکھا ہے بعض حیا وقار اور سکینت ہے، سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ: میں تم سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور تم اس کے مقابلے میں اپنے صحیفے سے بیان کر رہے ہو ۔ “
اس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے:
«عن أبى قتادة قال: كنا عند عمران بن حصين فى رهط منا وفينا بشير بن كعب، فحدثنا عمران يومئذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحياء خير كله أو قال: الحياء كله خير فقال بشير بن كعب: إنا لتجد فى بعض الكتب أو الحكمة أن منهسكينة ووقار الله ومنه ضعف الخ»
صحیح مسلم: 1: 64 ، حدیث نمبر: 37، کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان.
”ابو قتادہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ عمران بن حصین کے پاس تھے وہاں بشیر بن کعب بھی تھے ، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: حیا خیر ہی خیر ہے، بشیر بن کعب نے کہا کہ بعض کتابوں یا حکمتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حیا کبھی وقار کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی کمزوری کی شکل میں ہوتا ہے، سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سن کر ایسے غصہ ہوئے کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم اس پر اعتراض کر رہے ہو۔ “
عمران بن حصین نے حدیث رسول کا اعادہ کیا ، بشیر بن کعب نے بھی اپنی بات کا اعادہ کیا، عمران غصہ ہوئے ہم عذر کرتے رہے کہ یہ ہم ہی لوگوں میں سے ہے اس میں عقیدے کی کوئی خرابی نہیں۔
«عن عروة بن الزبير أنه أتى ابن عباس فقال: يا ابن عباس طالما أضللت الناس قال: وما ذاك يا عروة قال: الرجل يخرج مخرجا بحج أو عمرة فإذا طاف بالبيت زعمت أنه قد حل فقد كان أبو بكر وعمرينهيان عن ذلك، فقال أهما ويحك آثر عندك أم ما فى كتاب الله وما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم مني ومنك قال ابن أبى مليكة: فخصمه عروة.»
المعجم الاوسط للطبرانی: 42/1، حدیث نمبر: 21، باسناد حسن.
”جناب عروہ بن زبیر، سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ابن عباس ! آپ نے لوگوں کو بہت گمراہ کر رکھا ہے۔ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: عروہ بات کیا ہے؟ عروہ نے کہا: آدمی حج یا عمرہ کے لیے نکلتا ہے، جب طواف کرلے تو آپ کہتے ہیں کہ وہ احرام سے نکل گیا اس کا مطلب قطعا یہی ہے کہ طواف اور سعی کے بعد اگر حج وعمرہ کا احرام ہے تو بھی احرام سے نکل کر متمتع ہو گیا اور اگر صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے تو بہر حال وہ احرام سے نکل ہی گیا۔ سید نا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے ، سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے اور تمہارے نزدیک ابوبکر وعمر افضل ہیں یا وہ چیز جو کتاب اللہ اور سنت رسول میں ہے، عروہ بن الزبیر نے بے حجت ہو کر بات قبول کر لی۔“
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا تھا، عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ: سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا تمتع سے منع کرتے تھے، سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے لگتا ہے کہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے !میں کہتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور لوگ کہتے ہیں کہ ابو بکر و عمر نے منع کیا ہے۔
مسند احمد: 337/1.
حافظ ابن القیم نے اس اثر کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابن عباس پر رحم کرے اور ان سے راضی ہو، اگر اس زمانے کے لوگوں کو دیکھتے تو کیا کہتے؟ ان کے سامنے جب کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تو وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے لوگوں کے اقوال سے معارضہ کرتے ہیں، جو صحابہ سے بہت ہی نیچے درجے کے لوگ ہوتے ہیں۔
اعلام الموقعین: 539/3 ۔
امام دارمی نے صحیح سند سے ابن عباس سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں:
«ألا تخافون أن تعذبوا أو يخسف بكم أن تقولوا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال فلان.»
سنن دارمی: 95/1.
”کہ تم ڈرتے نہیں کہ تمہارے اوپر عذاب نازل ہو جائے یا دھنسا دیئے جاؤ! ایک طرف کہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور پھر اس کے مقابل کہتے ہو، فلاں نے ایسا کہا۔ “
«عن سالم بن عبد الله أنه سمع رجلا من أهل الشام وهو يسأل عبد الله بن عمر عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال عبد الله بن عمر: هي حلال، فقال الشامي: إن أباك قد نهى عنها ، فقال عبد الله بن عمر: أرأيت إن كان أبى نهى عنها و صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم»
سنن الترمذی، کتاب الحج، رقم: 824۔ محدث البانی نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
”سالم بن عبد اللہ بن عمر نے سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے ایک شامی کو حج تمتع کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا، سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حلال ہے ، شامی نے کہا کہ آپ کے والد نے اس سے منع کیا ہے، سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بتاؤ اگر میرے والد نے منع کیا ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، تو پھر بھی والد کی بات مانی جائے گی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ اس شخص نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی مانا جائے گا، آپ نے فرمایا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے۔“
امام احمد رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ:
«كان عبد الله بن عمر يفتي بالذي أنزل الله عز وجل من الرحصة بالتمتع، وسن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فيقول ناس لابن عمر: كيف تخالف أباك وقد نهى عن ذلك؟ فيقول لهم عبد الله: ويلكم ألا تتقون الله أن عمر نهى عن ذلك فيبتغي فيه الخير يلتمس به تمام العمرة فلم تحرمون ذلك وقد احله الله وعمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم أفرسول الله أحق أن تتبعوا سنته ۚ إن عمر لم يقل لكم: إن العمرة فى أشهر الحج حرام ولكنه قال: إن أتم العمرة ان تفرد وها من أشهر الحج»
مسنداحمد: 95/2.
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا اللہ کی رخصت کے مطابق حج تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو مسنون فرمایا ہے، سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ لوگ کہتے کہ آپ اپنے والد کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے تو تمتع سے منع کیا ہے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیتے تمہارے لیے خرابی ہو، تم اللہ سے ڈرتے نہیں ! بیشک جناب عمر رضی اللہ عنہ نے خیر ہی کی نیت سے تمتع سے منع کیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ لوگ عمرہ مکمل الگ سے کریں لیکن جب اللہ نے اسے حلال کیا ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے تو پھر بتاؤ! کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اتباع کی زیادہ حق دار ہے یا عمر کی سنت لائق اتباع ہے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ حرام ہے، بلکہ یہ کہا ہے کہ مکمل عمرہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں عمرہ کیا جائے ۔“
امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ:
«عن عبد الله بن مغفل أنه رأى رجلا يخذف فقال له: لا تخذف كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نهى عن الخذف أو كان يكره الخذف وقال: إنه لا يصاد به صيد، ولا ينكى به عدو ولكنها قد تكسر السن وتفقأ العين، ثم رآه بعد ذلك يخذف فقال: له أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن الخذف أو كره الخذف وأنت تخذف لا أكلمك أبدا»
صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصيد باب الخذف، حدیث نمبر: 5379۔ صحیح مسلم، کتاب الصيد، حدیث نمبر: 5164
”سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینک رہا ہے، اس پر آپ نے کہا کہ اس طرح (خذف) کنکریوں کو پھینکنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، یا اسے پسند نہ کرتے تھے اور آپ نے فرمایا: کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جاسکتا ہے، البتہ اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے یا کسی کی آنکھ پھوٹ سکتی ہے، اس کے بعد بھی آپ نے دیکھا کہ وہ آدمی کنکری پھینک رہا تھا، تو آپ نے کہا کہ میں تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں کہ آپ نے خذف سے منع فرمایا ہے اور تم کنکریاں پھینکے جار ہے ہو، میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے سے قطع کلامی کا جواز ہے۔ اور جس حدیث میں تین دن سے زیادہ نہ بولنے کی ممانعت ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اپنی خواہش نفس کی بنا پر کسی کو چھوڑے، دین کی خاطر نہیں۔“
فتح الباری: 757/9۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
«لا تمنعوا نسآتكم المساجد إذا استأذنكم إليها قال فقال بلال بن عبد الله و الله لنمنعهن، قال: فأقبل عليه عبد الله فسبه سبا سينا ما سمعته سبه مثله قط، وقال: أخبرك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول والله لتمنعهن»
صحیح مسلم حدیث نمبر: 442۔
”کہ اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں نماز کے لیے جانے سے نہ روکو، اس پر ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم سختی سے انہیں روکیں گے، جب بلال آئے تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بہت سخت سست کہا، اور کلمات زجر کہے کہ ایسا ان سے کبھی نہ سنا تھا، اور کہا کہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتارہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں سختی سے روکیں گے ۔ “
طبرانی اور الجامع لا بن عبدالبر کی روایت میں ہے کہ کئی بار ان کو لَعَنَكَ اللهُ کہا، رونے لگے اور غصے میں مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
معجم الطيراني الكبير: 326/12۔ جامع بيان العلم: 1208/2 ، 1209
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں باب کا ذکر کیا ہے،
باب كراهية معارضة خبر النبى صلى الله عليه وسلم بالقياس والراى والدليل على ان امر النبى صلى الله عليه وسلم يجب قبوله اذا علم المرء به وإن لم يدرك ذلك عقله ورأيه.
یعنی ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا قیاس اور رائے سے معارضہ کی کراہیت کا بیان“ اور اس بات کی دلیل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خبر آدمی کو ہو جائے تو اس کا قبول کرنا واجب ہے، اگر چہ اس کی عقل اور رائے اس کو سمجھ نہ سکے اور قبول نہ کرے۔“
پھر اس کے بعد روایت کا ذکر کیا کہ:
«عن سالم بن عبد الله عن أبيه قال: قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم إذا استيقظ أحدكم من منامه فلا يدخل يدة فى الإناء حتى يغسلها ثلاث مرات فإنه لا يدرى أين باتت يده أو أين طافت يده، فقال لمرجل أرأيت إن كان حوضا قال: فحصبه ابن عمر وقال: أخبرك عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وتقول أرأيت حوضا»
صحیح ابن خزیمہ: 75/1۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے والد گرامی سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں کوئی جب نیند سے اٹھے تو ہاتھ کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ نیند میں اس کا ہاتھ کہاں تھا، یا کہاں کہاں لگ رہا تھا، ایک شخص نے سن کر کہا: پانی کا حوض ہو تو کیا کرے؟ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کنکری ماری، اور کہا: کہ میں تمہیں حدیث رسول سنا رہا ہوں اور تم معارضہ کر کے کہہ رہے ہو کہ حوض ہو تو کیا کرے؟“

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اصول وضوابط:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تفقہ فی الدین جن اصول و ضوابط پر مبنی تھا، وہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اقوال صحابہ ، مشورہ اور قیاس تھے۔
جناب میمون بن مہران رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تو اگر اس کا حل کتاب اللہ میں پاتے تو فیصلہ کرتے نہیں تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھونڈ تے اگر اس میں حل ملتا تو اس کا فیصلہ کرتے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے کہ کیا کسی کو اس مسئلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم اور فیصلہ معلوم ہے؟ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوتا اور بتاتے تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے ۔ اگر کوئی فیصلہ نہ ملتا تو اکابر صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے ، اگر وہ کسی چیز پر متفق ہو کر فیصلہ دیتے تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کا فیصلہ فرماتے۔
سنن دارمی، المقدمة، رقم: 173/5، اعلام الموقعین: 118/2.
امیر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو لکھا کہ اگر مسئلہ کتاب اللہ میں ہے تو اس کا فیصلہ کرو۔ اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت رسول میں دیکھو اور فیصلہ دو۔ اگر کتاب وسنت میں نہیں ہے اور تم سے پہلے کسی نے اس کا فیصلہ بھی نہیں کیا ہے تو تمہیں اختیار ہے کہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرو یا پیچھے ہٹ جاؤ۔ میری نظر میں پیچھے ہٹ جانا اچھا رہے گا۔
سنن دارمی: 55/1، اخبا القضاة: 189/1.
جناب عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں: کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک زمانہ وہ تھا کہ ہم قضاء اور فتویٰ کے اہل نہ تھے اور نہ ہی فتوے دیتے ۔ پھر اللہ نے ہم سب کو اپنی مشیت سے اس مقام پر پہنچا دیا جسے دیکھ رہے ہو۔ تو جس کے پاس کوئی مسئلہ آئے تو اس کا فیصلہ کتاب اللہ سے کرے۔ اگر کتاب اللہ میں وہ مسئلہ موجود نہ ہو تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی روشنی میں فیصلہ دے۔ اگر ان میں سے کسی میں نہ ملے تو اجتہاد کرے یہ عذر نہ کرے کہ میں ڈرتا ہوں، میں ڈرتا ہوں ۔ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ۔ حلال و حرام کے درمیان کچھ غیر واضح چیزیں ہیں تو جہاں شبہ ہوا سے ترک کر دو۔
سنن نسائی، ص: 811، سنن دارمی: 21/1 ، اخبار القضاة لوكيع: 76/1.
جناب عالقمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مہر کی تعین کے بغیر نکاح کیا اور دخول سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا تو اس عورت کے مہر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ چنانچہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ میں اپنے اجتہاد سے کہ رہا ہوں اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے۔ میری رائے ہے کہ اس کا مہر اس جیسی عورت کے مہر کی طرح لیا جائے نہ کم نہ پیش ۔ اس عورت پر عدت وفات بھی ہے اور اسے متوفی کی میراث بھی ملے گی ۔ معقل بن سنان اشجعی نے سن کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ بروع بنت واشق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ دیا تھا وہی فیصلہ آپ نے بھی کیا ہے۔
مصنف عبدالرزاق: 294/2۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کسی نے کسی کو بغیر علم کے فتوی دیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہے۔
سنن دارمی: 53/1، مستدرك حاكم: 126/1.
عبد اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی مسئلے میں پوچھا جاتا تو آپ کو اگر وہ مسئلہ قرآن کریم میں مل جاتا تو اس سے جواب دیتے نہیں تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو جواب دیتے ۔ نہیں تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا کے فتاوی و اقوال میں ملتا تو اس سے جواب دیتے ، ورنہ اپنے اجتہاد سے جواب دیتے۔
سنن دارمی: 55/1، الفقيه والمتفقه: 203/1

تابعین عظام رحمہ اللہ کی سنت سے محبت اور ان کے اصول وضوابط :

یہی طرز عمل تابعین عظام رحمہ اللہ کا تھا ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں میں زیادہ معظم و مکرم تھی ، اس کی مخالفت پر صبر نہ کرتے تھے۔
سنن دارمی میں جناب قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کسی آدمی سے حدیث رسول بیان کی تو کسی شخص نے کہا یہ کہ فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ اس پر ابن سیرین نے غصہ ہو کر کہا: کہ میں تم سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو فلاں فلاں نے ایسا کہا؟ تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔
سنن دارمی: 97/1۔
تفقہ فی الدین اور تعلیم کتاب وسنت کا طریقہ تابعین نے بھی وہی اختیار کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا، کیونکہ تابعین، صحابہ رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے، اور ان پر ان کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ ابو سہیل کہتے ہیں کہ میری بیوی نے مسجد حرام میں تین دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ میں نے جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے سوال کیا اور ساتھ میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بھی تھے کہ اس کو اعتکاف کے ساتھ صوم بھی رکھنا ہے؟ زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ بغیر صوم کے اعتکاف نہیں۔
اس پر جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے پوچھا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؟ کہا کہ نہیں۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے پوچھا: کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے؟ کہا: کہ نہیں۔ کہا: سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے؟ کہا: نہیں۔ کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے؟ کہا: نہیں۔ تو جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ اس عورت کے لیے روزہ ضروری نہیں۔ وہاں سے نکلا تو طاؤس اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ جناب طاؤس نے کہا: کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر اس نے صوم کی نذر اعتکاف کے ساتھ نہیں مانی ہے تو پھر اس پر صوم واجب نہیں۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میری بھی یہی رائے ہے۔
سنن دارمی: 54/1 ۔
سید نا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے سنت پر ثابت قدم رہ کر بتلا دیا کہ اس کی پابندی در حقیقت قرآن مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین متین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا، اس نے مومنین ، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔“
چنانچہ سنن ترمذی میں ہے:
«عن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم قلد نعلين، وأشعر الهدي، ثم قال سمعت يوسف بن عيسى يقول: سمعت وكيعا يقول حين روى هذا الحديث فقال: لا تنظروا إلى قول أهل الر أى فى هذا، فإن الإشعار سنة، وقولهم بدعة وقال: سمعت أبا السائب يقول: كنا عند وكيع فقال لرجل عنده ممن ينظر فى الرأي: أشعر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ويقول أبو حنيفة: هو مثلة قال الرجل: فإنه قد روي عن إبراهيم النخمي أنه قال: الإشعار مثلة، قال: فرأيت وكيعا غضب غضبا شديدا ، وقال: أقول لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وتقول: قال إبراهيم، ما أحقك بأن تحبس ثم لا تخرج حتى تنزع عن قولك هذا»
سنن الترمذی، 218، 219، الفقيه والمتفقه، ص: 138.
”سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے جانور کا اشعار کیا، اور اس کی گردن میں کوئی چیز لٹکائی، امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے یوسف بن عیسی سے سنا: وہ کہتے تھے کہ میں نے وکیع سے سنا: جب آپ نے اس کی روایت کی تو کہا کہ: اس مسئلے میں اہل رائے کی بات نہ سنو، اشعار سنت رسول ہے اور ان کا قول بدعت ہے، ابو السائب کہتے ہیں کہ ہم وکیع رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے، ایک آدمی جو رائے اور قیاس کرتا تھا اس سے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا، ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے ، اس آدمی نے کہا کہ ان کی دلیل یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے، ابو السائب کہتے کہ میں نے وکیع کو دیکھا کہ بہت سخت غصہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نے کہا تم اس لائق ہو کہ تمہیں جیل میں بند کر دیا جائے اور جب تک اس سے توبہ نہ کر لو تمہیں جیل سے نہ نکالا جائے ۔“
امام عامر بن شرحبیل الشعبی (تابعی متوفی 104ھ) فرماتے ہیں:
«ما حدثوك هؤلاء عن رسول الله فخذ به، وما قالوه برأيهم فألقه فى الحش»
یہ لوگ تجھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتا ئیں اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے خلاف کتاب وسنت کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔
سنن الدارمی: 27/1 ، رقم: 206۔
امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس أحد من الناس إلا وأنت آخذ من قوله أوتارك إلا التبي»
”لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات آپ لے بھی سکتے ہیں اور رد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ کی ہر بات لینا فرض ہے۔ “
الاحكام لابن حزم: 293/6۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكذلك تابعوهم أيضا يرجعون إلى الكتاب والسنة، فإن لم يجدوا نظروا ما أجمع عليه الصحابة، فإن لم يجدوا اجتهدوا، واختار بعضهم قول صحاتي فرآه الأقوى فى دين الله تعالى»
”یہی تابعین کی حالت تھی وہ بھی فقہی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اگر وہ کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پاتے تو اس بات کو دیکھتے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ اگر اجماع بھی نہ پاتے تو اپنے طور پر اجتہاد کرتے ۔ بعض تابعین تو صحابی کے اس قول کو لے لیتے جسے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے قوی تر سمجھتے ۔ “

ائمہ کرام رحمہ اللہ کی سنت نبوی سے محبت اور ان کے اصول:

ائمہ کرام رحمہ اللہ کتاب و سنت سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے، ان ائمہ کی تفقہ فی الدین کی بنیاد ان اصولوں پر تھی:
1: کتاب الله عز وجل۔
2: سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
3: اجماع صحابہ یا غیر صحابہ۔
4: آثار صحابہ ، خصوصاً خلفاء اربعہ۔
5: قیاس۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله (المتوفی: 150ھ):

اُصول فقہ:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے امام یحیی بن معین اور خطیب بغدادی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ: یحیی بن الفریس کہتے ہیں کہ سفیان ثوری کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے آپ ناراض کیوں ہیں؟ میں نے ان کو کہتے سنا ہے کہ میں کتاب اللہ سے مسئلہ لیتا ہوں، نہ ملے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لیتا ہوں ، نہ ملے تو صحابہ کے اقوال سے لیتا ہوں ۔ ان کے اختلاف کی صورت میں جس کے قول کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں اسے لے لیتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن صحابہ کے اقوال سے نہیں نکلتا ہوں ۔ البتہ جب معاملہ ابراہیم نخعی، شعبی ، ابن سیرین، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور سعید ابن المسیب وغیرہ تابعین تک پہنچتا ہے تو جیسا انہوں نے اجتہاد کیا ہے میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ان کے اقوال کی پابندی نہیں کرتا۔
تاریخ ابن معين برواية الدوری: 63/4 ، تاریخ بغداد: 368/13 اخبارابي حنيفة للصيمري، ص: 10.
حسن بن صالح رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام ابوحنیفہ حدیث میں ناسخ اور منسوخ کو بڑی کدوکاوش سے تلاش کرتے۔ اگر ان کے نزدیک حدیث رسول یا آثار صحابہ صحیح ثابت ہو جاتے تو اس پر عمل کرتے۔ وہ اہل کوفہ کی حدیث اور فقہ کے عالم تھے کوفہ کے لوگوں کے عمل کی شدید اتباع کرتے۔ اہل کوفہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آخری فعل پہنچے ان کے حافظ تھے۔ کہا کرتے تھے کہ کتاب اللہ میں کچھ چیزیں منسوخ ہیں، اسی طرح حدیث میں بھی منسوخ ہیں۔
اخبار ابو حنيفة للصميري ص: 10 .
ابو حمزہ اسکری رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ صحیح سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت ہو تو میں اسے لیتا ہوں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مختلف اقوال میں کسی کو اختیار کر لیتا ہوں۔ تابعین کے اقوال کو چھوڑ کر میں انہیں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں اور ان کے قول سے نہیں نکلتا ہوں۔
الإنتقاء لابن عبدالبں: 144 ، 145.
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مل جائے تو وہ سر آنکھوں پر صحابہ کے اقوال مل جائیں تو ان کے مختلف اقوال میں سے ہم کسی ایک کا اختیار کریں گے، تابعین کے اقوال سامنے آئیں تو ہم بھی انہی کی طرح اجتہاد کریں گے۔

اقوال:

1: «إذا صح الحديث فهو مذ ہبي»
حاشیه ابن عابدین: 63/1۔ حاشية على البحر الرائق: 293/2.
”کہ میرامذہب صحیح حدیث ہے۔ “
2: «إِذَا رَأَيْتُمْ كَلَامَنَا يُخَالِفُ ظَاهِرَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَاضْرِبُوا بِكَلَامِنَا الْحَائِط»
میزان شعرانی۔
” جب دیکھو کہ ہمارے اقوال قرآن اور حدیث کے خلاف ہیں تو قرآن اور حدیث پر عمل کرو اور ہمارے اقوال کو زمین پر دے مارو “
3 : «قال الإمام أبو حنيفة لا تقلدني ولا تقلدن مالكا ولا غيره وخذ الأحكام من حيث أخذوا من الكتاب والسنة كذا فى الميزان وغيره»
حقيقت الفقه.
”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا، میری تقلید نہ کرنا ، اور نہ مالک رحمہ اللہ کی ، اور نہ کسی اور کی تقلید کرنا اور احکام دین وہاں سے لینا، جہاں سے اُنہوں نے لیے ہیں یعنی کتاب وسنت سے۔ “
4: «حرام على من لم يعرف دليلى أن يفتي بكلامي»
میزان شعرانی۔
”میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے، جب تک میری بات کی دلیل معلوم نہ ہو ۔“
5 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لا أقلد التابعى لأنهم رجال ونحن رجال ولا يصح تقليده»
نور الانوار ص: 219، طبع یوسفی.
”میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتا اس لیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں ان کی تقلید جائز نہیں۔“
6 : حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام (ابو حنیفہ ) کے قول پر مقدم ہے۔
هدايه: 502/1۔
7 :«لا يحل لأحد أن نا خذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه.»
الانتقاء في فضائل الثلاثة الائمة الفقهاء ابن عبدالبر ص: 145 ۔ اعلام الموقعين ابن قيم: 309/1 ۔ حاشیه ابن عابدين علي البحر الرائق: 293/3 ۔ رسم المفتی ، ص: 29، 32۔ میزان شعرانی: 55/1 .
”کسی کے لیے یہ حلال ہی نہیں کہ وہ ہمارے قول کے مطابق عمل کرے جب تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے۔ “
آپ سے ایک یہ قول بھی منقول ہے:
8 : آپ نے اپنے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف کو ایک مرتبہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر اے یعقوب ! ہر بات جو مجھ سے سنتے ہو، اسے نہ لکھا کرو، کیونکہ میں آج ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور کل اسے چھوڑ دیتا ہوں اور کل ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور اسے پرسوں ترک کر دیتا ہوں۔
آپ سے ایک یہ ارشاد بھی منقول ہے:
9 : «إذا قلت قولا يخالف كتاب الله تعالى وخبر الرسول فاتركوا قولي»
ایقاظ همم اولی الابصار ص : 50.
”جب میرا قول کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو تو میرے قول کو ترک کردو“
10 : ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا: ”تم اصول دین یعنی کلام کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرنے سے بچ کر رہنا، کیونکہ یہ لوگ تمہاری تقلید کریں گے، اور اسی میں پھنس جائیں گے ۔“
مناقب ابي حنيفة ، ص: 373.

امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی 179ھ):

اُصول فقہ:

اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اصول وضوابط کو ثقات ائمہ نے نقل کیا ہے۔ مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں جاری فرمائیں، اور آپ کے بعد علماء و حکام نے کچھ سنتیں جاری کیں ان سب پر تمسک کتاب اللہ کی اتباع ہے۔ اور اللہ کی اطاعت کی تکمیل ہے۔ نیز دین کے لیے باعث قوت ہے کہ کسی کو تغیر و تبدیل کا حق حاصل نہیں۔ نہ ہی ان کے خلاف کسی اور چیز کی طرف دیکھنا ہے۔ انہی سے ہدایت لینے والا ہدایت یاب ہے۔ جس نے ان سے مدد لی وہی غالب اور کامیاب ہے۔ جس نے ان سنتوں کو ترک کر دیا اس نے مومنوں کے راستے کے خلاف راستہ کی پیروی کی۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دے گا۔ اور جہنم کے برے ٹھکانے میں اسے داخل کر دے گا۔
الحلية: 324/6 ۔
اسحاق بن عیسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: کہ جب بھی کوئی بحث و مباحثہ کرنے والا آئے تو کیا ہم جبریل علیہ السلام کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کو چھوڑ دیں گے .
الحلية: 324/6.
لیث بن سعد رحمہ اللہ نے جو مکتوب امام مالک رحمہ اللہ کو بھیجا تھا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمین خصوصاً اہل مدینہ کے صحابہ کرام کے آثار کو کس سختی اور جد و جہد سے تلاش کرتے اور ان کی اتباع کرتے ۔
اعلام الموقعين : 170/3.

اقوال:

1: «إنما أنا بشر أخطئ وأصيب فانظروا فى رأى كلما وافق الكتاب والسنة فخذوه وكلما لم يوافي الكتاب والسنة فا تركوه.»
جامع بيان العلم 91/20، الاحكام لابن حزم: 145/6 .
”میں بشر ہوں! مجھ سے غلطی اور درستگی دونوں کا احتمال ہے، میری ہر بات کی تحقیق کیا کرو، جو کتاب وسنت کے موافق ہو اس پر عمل کر لیا کرو، جو مخالف ہوا سے رد کر دیا کرو ۔ “
2 : امام قعنبی رحمہ اللہ جو آپ کے خاص تلامذہ میں سے تھے انہوں نے امام محترم کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تو سبب پوچھا۔ امام محترم فرمانے لگے قعنبی ! میں نہ روؤں تو کون روئے۔ اے کاش! مجھے میرے ہر قیاسی فتوے کے بدلے میں ایک کوڑا مارا جاتا۔ یہی گریہ جاری تھا لب متحرک تھے کہ اس عالم میں جان جان آفرین کے سپر د کر دی۔ اور یوں 86 سال کی عمر پا کر 179ھ کو انتقال فرمایا۔
3 : امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی بات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسے ہیں جن کی ہر بات کا قبول کرنا فرض ہے۔
ارشاد السالك: 227/1 ۔
4 : امام ابن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے پاس تھا کسی نے مسئلہ پوچھ لیا کہ وضو میں پاؤں کی، انگلیوں کے خلال کا کیا حکم ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ هذا ليس بشبي ”کہ یہ کوئی چیز نہیں “ یعنی اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے۔ امام ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب لوگ چلے گئے اور امام مالک اکیلے رہ گئے تو میں ان کے پاس گیا، اور عرض کیا کہ استاد محترم! اس بارے میں ہمیں ایک حدیث اس سند کے ساتھ پہنچی ہے۔ حدثني ليث بن سعد وابن لهيعة وعمرو بن حارث ان تینوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے یزید بن عمرو سے، انہوں نے ابوعبد الرحمن الحبلی سے اور انہوں نے مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی خنصر سے پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے تھے، تو امام مالک رحمہ اللہ فرمانے لگے : یہ حدیث حسن ہے۔ عبد اللہ بن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد امام مالک رحمہ اللہ سے پھر کسی نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: ہاں انگلیوں کا خلال کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
مقدمه جرح و تعدیل، ص: 31، 32۔ سنن الكبرى للبيهقي: 76/1، 77.

امام شافعی رحمہ اللہ (وفات 204ھ) :

اُصول فقہ:

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اصول کو خود اپنی تالیفات میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ نیز ثقات نے بھی بہت کچھ سنہرے اصول آپ سے نقل کیے ہیں۔
آپ کے اقوال دیگر ائمہ سے اصول اتباع وسنت کے بارے میں زیادہ منقول اس لیے بھی ہیں کہ آپ کے زمانے میں مذاہب اور اقوال علماء پر تعصب مزید ہو چکا تھا۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل کے زمانے میں بھی تعصبات میں شدت آچکی تھی اس لیے آپ سے بھی اس مسئلے
میں اقوال کثرت سے منقول ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اصل الأصول قرآن وسنت ہے، اگر دونوں میں مسائل کا حل نہ ملے تو انہیں دونوں پر قیاس کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے حدیث ثابت ہو تو وہی سنت ہے۔ اجماع ، خبر یعنی حدیث و آثار صحابہ سے قوی ہے۔ حدیث کو اس کے ظاہر ہی پر محمول کرنا ہے۔ اگر کئی معانی کا اشتباہ ہو تو جو سب سے ظاہر معنی ہے اسی کولیا جائے گا۔ اگر کئی احادیث میں اختلاف ہو تو جو سب سے صحیح سند سے ہے وہی راجح ہے۔ جس حدیث کی سند میں انقطاع ہے سوائے سعید بن مسیب کی منقطع کے وہ ضعیف ہے۔
الفقيه والمتفقه : 23/1.
نیز فرمایا: کسی کو بغیر علم کے کسی چیز کے بارے میں حلال و حرام کا فتویٰ دینا جائز نہیں اور علم کے مصادر کتاب وسنت، اجماع اور قیاس ہیں۔
دوسرے مقام پر کہا کہ علم کے مصادر کتاب وسنت، اجماع، آثار اور بیان کردہ طریقے پر قیاس ہے۔
کے اجتہاد پر اس کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔
الرسالة، ص: 8583۔
پھر فرمایا کہ علم کے دو طریقے ہیں:
(1) اتباع
(2) استنباط
اتباع یہ ہے: کہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے ، اگر مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت رسول پر عمل ہو، اگر سنت رسول میں نہ ملے تو سلف کے اقوال پر عمل ہو ۔ ان سب کے نہ ہونے کی صورت میں اللہ کی کتاب کی دلیل پر قیاس ہو، نہیں تو سنت کی دلیل پر قیاس ہو، نہیں ہے تو عام سلف کے متفق علیہ قول پر قیاس کیا جائے۔ تمام ادلہ کے نہ ہونے کی صورت میں قیاس کے بغیر کہنا جائز نہیں۔
اور جن کے لیے قیاس کرنا جائز ہے، اگر ان میں قیاس و اجتہاد میں اختلاف ہو تو ہر ایک کو اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنا ہے، دوسرے کے اجتہاد پر اس کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔
كتاب الأم: 153/1 .
مزید فرمایا: حجت کتاب وسنت میں اور آثار صحابہ میں ہے۔ مسلمانوں کے قول یعنی اجماع میں ہے۔ اور نہیں تو مذکورہ حجتوں پر قیاس بھی حجت ہے۔
كتاب الأم:31/2.
نیز فرمایا : بات وہی قبول کی جائے گی جو کتاب و سنت یا صحابہ کرام سے ثابت شدہ آثار یا اجماع سے ہو۔
كتاب الأم: 343/2.
نیز فرمایا : جو احکام کتاب وسنت میں ہوں ان کی اتباع نہ کرنے میں کوئی عذر نہیں۔ بہر حال ان کی اتباع واجب ہے۔
اگر کتاب وسنت میں نہیں تو صحابہ کے اجماعی اقوال کو لیں گے۔ اگر اجماع نہیں ہے تو ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کی تقلید ہمارے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
كتاب الأم: 265/7.
مزید کہا: ائمہ کا طریقہ ہم نے یہ پایا کہ کوئی بات کہنی ہو تو لوگوں سے کتاب وسنت کا علم پوچھتے تھے۔ ان کی اپنی رائے کے خلاف اگر کسی مسئلہ کی خبر ملی تو کتاب وسنت کی خبر کو قبول کر لیتے ۔ اپنے تقویٰ کی بنا پر کتاب وسنت کی طرف رجوع کر لیتے انکار نہ کرتے۔ اگر ہمیں ائمہ کی تحقیق نہ ملے تو صحابہ کرام کے اونچے مقام کی بنا پر ان کے قول کو لیں گے۔ ان کے بعد کے لوگوں کی پیروی کی بجائے صحابہ کی پیروی افضل ہے۔ اور علم کے کئی درجات ہیں:
پہلا درجہ :
کتاب وسنت صحیحہ کا ہے۔
دوسرا درجہ :
اجماع کا ہے جہاں کتاب وسنت نہ ملے۔
تیسرا درجہ :
کسی صحابی کے قول کا ہے اگر ان کا کوئی مخالف نہیں۔
چوتھا درجہ :
صحابہ کے مختلف اقوال و آراء کا ہے۔
پانچوں درجہ :
قیاس کا ہے بشرطیکہ ان مذکورہ درجات پر قیاس کیا گیا ہو۔
لیکن یاد رہے کہ کتاب وسنت کے ہوتے ہوئے کسی اور دلیل کو لینا جائز نہیں۔ اس کے با وجود امام شافعی رحمہ اللہ قیاس کو مجبوری اور اضطراری حالات میں استعمال فرماتے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اجماع سے فیصلہ کریں گے اس کے بعد قیاس سے۔ اجماع کی یہ نسبت قیاس بہت ہی ضعیف دلیل ہے مگر اضطراری حالات کے لیے ہے۔ خبر (حدیث ) کی موجودگی میں قیاس کرنا حلال نہیں بعینہ تیمم کی طرح کہ پانی کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں ۔ اسی طرح سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی دلیلیں اس وقت حجت ہوگی جبکہ سنت نہ پائی جائے۔
الرسالة ، ص: 559، 560۔ دیکھیں : آداب الشافعي ومناقبة لابن ابی حاتم۔ مناقب الشافعی للبیھقی۔ معرفة السنن والآثار للبيهقى الفقيه والمتفقه للخطيب.

اقوال:

1 : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا جب میں کوئی بات کہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میری بات کے خلاف ہو تو یا درکھو کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح ثابت ہو وہی لائق اتباع ہے لہذا میری تقلید نہ کرنا ۔
کتاب الامتاع از امام بیهقی
2 : «قال الشافعي : إذا قلت قولا وكان النبى قال خلاف قولي فما يصح من حديث النبى أولى فلا تقلدوني »
عقد الجيد.
” امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا : جب میں کوئی مسئلہ بتاؤں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قول کے خلاف فرمایا ہو تو جو مسئلہ حدیث سے ثابت ہو وہی افضل ہے۔ پس میری تقلید مت کرو۔“
3 :«إنه كان يقول إذا صح الحديث فهو مذبسبي إذا رأيتم كلامي يخالف الحديث فاعملوا بالحديث واضربوا بكلامي الحائط»
عقد الجيد.
” امام شافعی رحمہ اللہ فرما یا کرتے ، جب صحیح حدیث مل جائے پس جان لو کہ میرا مذہب وہی ہے ( اور ) جب میری بات کو حدیث کے مخالف دیکھو تو ( خبر دار ) حدیث پر عمل کرو اور میری بات کو دیوار پر دے مارو “
امام شافعی رحمہ اللہ نے امام احمد کی خدمت میں عرض کیا:
4 : «أنتم أعلم بالحديث والرجال مني ، فإذا كان الحديث الصحيح فا علموني به أى شيء يكون كوفيا أو بصريا أو شاميا حتى أذهب إليه»
آداب الشافعی، ابن ابی حاتم ص: 94، 95 ۔ حلية الأولياء ابونعیم 106/9۔ الاحتجاج بالشافعی، خطيب، ص: 8.
” آپ کو میری نسبت حدیث اور رجال کا زیادہ علم ہے۔ لہذا آپ کی تحقیق کے مطابق جب کوئی حدیث صحیح ہو تو مجھے بھی بتا دیا کریں خواہ وہ کوفی ہو یا بصری ہو یا شامی تاکہ حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں میں بھی اس کے مطابق عمل کروں ۔“
آپ تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے :
5 : «إذا رأيتموني أقول قولا وقد صح عن النبى خلافه، فاعلموا أن عقلي قد ذهب»
آداب الشافعی ابن ابی حاتم ص : 39ـ حلية الأولياء: 106/9 ۔ ابن عساکر : 10/15.
”جب تم یہ دیکھو کہ میں ایک بات کہہ رہا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف ثابت ہے تو جان لو کہ میری عقل جواب دے گئی ہے۔“
امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے:
6 : «كل ما قلت فكان عن النبى خلاف قولي مما يصم فحديث النبى أولى فلا تقلدوني»
ابن عساکر : 9/1۔
” میری ہر وہ بات جس کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح سند سے ثابت ہو، تو میری تقلید نہ کرو بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرو ۔ “
امام شافعی فرماتے ہیں:
7 :«أجمع المسلمون على أن من استبان له سنة عن رسول الله لم يحل له أن تدعها لقول احد»
اعلام الموقعين : 361/2 ایقاظه ص: 68.
” مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ کسی کے قول کی وجہ سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے۔“
8 : كل العلوم سوى القرآن مشغلة
إلا الحديث وإلا الفقه فى الدين
العلم ما كان فيه قال حدثنا
وسوى ذاك من وسواس الشياطين

مواهب الوفي في مناقب الشافعي
” قرآن وحدیث اور تفقہ فی الدین کے علاوہ تمام علوم مشغلہ ومصروفیت ہیں ۔ علم وہی ہے جس میں یہ ہو کہ فلاں نے یہ حدیث بیان کی وگر نہ صرف شیطانی وساوس ہی ہیں ۔ “
9 : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”ہر شخص سے سنت رسول کبھی مخفی رہ سکتی ہے، لہذا جب میں کوئی بات کہوں یا کوئی اصول بیان کروں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو تسلیم کرو، وہی میرا قول ہے۔ “
ایقاظهمم أولى الأبصار ص : 100 ۔ اعلام الموقعين: 363/2.
10 : امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ففرض الله على الناس اتباع وحبه وسنن رسوله »
الرسالة، ص: 76 ، رقم: 244
”اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی وحی اور اپنے رسول کی سنن کی اتباع فرض کی ہے۔ “
11 : امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كل ما قلت وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولىٰ مما يصح فحديث النبى صلى الله عليه وسلم أولى، ولا تقلدوني»
آداب الشافعي و مناقبه لا بن ابی حاتم، ص: 15.
”میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو، اُسے چھوڑ دو، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ لائق اتباع ہے، لہذا میری تقلید نہ کرو۔ “
12 :امام مزنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«اختصرت هذا الكتاب من علم محمد بن إدرئيس الشافعي رحمه الله ومن معنى قوله لأقربه على من أراده مع اعلامية نهيه عن تقليده وتقليد غيره، لينظر فيه لحديثه ويحتاط فيه لنفسه»
الام مختصر المزني ص: 1.
”میں نے یہ کتاب (امام) محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم سے مختصر کی ہے تا کہ جو شخص اسے سمجھنا چاہے آسانی سے سمجھ لے، اس کے ساتھ میرا یہ اعلان ہے کہ امام شافعی نے اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید سے منع فرما دیا ہے تا کہ شخص اپنے دین کو پیش نظر رکھے اور اپنے لیے احتیاط کرے۔ “

امام احمد بن حنبل والله (وفات 241 ھ) :

أصول فقه:

اسی طرح ائمہ ثقات نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اصول نقل کئے اور وہ ان پر عمل کرتے رہے۔ اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے منجملہ اور مسائل کے جنہیں ہم نے ان سے سنا ہے، انہیں دیکھا بھی ہے کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی حدیث ہوتی تو وہ کسی صحابی یا تابعی وغیرہ کی بات اس کے خلاف نہ لیتے ۔ اور اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف اقوال انہیں ملتے تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کر قبول کرتے۔ اسی طرح اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی نہ ہی صحابہ کے اقوال ملتے تو تابعین کے اقوال میں سے کسی کا قول اختیار کرتے ۔ عمرو بن شعیب اور ابراہیم ھجری کی حدیث کی طرح اگر حدیث میں کچھ ضعف بھی ہوتا تو اسے لے لیتے اگر اس سے قوی کوئی حدیث نہ ملتی۔ اسی طرح مرسل حدیث کے خلاف بھی کوئی حدیث نہ ملتی تو اسے قبول کرتے۔
الفقيه والمتفقه : 321/1۔
ابو محمد رزق اللہ تمیمی نے امام احمد کے اصول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ کہنا تھا کہ احکام شرعیہ اور ان مسائل میں جن میں ظاہری علوم کا دخل نہیں دلیلوں کے پانچ اصول ہیں :
پہلا اصل:
اللہ کی کتاب ہے۔ اور یہ آیت پڑھتے تھے:
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ
(6-الأنعام:38)
”ہم نے کتاب میں کوئی چیز بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی۔ “
دوسرا اصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ استدلالاً یہ آیت پڑھتے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(4-النساء:59)
”اگر کسی چیز میں اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ۔ “
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کی وفات کے بعد لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے۔ عليكم بسنتي کی حدیث کی روایت بھی کرتے ، اور یہ آیت پڑھتے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:7)
”جو کچھ رسول تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آجاؤ۔“
تیسرا اصل :
کسی زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اگر وہ آپس میں اختلاف نہ کریں۔ اگر ان میں سے ایک عالم نے بھی اختلاف کر دیا تو اجماع ثابت نہ ہوگا۔ اجماع کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بعض علماء سے کوئی قول مشہور ہو دوسرے لوگوں کو اس کا علم ہولیکن کسی نے اس کا انکار نہ
کیا ہو۔
پہلا درجہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے بعد کے لوگوں کو اس کے تابع رہنا ہے۔
چوتھا اصل :
کسی ایک صحابی کا قول ہے جولوگوں میں مشہور ہو۔ کسی صحابی نے اس پر نکیر نہ کی ہو۔
پانچواں اصل :
یہ قیاس ہے۔
قیاس کی تعریف یہ ہے: کہ کسی مسئلے کا شرعی حکم ثابت ہو تو اسی جیسے دوسرے مسئلے پر بھی مشترک سبب کی بنا پر حکم لگانا اور اگر دونوں مسئلوں میں کوئی مشترک سبب نہ ہو تو قیاس جائز نہیں۔
امام رحمہ اللہ ایسے ہی قیاس کو جائز سمجھتے تھے پھر بھی قیاس کو دلیلوں کے درمیان مجبوری میں مردہ کا گوشت کھانے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی سے تیمم کی طرح جانتے تھے۔
اصول مذهب الامام احمد و مشربه المطبوع باخر طبقات الحنابله لابن ابن یعلی : 283/2، 285.
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کے اصول کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے فتاوی کی بنیاد پانچ اصول و قواعد پر تھی :
پہلا قاعدہ :
نصوص ہیں ۔ نصوص کے مطابق فتوی دیتے اس کے خلاف کسی چیز کی طرف توجہ نہ دیتے۔ صحیح حدیث پر کسی کے قول عمل، رائے ، قیاس ، صحابی کے قول اور نہ اس اجماع کے دعوی کو ترجیح دیتے جسے بہت سے علماء صحیح حدیث پر ترجیح دیتے ہیں، بلکہ اس قسم کے اجماع کا دعوی کرنے والے کو امام احمد جھٹلاتے تھے۔ اسے حدیث پر ترجیح دینے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا قاعدہ :
صحابہ کے فتاوی ہیں اگر کسی صحابی کا فتویٰ جس کا صحابہ میں سے کوئی مخالف نہ ہوتا تو اس فتوی کو نہ چھوڑتے ۔ آپ تو رّع میں اس قسم کے قول کو اجماع نہ کہتے بلکہ اس طرح کہتے کہ مجھے اس فتوی کے مخالف فتویٰ کا علم نہیں ہے۔
تیسرا قاعدہ :
یہ ہے کہ صحابہ کے اختلافی مسائل میں جو کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہوتا اسی کو اختیار کرتے لیکن صحابہ کے اقوال سے باہر نہ جاتے ۔ اگر کسی قول کی ترجیح آپ کے نزدیک ظاہر نہ ہوتی تو بغیر ایک کے اختیار کئے تمام اقوال کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کسی بستی میں آدمی سے ایسا مسئلہ پوچھا جائے جس میں لوگوں کا اختلاف ہے تو کیا کرے؟ آپ نے کہا: کہ کتاب وسنت کی موافقت میں فتوی دے اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اس کا فتوی نہ دے۔ کہا گیا کہ اس صورت میں اس پر کوئی خوف نہیں؟ کہا نہیں۔
چوتھا قاعدہ :
مرسل اور ضعیف حدیث سے استدلال لینا ہے۔ جبکہ اس موضوع میں کوئی دوسری حدیث اسے دفع نہ کرتی ہو۔ آپ نے اسی حدیث کو قیاس پر ترجیح دیا ہے۔ البتہ ضعیف سے مراد باطل اور منکر حدیث نہیں ہے۔ اور نہ ایسی حدیث مراد ہے جس کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی ہو، جس سے مسئلہ لینا جائز نہ ہو، بلکہ ضعیف حدیث سے مراد حسن درجہ کی حدیث ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں کوئی قول صحابی یا اجماع اس کے خلاف نہ ہو آپ کے نزدیک ایسی ضعیف حدیث پر عمل قیاس پر عمل سے افضل ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : تمام ائمہ کرام اس رائے میں امام احمد کے موافق ہیں۔ اس کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ ،شافعی اور مالک رحمہ اللہ سے کئی ایسے مسائل ذکر کئے ہیں جن میں انہوں نے ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے۔
پانچواں قاعدہ :
اگر امام کے پاس کسی مسئلہ میں کتاب وسنت کا نص نہ ہو، نہ قول صحابہ یا قول صحابی اور نہ ہی مرسل اور ضعیف حدیث تو قیاس کو مجبوری کی صورت میں استعمال فرماتے ۔ ابو الحارث کی روایت میں امام نے کہا کہ رائے اور قیاس کی ضرورت نہیں، حدیث میں سب کچھ ہے۔ میمونی کی روایت میں آپ نے فرمایا: کہ فقہ سے متعلق بولنے والا جمل اور قیاس سے دوری ہے۔
یہ پانچ اصول و قواعد آپ کے فتاوی کے مدار اور بنیاد تھے۔ کبھی آپ فتوکی سے توقف فرماتے ۔ جب دلیلیں متعارض ہو تیں یا صحابہ کا اختلاف ہوتا یا مسئلے میں صحابی یا تابعی کا فتوئی نہ پاتے یا جس مسئلے میں سلف کا کوئی اثر نہ پاتے تو اس میں فتویٰ کو سخت مکر وہ جانتے اور فتوی دینے سے سختی سے منع فرماتے۔ جیسا کہ آپ نے بعض شاگردوں سے فرمایا : جس مسئلے میں تم سے پہلے کسی امام نے فتوی نہ دیا ہو تو اس میں ہرگز نہ بولنا۔
اعلام الموقعين : 33، 29/1۔

اقوال:

1 : «لا تقلدني ولا تقلد مالكا ولا الشافعي ولا الأوزاعي ولا التورئ وخذ من حيث أخذوا من الكتاب والسنة»
عقد الجيد.
”ہرگز میری تقلید نہ کرنا اور نہ امام مالک رحمہ اللہ کی اور نہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اور نہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کی اور نہ امام ثوری رحمہ اللہ کی اور نہ ان کے سوا کسی اور کی تقلید کرنا ، کتاب وسنت سے احکام لو جہاں سے انہوں نے لیے ہیں ۔ “
2 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
« عجبت لقوم عرفوا الإسناد وصحته يذهبون إلى ر أى سفيان والله يقول: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (24-النور:63) اتدرى ما الفتنة؟ الفتنة الشرك، لعله إذا رد بعض قوله أن تقع فى قلبه شيئ من الزيغ فيهلك»
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے، جو اسناد کو بھی جانتے ہیں اور اس کی صحت کو بھی، اس کے باوجود سفیان رحمہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(24-النور:63)
”سنو جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ) پہنچے۔ “
3 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
«من رد حديث رسول الله فهو على شفا هلكة »
المناقب لابن الجوزي ص: 182.
” جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کر دے، وہ تباہی و ہلاکت کے کنارے پر ہے۔ “
5 : امام ابو داود السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے امام احمد سے پوچھا: کیا امام اوزاعی، امام مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
«لا تقلد دينك أحدا من هؤلاء الخ»
”اپنے دین میں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر ۔ الخ “
مسائل ابی داود، ص: 277 ۔
6 : امام احمد فرماتے ہیں:
«ليس لأحد مع الله ورسوله كلام»
عقد الجيد: 81.
”اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں کسی کا کلام کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ “
7 : اوزاعی مالک اور ابوحنیفہ کی آراء، آراء ہی ہیں میرے نزدیک ان کا درجہ دلیل و حجت نہ ہونے میں یکساں ہے اور دلیل و حجت تو صرف احادیث اور آثار ہیں ۔
جامع بيان العلم لابن عبد البر : 149/2.

منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کے جوابات :

قارئین کرام ! منکرین حدیث ، حدیث کو رد کرنے کے لیے کچھ اعتراضات کرتے ہیں۔ اب ہم ان میں سے ہر ایک اعتراض کا بغور جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں کس قدر وزن ہے یا یہ بیہودگی کا شاہکار ہیں ۔
جوان اعتراضات کی حیثیت ہے، اس کو کھول کر لوگوں کے سامنے واضح کر دیتے ہیں تا کہ حق و باطل کے درمیان فرق ہو جائے ۔
قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل كان زهوقا

پہلا اعتراض :

قارئین کرام ! منکرین حدیث کا ایک اعتراض حدیث کو رد کرنے کے لیے یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں اختلاف بہت ہے۔ جو کہ فتنہ کا باعث ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے، الہذا ہم حدیث کو ہی نہیں مانتے۔
جواب :
قارئین کرام ! حدیث کے اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ ہم اس پر بحث نہیں کر رہے؟ بحث ہے کہ کیا اختلاف کی وجہ سے احادیث کو رد کرنا چاہیے؟ اور اختلافات ہی رد کرنے کا سبب ہے؟
حدیث کو نہ ماننے کی وجہ اگر اختلاف ہے، تو بیسیوں آیتیں قرآن حکیم کی ہیں کہ جن میں بظاہر اختلاف ہے، اگر اختلاف ہونا ہی رد کر دینے کا سبب ہے تو ان آیات کو بھی ماننے سے انکار کر دیجئے ۔ چند آیات بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(2-البقرة:240)
”جولوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھا ئیں انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لیے اچھائی سے کریں، اللہ خوب غالب اور حکیم ہے۔“
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جن عورتوں کے شوہر فوت ہو جا ئیں تو ان کو ایک سال تک فائدہ پہنچاؤ اور ان کو گھروں سے مت نکالو لیکن دوسری آیت میں یوں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(2-البقرة:234)
” تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں، پھر جب مدت ختم کر لیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبر دار ہے۔ “
کہ جن عورتوں کے شوہر فوت ہو جا ئیں تو وہ چار مہینے دس دن تک انتظار کریں یعنی عدت گزاریں، شوہروں کے گھروں میں رہیں، اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ چار مہینے دس دن تک انتظار کرنا ہے۔ جبکہ اوپر والی میں ایک سال کا ذکر ہے۔ تو دونوں آیتوں میں ظاہری اختلاف ہے۔ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
(8-الأنفال:65)
”اے نبی ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ ، اگر تم میں بیسں بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دوسو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب ہیں۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تم اپنے سے دس گناہ بڑے لشکر کو شکست دے سکتے ہو لہذا دس گنا بڑے لشکر سے بھی لڑو۔ لیکن اس سے آگے والی آیت میں فرمایا کہ تم اپنے سے دو گناہ لشکر کو شکست دے سکتے ہو۔ لہذا اپنے سے دو گناہ بڑے لشکر کے ساتھ لڑائی کرو۔ پہلی آیت میں دس گناہ سے لڑنے کی ترغیب اور دوسری میں دو گناہ سے لڑنے کی ترغیب دونوں آیتیں ایک دوسرے کے ظاہر کی مخالف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا
(33-الأحزاب:52)
”اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے نکاح کرے اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پوری طرح نگہبانی کرتا ہے۔ “
اس آیت سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد اب کسی عورت سے نکاح نہیں کر سکتے ۔ جبکہ دوسری آیت:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ
(33-الأحزاب:50)
”اے نبی ہم نے تیرے لیے وہ بیویاں حلال کر دی ہیں، جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں۔ “
اس آیت سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کرنا جائز ہے، نکاح کر سکتے ہیں، او پر والی آیت نکاح سے منع کرتی ہے جبکہ دوسری آیت نکاح کی اجازت دیتی ہے۔ دونوں میں ظاہری اختلاف ہے ایک ماننے سے دوسرے کا انکار لازم آتا ہے۔
یہ تو تین مثالیں قرآنی آیات کے بظاہر اختلاف کی ہیں، ایسی بیسیوں آیات منکرین باطل کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں۔ تو کیا وہ اپنے کفریہ نظریہ کے مطابق اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اگر تاویل کر کے ان کے اختلاف کو ختم کریں گے تو کیا ایسے تاویل کر کے حدیث کے اختلاف کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر انکار کیوں؟ لہذا اپنے کفریہ نظریہ سے تائب ہو جائیں، یہی عافیت کی راہ ہے۔
اگر ان آیات کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے ناسخ و منسوخ اور دوسرے دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے تو احادیث مبارکہ میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟
منکرین حدیث کے بقول حدیث کو اگر مانیں تو اس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، جناب عالی! اگر حدیث کو نہ مانا جائے تو کیا اختلاف ختم ہو جائے گا؟ اگر اختلاف ختم ہو جائے گا تو ذرا کر کے دکھا دیجئے !
دو منکرین حدیث میں اختلاف ہو گیا ہے، ایک زید ہے اور دوسرا بکر ہے۔
زید کہتا ہے: پانچ نمازیں فرض ہیں ۔
بکر کہتا ہے: نہیں تین نمازیں فرض ہیں۔
ان دونوں میں صحیح کون ہے اور غلط کون فیصلہ کون کرے گا؟
زید کہتا ہے: ظہر کی چار رکعات ہیں۔
بکر کہتا ہے: تین رکعات ہیں۔
زید کہتا ہے: میں بیٹھ کر سلام پھیروں گا۔
بکر کہتا ہے: میں کھڑے ہو کر سلام پھیروں گا۔
زید کہتا ہے: ایک ہی سجدہ کافی ہے دوسرے کی ضرورت نہیں ہے۔
بکر کہتا ہے: میں تو ایک ایک رکعت میں تین تین سجدے کروں گا۔
ذرا ٹھنڈے دل سے جواب عنایت فرمائیں کہ ان دونوں کے اختلاف کا حل کہاں سے آئے گا؟
آپ نے حدیث کو اس لیے رد کر دیا تھا کہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اختلاف تو حدیث کو رد کرنے کے باوجود باقی ہے، نا صرف باقی ہے۔ بلکہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ہر دو افراد میں شدید ترین اختلاف ہر مسئلہ میں واقع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے تین مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بیسیوں مسائل نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ،سفر اور حضر نمازوں کے اوقات وغیرہ میں اختلاف ہو جائے گا۔ اس اختلاف کو حل کون کرے گا؟
اگر ان کے بقول ان مسائل کا تعین وقت کا حکمران کرے گا تو ہم سوال کریں گے کہ حکمران کو یہ اتھارٹی کس نے دی ہے کہ وہ اللہ کے دین کا تعین کرے، جبکہ یہ اتھارٹی تو اللہ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کو بھی نہیں دی۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ‎﴿٤٤﴾‏ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ‎﴿٤٥﴾‏ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ‎﴿٤٦﴾‏
(69-الحاقة:44، 45، 46)
”اگر یہ ( ہمارا پیغمبر ) بھی اپنی کسی بات کو ہماری طرف منسوب کر دیتا ، تو ہم اس کو بھی اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے “
قارئین کرام ! اندازہ فرمائیں! کہ دین میں کمی اور زیادتی کا اختیار اللہ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کو بھی نہیں دیا تو حکمران کون ہوتا ہے؟ کہ دین میں کمی یا زیادتی کر سکے۔ جب حکمران کمی اور زیادتی نہیں کرسکتا، تو پھر تعین اور وضاحت تو نہ ہو سکے گی۔ جب نہ ہو سکے گی تو اختلاف تو باقی رہا۔ جب مشکل سے نکلنے کے لیے حدیث کا انکار کیا تھا۔ انکار کرنے سے تو اس سے بڑی مصیبت اور مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ لہذا امن و عافیت کا راستہ یہی ہے کہ انکار حدیث سے توبہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے قبول کریں، تا کہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات مل جائے ۔ کیونکہ یہ نجات اور کامیابی کا راستہ ہے۔

دوسرا اعتراض ( حدیث قرآن کے خلاف ہے):

قارئین کرام! منکرین کا یہ اعتراض بھی انتہائی بودہ ہے۔ کیونکہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے نہ کہ اس سے ٹکرانے والی۔ یہ الگ بات ہے کہ رب نے ذہن ماؤف کر دیے ہوں، جن میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہو کہ جنہوں نے معمولی بظاہر ٹکراؤ کو انتہائی خطرناک اختلاف باور کرایا ہو۔
منکرین اپنے مذکورہ دعویٰ کی دلیل کے طور پر صحیح بخاری کی اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ جس میں ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹوں کا ذکر ہے۔ جبکہ قرآن سید نا ابراہیم علیہ السلام کوسچا نبی قرار دیتا ہے۔ حدیث جھوٹ کا الزام لگاتی ہے۔ لہذا حدیث کو رد کر دیتے ہیں۔ ذیل میں مذکورہ واقعات کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ کی طرف منسوب کرتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم کا مذکورہ جھوٹ نہیں ہے بلکہ توریہ ہے یعنی ایسا انداز کہ جس سے سامنے والا مقصد تک غور و خوض کے بعد پہنچے بالفاظ دیگر یہ انداز بہتر طور پر سمجھانے کے لیے اپنا یا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنایا۔
بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا
(21-الأنبياء:63)
”بلکہ یہ ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے۔“
1 : بڑے بت کو چھوڑ دیا باقی سب کو توڑ دیا ۔ پوچھنے پر جواب دیا کہ بڑے نے توڑا ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ اگر جھوٹ ہی بولنا تھا تو کیا اس کا یہی جواب ہونا چاہیے تھا یا یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجھے تو کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ یقینا یہی ہونا چاہیے تھا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں، لیکن یہ جواب نہیں دیا، بلکہ کہا کہ بڑے نے توڑا ہے۔ تا کہ ان پر بہتر انداز میں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ پتھر کی بنی مورتیاں اور یہ بت کچھ نہیں کر سکتے ۔ تو انہوں نے تو ڑنا کہاں سے ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس مقصد میں قرآن کے الفاظ میں کامیاب ہوئے ، خود کافروں نے اقرار کیا کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے ۔
سید نا ابراہیم علیہ السلام نے مذکورہ انداز اسی لیے اپنایا تھا۔ تا کہ باطل کو اپنے باطل ہونے کا اچھی طرح یقین ہو جائے۔ نا کہ جھوٹ بولنے کے لیے اور نہ ہی جھوٹ بولا۔ بلکہ اس انداز کو توریہ کہا جاتا ہے۔ اگر یہ جھوٹ بھی ہے تو اس کا ذکر قرآن نے بھی کیا ہے۔ لہذا قرآن کو بھی رد کر دیجئے ، کیونکہ قرآن ایک طرف ابراہیم کو سچا کہتا ہے اور دوسری طرف خود اس جھوٹ کو نقل کرتا ہے۔
لہذا ان کے نظریہ کے مطابق ان کے پاس قرآن کو نہ ماننے کی دو وجوہ ہو گئیں۔
① سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹ کا الزام ۔
② قرآن حکیم کی دو آیات میں باہمی اختلاف۔
یہ لوگ اپنے نظریہ کے بارے میں فیصلہ خود کر لیں۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
2: سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ساتھ ایک جابر حکمران کے علاقے میں گزرے۔وہ حکمران خوبصورت عورتیں چھین لیتا تھا اور اگر ساتھ میں شوہر ہوتا تو اس کو قتل کروا دیتا تھا۔ سیده سارہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس حکمران نے طلب کیا، تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کو کہا کہ تم مجھے اپنا بھائی ظاہر کرنا۔
صحیح بخاری، کتاب البيوع، باب شراء المملوك من الحرمي وبهته وعتقه، رقم: 2217، کتاب احادیث الانبياء باب قول الله تعالى واتخذ الله ابراهيم خليلا (النساء) وقوله ان ابراهيم كان امة قانتا لله (النحل) رقم: 3357، 3358
اس حدیث میں مزید وضاحت ہے:
«و الله ان على الأرض من مؤمن غيرى وغير ك»
”اللہ کی قسم ! روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی بھی مومن (جوڑا) نہیں ہے۔ “
اس موقع پر اپنی بیوی کو بہن کہا ہے۔ اب یہ بھی بظاہر جھوٹ ہے، لیکن حقیقت میں جھوٹ ہے بھی نہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے تمام بنی آدم ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں، کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے سب ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں، لہذا جھوٹ نہ رہا، اور پھر یہ جھوٹ اس وجہ سے بھی نہیں ہے کہ اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ظلم و زیادتی سے بچانا ہے۔ اور اس کے جھوٹ کو جھوٹ نہیں مانتا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
(16-النحل:106)
” کہ جس نے مجبورا کلمہ کفر کہہ بھی دیا لیکن دل ایمان پر مطمئن ہے (تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے) “
3 : تیسرا واقعہ یہ کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے انہیں میلے پر جانے کی دعوت دی تو انہوں نے معذوری ظاہر کی یعنی اني سقيم ”بلاشبہ میں بیمار ہوں ۔“ چونکہ انسان کو کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اس لیے سفید جھوٹ نہیں تھا یا انہیں بتوں کی بیماری لاحق تھی۔
یہ انداز مخالفین کو انتہائی ہیچ اور ذلیل کرنے کے لیے اور ان کی ہر قسم کی دلیل کو ختم کرنے کے لیے اپنا یا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم مخالفین سے کسی مسئلہ پر کہتے ہیں، چلو ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں تم ذرا اس کو ثابت کر کے تو دکھاؤ لیکن وہ ثابت نہیں کر سکتے تو ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے اس کردار کو کوئی جھوٹا نہیں کہے گا، بلکہ مخالفین کو ذلیل کیا جائے گا کہ وہ تو ماننے کے لیے تیار تھے لیکن تم ہی ثابت نہ کر سکے۔ یہاں سید نا ابراہیم علیہ السلام کا بھی یہی انداز ہے۔ جس کو کوئی بھی صاحب عقل جھوٹ نہیں کہہ سکتا ۔ کیونکہ اصل مقصد اصلاح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«ليس الكذاب الذى يصلح بين الناس ويقول خيرا وينمي خيرا»
صحیح بخاری کتاب الصلح باب ليس الكاذب الذي يصلح بين الناس، رقم: 2692، کتاب البر والصلة باب تحريم الكذب وبيان ما يباح عنه ، رقم: 6633
” کہ وہ جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان اصلاح کراتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اصلاح کے لئے ٹھیک کہتا ہے اور جو چغل خوری اصلاح کے لئے کرتا ہے وہ بھی جھوٹا نہیں ہے۔“
یہاں اگریہ اعتراض ہے کہ حدیث قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے، تو یہاں معترضین پر یہ اعتراض بھی ہے کہ یہاں دو جھوٹ تو قرآن میں مذکور ہیں۔ لہذا قرآن میں اختلاف ہے تو یہ بھی دلیل و حجت نہ رہا۔

تیسرا اعتراض:

حدیث وحی نہیں ہے۔ جو چیز وحی نہ ہو وہ حجت نہیں ہو سکتی ۔ وحی صرف قرآن مجید ہے۔
سنت آپ کی طرف وحی نہیں کی گئی ۔ لہذاوہ حجت نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا:
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ
(6-الأنعام:19)
”قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے۔ “
جواب :
منکرین حدیث کی یہ دلیل ان کے دعوی کو ثابت نہیں کرتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا گیا ہے ان کی دلیل دعوے کے مطابق نہیں، کیونکہ قرآن کے وحی ہونے کی بہت سی دلیلیں ہیں۔ لیکن کسی آیت میں حصر نہیں کہ قرآن ہی وحی ہے، کوئی اور چیز نہیں، بلکہ حدیث رسول بھی وحی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ‎﴿٤﴾‏
(53-النجم:3، 4)
”اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں، وہ تو وحی ہوتی ہے جو اُن پر اُتاری جاتی ہے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کا پابند کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے دین کے معاملہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ، ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ‎﴿٤٤﴾‏ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ‎﴿٤٥﴾‏ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ‎﴿٤٦﴾‏ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ‎﴿٤٨﴾‏
(69-الحاقة:44 تا 48)
”اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتے تو البتہ ہم آپ کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ، پھر آپ کی شہ رگ کاٹ دیتے پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔“
اندازہ کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین وعید سنائی گئی ہے، اپنی طرف سے دین میں کبھی بھی کسی قسم کی مداخلت کرنے کی صورت میں ، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین میں اپنی خواہش سے کچھ بھی نہیں بولتے، بلکہ جو کچھ بولتے ہیں وہ اللہ کے حکم کے مطابق بولتے ہیں تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی الہی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کی کئی آیات میں اس چیز کی وضاحت فرمائی ہے کہ میرا پیغمبر تو بس ہمارے احکام کا پابند ہے۔ جو کچھ اس کو کہہ دیا جاتا ہے وہی تم تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ صراحت اللہ مہربان نے اس لیے فرمائی ، تا کہ بد باطن لوگ یقین کر لیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی الہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
(6-الأنعام:50)
”آپ کہہ دیجئے ! نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں ۔“
اندازہ کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام خرق عادت امور کی نفی کر دی گئی، نیز یہ بھی وضاحت کر دی گئی کہ میں بس وحی ( اللہ کے پیغام) کی ہی پیروی کرتا ہوں ،معلوم ہوا حد یث وحی الہی ہے۔
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(7-الأعراف:203)
”اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے ، تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے ، آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں ، جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے، یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ۔“
غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار معجزہ کا مطالبہ کرتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں فرماتے کہ میں تو اللہ کے احکامات کا پابند ہوں۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں میرے بس میں معجزہ دکھانا نہیں ہے میرا کام تو وحی الہی کی پیروی کرنا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کا پابند کیا گیا ہے۔ مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
(10-يونس:109)
” جو آپ کی طرف وحی بھیجی گئی ہے اس کی پیروی کریں، اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرما دینے تک صبر کا مظاہرہ کریں، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔“
قارئین کرام! ان تمام آیات پر غور فرما ئیں معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحی کے پابند ہیں۔ وحی الہی کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہی میں قطعا دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وحی الہی نہ ہو۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بھی وحی الہی ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اب ہم آپ حضرات کے سامنے قرآن میں بیان کردہ کچھ ایسے واقعات بیان کرتے ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بھی وحی الہی قرار دیتا ہے۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
(66-التحريم:3)
” پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی کہا سب جانے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلا دیا، اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو تو بہت بہتر ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پورے واقعہ کی خبر وحی کے ذریعے سے دی گئی، جس کی صراحت خود قرآن پاک کر رہا ہے کہ:
نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
(66-التحريم:3)
”مجھے علیم الخبیر نے بتایا ہے۔“
اگر وحی صرف اور صرف قرآن کا نام ہے ، حدیث وحی الہی نہیں ہے تو پھر وہ واقعہ کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ آیت میں بتایا گیا، جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی گئی ہے اور جس کا قرآن خود اعتراف کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ رہے ہیں کہ مجھے علیم الخبیر نے خبر دی ہے۔ وہ واقعہ پورے قرآن سے ثابت کر کے دکھا ئیں جو کہ نہیں ہوسکتا۔ تو جب ثابت نہیں ہو سکتا تو ماننا پڑے گا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے کہ جس کی صراحت قرآن کی مذکورہ آیت کرتی ہے۔
دوسرا واقعہ قرآن بیان کرتا ہے۔
لَقَد صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّويَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلْنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ الله مِنينَ مُحَلَقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ‎﴿٢٧﴾‏ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا ﴿٢٨﴾‏
(48-الفتح:27، 28)
”یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واقعہ خواب سچا دکھایا کہ ان شاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوؤ گے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے چین کے ساتھ نڈر ہو کر، وہ ان امور کو جانتا ہے، جنہیں تم نہیں جانتے ، پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی “
اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا ذکر ہے، وہ خواب کیا تھا کہ جس کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مذکورہ آیت میں کیا ہے، پورا قرآن اٹھا لیجئے کہیں ان حضرات کو خواب نہیں ملے گا اگر ملے گا تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جس کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے تو اسی سے بھی ثابت ہوا کہ حدیث بھی وحی الہی ہے، اسی وجہ سے قرآن اس کی تائید وضاحت کر رہا ہے۔
تیسر اواقعہ جس سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی الہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ارشادر بانی ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ
(2-البقرة:143)
”جس قبلہ پر پہلے تھے اس کو تو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا، تا کہ ہم یہ جان لیں کہ کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے۔ اور کون نہیں کرتا ۔ “
قارئین کرام! ارشاد ربانی پر غور فرمائیں کہ پہلے قبلہ کو ہم نے مقرر کیا، بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم پورے قرآن میں نہیں ہے، اگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہی نہ مانا جائے تو پھر قرآن کے اس حکم کو کیا کہو گے؟
قارئین کرام! بیسیوں ایسے واقعات قرآن میں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے اور اس کے وحی الہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ چند ایک واقعات آپ کے سامنے بیان کر دیے ہیں ، جو سمجھنے کے لیے کافی ہیں، بشرطیکہ دل میں ایمان ہو اور رب نے دل پر مہر نہ لگادی ہو، کیونکہ دلوں کے بند ہو جانے کی صورت میں ہزاروں لاکھوں دلائل بھی کارگر ثابت نہ ہوں گے۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشین گوئیوں کا پورا ہونا بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے نکلنے والے کلمات وحی الہی ہیں، بس اتفاق اتنا ہے کہ قرآن رب کے الفاظ ہیں جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ، اللہ تعالیٰ کے مفہوم کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں ، دونوں ہی اللہ کی طرف سے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار پیش گوئیاں فرمائیں، بعض پوری ہوچکی ہیں اور باقی ان شاء اللہ پوری ہو کر رہیں گی، یہ سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے وحی تھیں اور اس کا اقرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی گاہے بگا ہے فرماتے رہتے تھے:
① سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: اے فاطمہ ! سب سے پہلے آپ مجھے ملو گی ۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3712.
② سید نا سراقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سراقہ میں تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن دیکھ رہا ہوں ۔
الخصائص الكبرى للبيهقي: 113/2.
③ جس وقت سید نا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اکیدر کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ تم اس کو گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے چنانچہ اسی طرح ہی ہوا۔
اکنز العمال: 31565۔ البدايه والنهايه : 1765.
④ خیبر کے بارے میں اطلاع دی کہ کل ایک بندے کے ہاتھ پر فتح ہو جائے گا اور صبح خیبر سید نا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہو گیا ۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4209
⑤ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا ”میرا یہ بیٹا مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اتفاق کا سبب ہوگا۔ “
صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3746.
اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامت اور اس سے پہلے پیش آنے والے واقعات کی خبر دی جو کہ علم غیب سے تعلق رکھتی ہے اور قرآن وحدیث کی قطعی نصوص اس کو واضح کرتی ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، کیونکہ یہ اس کی صفت ہے۔ نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی ذات میں اس کا شریک ہے اور نہ ہی اس کی صفات عالیہ میں ۔ تو جب اس کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غیب کی خبریں کیسے دیں؟ جبکہ قرآن وحدیث کی صریح نصوص اس چیز کی بھی وضاحت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم الغیب نہیں جانتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیے:
وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ
(7-الأعراف:188)
”کہ اگر میں علم غیب جانتا ہوتا تو میں تو بہت سی خیر حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی بھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ “
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، تو پھر یہ غیب کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے دے رہے ہیں۔ اس کا قطعی جواب یہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی سے دے رہے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
(81-التكوير:24)
”اور وہ غیب کی خبروں پر بخیل نہیں۔ جو خبریں ان کو دی جاتی ہیں، وہ تمہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ “
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیب کی خبریں بھی وحی الہی ہیں۔ جن کا ذکر اگر چہ قرآن میں نہیں لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحی جو کہ قرآن کے علاوہ ہے۔ اور وہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے، اور اس کے وحی الہی ہونے میں ایک ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے، اور اگر کوئی شک کرے گا تو یقینا اس کا ایمان سلامت نہیں رہے گا بلکہ وہ بد بخت ومر دو ہو گیا۔
سیدنا حسان بن عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كان جبريل بنزل على النبى صلی اللہ علیہ وسلم بالسنة كما ينزل عليه القرآن.»
سنن دارمی، باب السنة قاضية على كتاب ، رقم: 588.
”جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کریم کی طرح سنت لے کر بھی آئے تھے۔“
پیغمبروں کی طرف وحی کی جاتی ہے، اس کی کئی اقسام ہیں، مثلاً جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی کتابی شکل میں موجود ہو ۔ غیر متلو جس کی تلاوت نہیں کی جاتی، یعنی کتابی شکل میں یا رب کے الفاظ نہ ہوں، بلکہ مفہوم و معنی اللہ کی طرف سے ہو لیکن الفاظ پیغمبروں کی اپنی زبان سے جاری ہوں جیسے کہ پھر قرآن نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو جو فرعون سے ہوئی تھی وحی الہی کہا ہے، حالانکہ تورات اس کے بعد نازل ہوئی ہے، تو اس کو کیا کہا جائے گا؟ کیا قرآن نے غلط کہا ہے؟ یا یاران فتنہ کے دماغ خراب ہو چکے ہیں؟
شیخ الحدیث ابومحمد حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ رقم طراز ہیں : ایک عام مسلمان بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حضرت نوح، اسماعیل، اسحاق ، یعقوب، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہم السلام کی طرف جو وحی بھیجی گئی اس کا تعلق وحی خفی سے تھا، یعنی وہ وحی متلونہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے جو فکری جنگ لڑی تھی وہ حدیث کے ہتھیار سے لڑی تھی، کیونکہ تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد عطا ہوئی تھی ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تینوں اقسام کی وحی سے امر الہی نازل ہوتا تھا، چونکہ قرآن مجید صرف ایک قسم کی وحی پر مشتمل ہے، لہذا دیگر اقسام وحی سے حدیث وسنت نازل ہوئی اگر احادیث کو ان اقسام وحی میں شمار نہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ دو اقسام پر مشتمل وحی الہی کہاں غائب ہو گئی ان کا غائب ہونا ناممکن ہے الہندا ما ننا پڑے گا کہ وہ بقیہ اقسام حدیث کی صحت میں رسول اللہ پر نازل ہوئیں ۔
حجیت حدیث، ص: 20/19

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن ہی کی تفسیر ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کی حقیقی تفسیر ہے۔ اس تفسیر کی ذمہ داری اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی خود مقرر کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ
(16-النحل:44)
”اس ذکر ( قرآن ) کو ہم نے آپ کی طرف نازل کر دیا ہے، تا کہ آپ اسے لوگوں کے لیے بیان کر دیں۔“
اس آیت مبارکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن کی تفسیر و توضیح بیان کریں، معنی و مفہوم سمجھا ئیں ، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پابند تھے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر و توضیح اور معنی و مفہوم کی حیثیت کیا ہے؟ اور کس کی طرف سے ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ یہ تغیر و توضیح بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، تو جب یہ تفسیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر یہی سب سے اول اور افضل ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام کی شکل معنی و مفہوم اسی مہربان کا ہے، ارشاد ربانی ہے:
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ‎﴿١٨﴾‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ‎﴿١٩﴾‏
(75-القيامة:18، 19)
” جب ہم اس کو پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قرآن کی پیروی کریں، پھر اس کی وضاحت بھی ہمارے ذمہ ہے۔“

چوتھا اعتراض:

منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث روایت بالمعنی ہے اور روایت بالمعنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود کلام تبدیل ہو سکتا ہے۔ لہذا حدیث حجت نہیں ہے۔ ان کے اس شبہ کی بنیاد تین مقدموں پر ہے:
① جو چیز روایت بالمعنی ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔
② حدیث اور سنت سب روایت بالمعنی ہیں ۔
③ روایت بالمعنی میں مقصود تبدیل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

پہلا مقدمه:

ان کے تینوں مقدمات باطل ہیں۔ کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی دلیل نہیں، جس کی رو سے روایت بالمعنی حجت نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کے اکثر انبیا ورسل علیہ السلام عجمی تھے اور ان کی امتیں بھی عجمی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبریں، قصے اور اقوال قرآن میں عربی میں ذکر کیے ہیں۔ جو روایت بالمعنی ہیں۔ اگر ان کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ روایت بالمعنی حجت نہیں تو قرآن کا اکثر حصہ بھی حجت نہیں رہے گا، کیونکہ اکثر و بیشتر قرآن روایت بالمعنی ہے اور ان کے اس مقدمہ کی نہ عقلی دلیل ہے نہ نقلی ، لہذا یہ باطل ہے۔

دوسر ا مقدمه:

یہ بھی باطل ہے، کیونکہ فعلی اور تقریری روایت کے الفاظ سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہوتے۔ لہذا یہ روایات روایت باللفظ ہو ہی نہیں سکتیں۔ باقی قولی روایت میں بھی بہت سی روایات روایت باللفظ ہوتی ہیں۔ جیسے مسنون دعائیں اور ”التحیات“ کے الفاظ اس قسم کی تمام روایات باللفظ ہیں۔ لہذا یہ دعوی باطل ہے کہ تمام کی تمام روایات روایت بالمعنی ہیں ۔

تیسرا مقدمه:

قبول روایت کی شرطوں میں ایک شرط راوی کا ثقہ ہونا ہے، اس کے ساتھ اگر وہ روایت بالمعنی کرے تو اسے مفہوم پر کامل دسترس حاصل ہو، تاکہ مقصود کلام تبدیل نہ ہو سکے، قبول روایت کی ان کڑی شرائط کے ہوتے ہوئے مقصود کلام تبدیل ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ البتہ جو راوی ضعیف ہے یا لغت کا علم نہیں رکھتا اس کی حدیث کو ہم بھی حجت تسلیم نہیں کرتے۔

پانچواں اعتراض :

حدیث ہم تک خبر واحد کے طریق سے پہنچی ہے، لہذا حدیث ظنی ہے اور ظنی چیز حجت نہیں ہوتی کیونکہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے:
وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
(53-النجم:28)
”بلاشبہ حق کے مقابلہ میں ظن کچھ کفایت نہیں کرتا ۔“
منکرین حدیث کے اس شبے کی بنیاد تین مقدموں پر ہے۔
① حدیث اور سنت کا پور اذخیرہ خبر واحد کے ذریعے پہنچا ہے۔
② خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ قطعی اور علم یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔
③ جو چیز ظنی ہو وہ حجت نہیں ہوسکتی۔

پہلا مقدمہ :

تینوں مقدمے اور اس کے شبہے باطل ہیں۔ پہلا مقدمہ اس لیے باطل ہے، کیونکہ بہت سی احادیث تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح نحبة الفكرمیں وضاحت کی ہے کہ حدیث اور سنت میں بہت سی روایات متواتر ہیں۔ جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے متواتر احادیث میں ایک مستقل کتاب الا از هار المتناثره فى الاخبار المتواتر لکھی ہے۔ جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جو علم یقینی کا فائدہ دے خواہ وہ بطریق احاد ہم تک پہنچتی ہو۔ اس قول کے تحت حدیث کا اکثر ذخیرہ متواتر بن جائے گا۔

دوسرامقدمه:

یہ بھی غلط ہے، کیونکہ بہت سی اخبار احاد بھی علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔ اس لیے کہ بسا اوقات ایک شخص ایسے اوصاف سے متصف ہوتا ہے جو بہت سے آدمیوں کی صفات سے فوقیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر جب خبر واحد مختف با القرائن ہو تو وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ اس پر امام شافعی نے استدلال کیا ہے کہ اللہ نے مختلف امتوں کی طرف ایک ایک رسول بھیجا ہے۔ ہر رسول کی خبر ان کے لیے خبر احاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ
(2-البقرة:150)
اور اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبی کے گورنر و عمال مختلف علاقوں کی طرف ایک ایک بھیجے جاتے اور مختلف علاقوں میں پہنچ کر نبی کے اقوال و افعال کا پیغام دیتے تھے اور ان کی بات ان کے لیے حجت ہوتی تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے اکثر اخبار احاد ظنی نہیں بلکہ یقینی ہوتی ہیں۔

تیسرا مقدمه:

تیسرا مقدمہ بھی باطل ہے۔
کیونکہ ظن بسا اوقات حجت ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ
(2-البقرة:46)
”جو لوگ یقین رکھتے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔“
یہاں اللہ نے ظن کو حجت قراردیا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی کی ملاقات کو یقین کہا گیا ہے۔
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ
(2-البقرة:249)
”ان لوگوں نے کہا جو یقین رکھتے تھے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ “
یہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ ظن کو قبول کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے اور یہ بطور حجت ہوتا ہے۔ اور جو وہ آیت پیش کرتے ہیں، وہ دلیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ”حق کے مقابلے میں ظن باطل ہے۔“ ویسے قرآن میں آیا ہے کہ ظن قبول کیا جاتا ہے۔ باقی رہا کہ اصول حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ حدیث ظنی ہے اس سے مراد ظن بمعنی یقین ہوتا ہے۔ حدیث کو کوئی محدث بھی ظنی نہیں کہتا۔ پھر ظن کا تعلق حدیث کے استدلال کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

چھٹا اعتراض :

احادیث بسا اوقات قرآن کے خلاف آجاتی ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف آئے ، وہ حجت نہیں ہوتی۔ اس لیے حدیث حجت نہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
﴿وَيَسْئلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾
جب کہ بخاری کی حدیث میں ہے :
«وكان يأمرني فاتزر فيباشرني وأنا حائض»
صحیح بخاری، کتاب الحیض باب مباشرة الحائض، رقم 299.
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیتے میں ازار باندھ لیتی پھر آپ مجھ سے مباشرت کرتے ۔ “
یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔
جواب :
اگر کسی چیز کے معنی قرآن میں نہیں حدیث میں ہیں تو یہ کوئی مخالفت نہیں، کوئی چیز قرآن میں نہیں، لیکن حدیث میں ہے، جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کو حرام قرارد یا اس طرح پھوپھی بھتیجی، بھانجی، خالہ کو ایک نکاح میں رکھنا نا جائز کہا یہ تو کوئی مخالفت نہیں۔ اگر مخالفت کا مطلب قرآن میں ایک چیز کا اثبات اور حدیث میں اسی چیز کی نفرت ہے۔ یا الٹا۔
تو یہ مخالفت کا معنی بنتا ہے لیکن اس طرح کی قرآن اور حدیث کی مخالفت سرے سے ہے ہی نہیں۔ صحیح حدیث قرآن کے مخالف ہو۔ یہ بات بالکل غلط ہے اور جو مثال پیش کی ہے، یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے ہی نہیں۔ کیونکہ قرآن میں حائضہ عورت کے ساتھ جماع سے روکا گیا ہے اور حدیث میں مباشرت کی اجازت دی جارہی ہے جو کہ جماع کے علاوہ ہے۔
ایک مخالفت یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں حکم عام اور حدیث میں خاص ہو اور قرآن میں مطلق ہو اور حدیث میں مقید لیکن یہ بھی مخالفت نہیں ہے۔ اگر اس کا نام مخالفت رکھ دیا جائے تو قرآن میں بھی مخالفت ہو جائے گی ۔ جسے إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ (2-البقرة:173) کو دوسری آیات دَمًا مَّسْفُوحًا (6-الأنعام:145) کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ
مخالفت نہیں، جس طرح قرآن کی آیات ایک دوسری کو مقید اور خاص کر سکتی ہیں۔ سنت اور حدیث بھی ایک دوسری کو خاص اور مقید کر سکتے ہیں۔ فقہ حنفی کا قاعدہ ہے کہ قرآن میں ایک حکم عام ہے تو حدیث کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا جاسکتا، اور خود ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قرآن کو مقید کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ ذیل آیت کریمہ اس کی دلیل ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
(5-المائدة:38)
” اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ “
حنفی کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔
قرآن مجید اور حدیث شریف میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے، حقیقت میں کچھ تعارض نہیں ہے۔

ساتواں اعتراض:

حدیث اور سنت ایک دوسرے کے خلاف آجاتی ہیں، اور جو چیز ایک دوسرے کے خلاف آجائے وہ حجت کیسے ہو سکتی ہے۔
جواب :
ایسی دو روایتیں جو بظاہر متعارض نظر آتی ہوں یا تو وہ دونوں صحیح ہوں یا دونوں غیر صحیح ہوں یا ایک صحیح اور دوسری غیر صحیح ہو یا دونوں ضعیف یا ایک ضعیف اور ایک صحیح ہے تو تعارض ہے ہی نہیں، کیونکہ ایسی روایتوں میں تعارض کا تصور ہی نہیں ہوتا، لیکن جب دونوں روایتیں صحیح ہوں تو ان میں اگر تطبیق ممکن ہے تو تطبیق ہوگی، یا ان کے تقدیم وتاخیر کی وجہ سے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا جائے گا، یا ترجیحات کی وجوہ کی بنا پر ایک کو دوسری پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر کوئی چیز بظاہر تعارض کی وجہ سے حجت نہیں ہے تو قرآن بھی حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن میں بھی بظاہر تعارض ہے۔ جیسے فرمان الہی ہے:
فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
(32-السجدة:5)
”اُس دن جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال ہوگی۔ “
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ‎
(70-المعارج:4)
”فرشتے اور جبریل اس کے پاس چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ “
کیا قرآن میں بھی تعارض ہے؟ کیونکہ مذکورہ بالا آیات کریمہ میں سے ایک میں ہے کہ اس دن کی مقدار ہزار سال ہے جب کہ دوسری میں پچاس ہزار سال ہے۔
اسی طرح ان آیتوں میں بھی بظاہر تعارض نظر آتا ہے۔ ایک میں ہے کہ زمین پہلے تخلیق کی گئی ، جبکہ دوسری میں ہے آسمان ۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ
(2-البقرة:29)
”وہ ذات جس نے تمھارے لیے زمین میں سب کچھ پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انھیں سات آسمان بنایا ۔ “
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
(79-النازعات:30)
”اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا۔“

آٹھواں اعتراض :

حدیث کے اندر کئی چیزیں ایسی ہیں جو عقل کے خلاف ہیں، جو چیز عقل کے خلاف ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔ یہ بہت پر انا شبہ ہے۔
معتزلہ جھمیہ نے بھی اس بنیاد پر بہت سی احادیث کا انکار کیا۔ سبب یہ کہ جب یونانی فلسفہ عربی میں آیا تو بہت سے علماء اس فلسفے سے متاثر ہو گئے تو انہوں نے عقل کو نقل پر مقدم سمجھ لیا۔ معتزلہ نے اللہ کے متکلم ہونے کا انکار کر دیا۔ حنفیوں نے متاثر ہوکر حدیثوں کا انکار کر دیا مثلاً حدیث مصرات کا انکار وغیرہ۔
جواب :
عقل کی کئی قسمیں ہیں۔ کافروں کی عقل، منافق کی عقل، مسلمانوں اور مومنوں کی عقل ، پھر مومنوں کی بھی کئی قسم کی عقل ہے۔ اس کا تعین کریں کہ کس کی عقل کے خلاف ہے اور جو عقل کا تعین کریں اس کی قرآن سے دلیل بھی دیں۔ اگر وہ کہیں کہ حدیث عقل کل کے خلاف ہے۔ یہ بات نا معقول ہے۔ اگر کہیں کہ کسی خاص عقل کے خلاف ہے تو اس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر کہیں کہ نبی کی عقل کے خلاف ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کہیں کہ بعض کی عقل کے خلاف ہے تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات بھی بہت سے لوگوں کی عقل کے خلاف ہیں تو معاذ اللہ، قرآن حجت نہ رہا؟ جیسے:

إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ
(37-الصافات:64)
”وہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوا ہے۔“
بظاہر یہ بھی عقل کے خلاف ہے۔ اسی طرح قرآن میں ہدہد کی گفتگو کا تذکرہ اسی طرح چیونٹی کی گفتگو کا تذکرہ اسی طرح انبیا علیہ السلام کے سب معجزات عقل کے خلاف ہیں۔
لہذا آپ کے نزدیک اور آپ کے اصول کے مطابق معاذ اللہ قرآن بھی حجت نہ رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ حدیث اور سنت صحیح سند سے ثابت ہو جائے ، وہ عقل کے خلاف ہوہی نہیں سکتی بشر طیکہ عقل صحیح ہو۔ اگر حدیث عقل کے خلاف ہے تو یا وہ عقل بھی صحیح نہیں یا حدیث
ضعیف ہوگی۔
اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب معرفة المعقول الصريح میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔

نواں اعتراض :

حدیث اور سنت تاریخ کے خلاف آجاتی ہے، اس لیے حجت نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا المومنین کا نکاح (6) یا (7) برس کی عمر میں ہوا، جبکہ تاریخ ان کے نکاح کے وقت ان کی عمر (16) یا (17) برس بتاتی ہے۔
جواب :
حدیث اور سنت جب رسول اللہ سے ثابت ہو جاتی ہے تو جیسے قرآن اور عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی تو اسی طرح حدیث تاریخ صحیح کے معارض بھی نہیں آسکتی ۔ اگر ایسا تعارض نظر آئے تو یقینا تاریخی روایت ثابت بھی نہیں ہوں گی۔ کیونکہ ائمہ حدیث کے نزدیک حدیث کی سند اور متن کا جتنا اہتمام ہے، مؤرخین کے نزدیک اس کا عشر عشیر بھی نہیں، ایسی سنت جو تاریخ کے معارض ہے وہ سنت تاریخ پر حاکم ہے نہ کہ تاریخ سنت پر ۔ جبکہ وہ تاریخی روایت جو (16۔17) والی روایت ہے جس کو ترجیح دی جاتی ہے، مردود ہے۔ بلکہ سرے سے ثابت ہی نہیں۔ اس لیے تعارض بنتا ہی نہیں۔ جیسا تعارض سنت اور تاریخ میں ہے، ایسا تعارض تو قرآن اور تاریخ میں بھی ہے۔ اس لیے پھر بھی حجت ہوں گے۔ اس لیے کہ تاریخ میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی والدہ مصر میں ان کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں لیکن قرآن میں ہے۔ ملاقات کے وقت زندہ تھیں۔ اس لیے بھی کہ قرآن کے خلاف ہے تو قرآن بھی پھر حجت نہ رہا۔

دسواں اعتراض :

حدیث کے اندر کئی چیزیں سائنسی تحقیق اور جدید تجربات کے خلاف ہیں، اس لیے حدیث حجت نہیں ہے۔
جواب :
(1) صحیح حدیث صحیح سائنسی تحقیق کے متعارض نہیں ہوسکتی۔
(2) اگر تسلیم کر لیں کہ حدیث تحقیق و تجربات کے خلاف ہو جاتی ہے تو قرآن بھی ان کے خلاف آجاتا ہے۔ اس لیے وہ بھی حجت نہیں۔ مثلاً سائنس دان کہتے ہیں کہ سورج کھڑا ہے، اورزمین ارد گرد گھوم رہی ہے۔ قرآن میں ہے کہ سورج چلتا ہے۔
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى
(13-الرعد:2)
پھر سائنس کہتی ہے۔ سورج غروب نہیں ہوتا ، اور قرآن میں ہے کہ سورج غروب ہوتا ہے۔ پھر جہنم کی آگ کی سختی، جنت میں پھل اور درختوں کا وجود بھی سائنس کے خلاف ہے تو قرآن بھی حجت نہ رہا، پھر سائنس دانوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ پرانے سائنس دانوں کے نظریہ کے مطابق زمین ٹھہری ہے اور نئے کے نزدیک چلتی ہے، اور پرانے کہتے تھے کہ افلاک ایک مادی چیز ہے اور نئے کہتے ہیں کہ یہ مادی چیز نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ سائنس کی رسائی انسانی عقل تک محدود ہے، اور جہاں سے عقل کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے دین کی ابتدا ہوتی ہے۔

گیارہواں اعتراض:

اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور حدیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا ہے۔
اس لیے حدیث حجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(15-الحجر:9)
”بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔“
جواب :
قرآن کی اس آیت سے ان کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے حدیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھایا، قرآن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذکر میں قرآن کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَاسْئلُوا أَهْلَ الذِكرِ إن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اس آیت میں ذکر سے مراد تورات اور انجیل ہیں، تو ثابت ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی ذکر ہے۔
اسی طرح ہے:
قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ‎﴿١٠﴾‏ رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ
(64-الطلاق:10، 11)
”بے شک اللہ نے تمہاری طرف ذکر کو نازل کیا ہے، ایک رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے اللہ کی کھلی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔“
یہاں ذکر سے مرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، خود اللہ نے متعین فرمادیا ہے یعنی رسول اللہ کے اقوال و افعال ذکر ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قرآن وحدیث دونوں ذکر ہیں۔ اللہ نے دونوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا۔ بلکہ اللہ کا پورا دین ذکر ہے اور اللہ نے پورے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے تو ضعیف احادیث کیسے آگئیں؟
ضعیف حدیثوں کا ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے، کیونکہ جس نے بھی حدیث میں دخل اندازی اور جھوٹ شامل کرنے کی ناکام کوشش کی محدثین نے اس کے جھوٹ کی قلعی کھول دی اور ضعیف و وضاع راویوں کو طشت از بام کر دیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء