حج ، عمرہ کی ادائیگی کے لیے مانع حیض ادویات کا استعمال

حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے مانع حیض ادویات استعمال کرنے کا حکم
سوال : کیا عورت کے لیے مانع حیض ادویات کا استعمال جائز ہے تاکہ اس کے لیے سہولت کے ساتھ مناسک حج یا عمرہ ادا کرنا ممکن ہو سکے ؟ جواب : میں تو اس مانع حیض طبی ذریعہ کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا بشرطیکہ جب ڈاکٹر یہ سمجھے کہ ان گولیوں کے استعمال سے عورت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ، نیز ہر چیز میں اصل اس کا مباح اور جائز ہونا ہے اور پھر اس مذکورہ عمل میں کسی حرام اور ممنوع کام کا ارتکاب بھی نہیں ہے ۔ (لہٰذا جائز ہے )
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )
سوال : کچھ گولیاں ایسی ہیں جو عورتوں کی ماہواری کو روک دیتی ہیں یا اس کے وقت سے اس کو موخر کر دیتی ہیں ، کیا صرف حج کے دوران ان گولیوں کا استعمال جائز ہے ، اس ڈر سے کہ کہیں ماہواری نہ شروع ہو جائے ؟
جواب : عورت کے لیے دوران ج ماہواری کے آنے کے ڈر سے مانع حیض گولیاں استعمال کرناجائز ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے ایک
اسپیشلسٹ ڈاکٹر مشورہ دے کہ اس سے عورت کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اسی طرح ر مضان میں جب عورت لوگوں کے ساتھ روزے رکھنا پسند کرے تو وہ مانع حیض گولیاں استعمال کر سکتی ہے ۔ ( سعودی فتوی کمیٹی)

ایام عادت کے بعد عورت کو آنے والے خون وغیرہ کا حکم
سوال : میں دیکھتی ہوں کہ ماہواری سے غسل اور ایام عادت پانچ دن حیض کے گزارنے کے بعد بعض اوقات بہت تھوڑی مقدار میں مجھے خون آجاتا ہے اور یہ غسل کے متصل بعد آتا ہے ، پھر اس کے بعد کچھ نہیں آتا ، میں نہیں جانتی کہ میں اپنی عادت کے پانچ ایام کو حیض شمار کروں اور جو خون اس کے بعد آیا ہے اس کو کچھ نہ شمار کرتے ہوئے نماز ادا کروں اور روزے رکھوں جس کے کرنے میں مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ، یا اس دن کی ، جس میں مجھے تھوڑی مقدار میں خون آیا ، ایام عادت میں شمار کر کے نہ نماز ادا کروں اور نہ ہی روزہ رکھوں ، واضح ہو کہ مجھے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے ، بلکہ دو یا تین حیض گزارنے کے بعد ایسا ہوتا ہے ، امید ہے کہ آپ جواب سے نوازیں گے ؟
جواب : غسل طہارت کے بعد نازل ہونے والی چیز اگر زردی مائل یا مٹیالے رنگ کی ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا بلکہ اس کا حکم پیشاب کا حکم ہے ۔
اور اگر وہ واضح خون ہو تو وہ حیض شمار ہو گا اور تم پر غسل طہارت دوبارہ کرنا لازم ہوگا ، کیونکہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا ، جو نبی اس کی صحابیات میں سے ہیں ، نے فرمایا :
كنا لانعد الصفرة والكدرة بعد الطهر شيئا [صحيح ۔ سنن النسائي ، رقم الحديث 368 ]
”ہم حیض سے پاک ہونے کے بعد زردی مائل اور مٹیالے رنگ کی خارج ہونے والی چیز کا کوئی بیان نہیں کرتی تھیں ۔“
(عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

حائضہ کا مسجد میں داخل ہونے کا حکم
سوال : کیا حائضہ کے لیے مسجد میں داخل ہوناجائز ہے ؟
جواب : حائضہ کے لیے مسجد میں داخل ہونا سلبی اور ایجابی دو دلیلوں کے ساتھ جائز ہے ۔
۱ ۔ سلبی دلیل : یہ ہے کہ عورت کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے والی کوئی دلیل نہیں ہے ، اور یہ ایک اصولی قاعدہ سے ثابت ہے اور وہ قاعدہ یہ ہے :
إن الأصل فى الأشياء الإباحة
”بلاشبہ چیزوں میں اصل اباحت ہے ۔“
اور کسی چیز سے روکنے کے لیے خاص دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور مطلق طور پر کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جس میں حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا گیا ہو ۔
2 ۔ ایجابی دلیل : عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جو ”صحیح بخاری“ میں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب وہ حجتہ الوداع کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قریب سرف نامی جگہ پر پڑاو ڈالے ہوئے تھے ، حائضہ ہو گئیں ، پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو دیکھا کہ یہ رو رہی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت کیا ؟ مالك ؟ أنفست ؟ تجھے کیا ہے ؟ ( کیوں رو رہی ہو ؟) کیا تجھے حیض آگیا ہے ؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هذا أمر كتبه الله على بنات آدم ، فاصنعي ما يصنع الحاج ، غير ألا تطوفي ولا تصلي [ صحيح البخاري ، رقم الحديث 299 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1211 ]
یہ (حیض) ایسا امر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے ، لہٰذا تو وہ سب کچھ کر جو حاجی کرتا ہے ، صرف طواف نہ کر اور نماز نہ پڑھ“
تو یہ نص ہے اس مسئلہ کی کہ حائضہ عورت کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز ہے ، بلکہ مسجد حرام میں بھی ، یہ اس طرح کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے مباح قرار دیا کہ وہ سب کچھ کرے جو حاجی کرتا ہے ، یعنی مسجد میں داخل ہونا ، طواف کرنا اور نماز ادا کرنا ، حاجی یہ سب کچھ کرتا ہے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی کے تمام اعمال سے ان کے لیے یہ مستثنی کیا کہ وہ طواف نہیں کرے گی ۔ اور نماز ادا نہیں کرے گی ۔
پس تب تو حائضہ مسجد میں داخل ہوگی اور قرآن مجید کی تلاوت کرے گی اور جو شخص اس کے خلاف دعوی کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ عورت کے دخول مسجد کے حرام ہونے کی دلیل پیش کرے ، اور نیز یہ بھی ثابت کرے کہ یہ حرمت اس حلت کے بعد کی ہے ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

حائضہ کا دعائیں پڑھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا
سوال : کیا عائشہ کے لیے عرفہ کے دن دعاؤں والی کتابیں پڑھنا جائز ہے ، جبکہ ان کتابوں میں قرآنی آیات بھی ہوتی ہیں ؟
جواب : حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے مناسک حج میں فرض دعاؤں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور صحیح قول کے مطابق ان کے قرآن کی تلاوت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ کوئی صحیح اور صریح نص ثابت نہیں ہے جو حائضہ اور نفاس والی کو تلاوت قرآن سے منع کرتی ہو ، البتہ جنبی کے لیے خاص نص موجود ہے کہ وہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید نہ پڑھے ، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ جان سے (اس کے منع کی ) حدیث مروی ہے ۔
رہا حائضہ اور نفاس والی عورت کے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہا سے اس حدیث کا مروی ہونا :
لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن [ضعيف ۔ سنن الترمذي ، رقم الحديث ر 131 ]
”حائضہ اور جنبی بالکل قرآن نہ پڑھے۔“
تو یہ روایت ضعیف ہے ، اس لیے کہ یہ حدیث اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے مروی روایت ہے ، اور وہ اہل حجاز سے روایت بیان کرنے میں ضعیف ہے ۔ لیکن حائضہ اور نفاس والی مصحف کو چھوئے بغیر زبانی قرآن مجید کی تلاوت کریں گی ، رہا جنبی تو اس کے لیے غسل کیے بغیر نہ زبانی تلاوت قرآن جائز ہے اور نہ مصحف سے دیکھ کر ۔ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی میں فرق یہ ہے کہ بلاشبہ جنبی کے لیے جنابت کا وقت تھوڑا سا ہے ، اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے مجامعت کے بعد فورا غسل کرے ، سو مدت جنابت کوئی بھی مدت نہیں ہے ، اور معاملہ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے ، جب چاہے غسل کر لے (اور پاک ہو جائے) ۔ اور اگر وہ پانی کے استعمال سے عاجز بھی آجائے تو تیمم کر کے نماز ادا کر لے اور قرآن مجید کی تلاوت کر لے ، لیکن حیض اور نفاس حائضہ اور نفاس والی کے بس میں نہیں ہے ، بلکہ وہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے ۔ حیض کئی دنوں تک رہنے کا محتاج ہے اور ایسے ہی نفاس بھی ، اس لیے ان کے لیے تلاوت قرآن کو مباح کر دیا گیا تاکہ وہ اس کو بھول نہ جائیں ، اور تاکہ وہ تلاوت قرآن کی فضیلت اور کتاب اللہ سے احکام شرعیہ کی تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔ تو حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے ایسی کتابوں کا پڑھنا بالاولی جائز ہے جن میں ایسی دعائیں ہیں جو آیات و احادیث وغیرہ پر مشتمل ہیں ، یہی درست بات ہے اور اس مسئلہ میں علماء رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح قول یہی ہے ۔
( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )
روزہ رکھنے کے لیے مانع حیض گولیاں استعمال کرنے کا حکم
سوال : لوگوں کے ساتھ مل کر روزے رکھنے کی غرض سے ماہواری کو روکنے والی گولیاں استعمال کرنے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب : میں تمہیں ان گولیوں کے استعمال سے خبردار کرتا ہوں ، کیونکہ ان گولیوں کے استعمال میں بہت بڑانقصان ہے ۔ بعض اطباء کے ذریہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے ، لہٰذا عورت کو کہا جائے گا : یہ حیض ایک ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے ، پس تواللہ عزوجل کے لکھے ہوئے پر قناعت کر ۔ اور جب کوئی مانع اور رکاوٹ نہ ہو تو روزے رکھ ، اور جب کوئی مانع پایا جائے تواللہ عزوجل کی تقدیر پر راضی رہتے ہوئے روزہ چھوڑ دے ۔
(محمد بن صالح العثیمین رحمه اللہ )

سوال : مانع حیض گولیوں کے استعمال کاکیا حکم ہے ؟
جواب : عورت کے لیے مانع حیض گولیاں استعمال کرنے میں جب وہ اس کی صحت میں بگاڑ پیدا نہ کریں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس کا خاوند ایسا کرنے کی اجازت دے ۔
لیکن جہاں تک مجھے علم ہے بلاشبہ یہ گولیاں عورت کے لیے نقصان دہ ہیں اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ بلاشبہ خون حیض کا خروج طبعی اور فطری خروج ہے، اور طبعی چیز کو جب اس کے وقت مقرر سے روکا جائے تو اس کے روکنے سے لازمی طور پر جسم کو نقصان ہوتا ہے ۔
اسی طرح ان گولیوں کے استعال سے اس لیے بھی پرہیز کرنا چاہیے کہ یہ عورت کی ماہواری کو خلط ملط کر دیتی ہیں اور اس کی عادت شہریہ میں تغیر و بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عورت اپنی نماز ، خاوند سے مباشرت کرنے اور دیگر چیزوں کے متعلق اضطراب و شک میں مبتلا رہتی ہے ، لہٰذا میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ حرام ہیں لیکن عورت کے لیے ضرر رساں ہونے کی وجہ سے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ ان کو استعمال کرے
اور میں کہتا ہوں کہ عورت کے لائق یہی ہے کہ وہ اس پر راضی رہے جواللہ نے اس کے مقدر میں کیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ام المؤمنین – عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں ، جبکہ انہوں نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
مالك ؟ أنفست ؟ قالت : نعم ، قال : هذا شيء كتبه الله على بنات آدم [ صحيح البخاري ، رقم الحديث 226 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1333 ]
”تمہیں کیا ہے ؟ شاید تمھیں حیض آگیا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، آپ نے فرمایا : یہ ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر مقدر کر دیا ہے ۔ “
پس عورت کے لائق یہ ہے کہ وہ صبر کرے اور ثواب کی نیت رکھے ، اور جب اس پر حیض کی وجہ سے نماز و روزہ مشکل ہو تو ذکر کا دروازہ تو کھلا ہے ، وللہ الحمد ، وہ اللہ کا ذکر کرے ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تسبیح بیان کرے ، صدقہ کرے اور اپنے قول وفعل کے ساتھ لوگوں سے حسن سلوک کرے ، بلاشبہ یہ افضل اعمال میں سے ہے ۔ (محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ )

اس تحریر کو اب تک 9 بار پڑھا جا چکا ہے۔