کیا بلا خوف و خطر نمازیں جمع کرنا درست ہے؟

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ قِيلَ لِا بْنِ عَبَّاسٍ: مَا أرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُخْرِجَ أُمَّتَهُ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے ظہر عصر اور مغرب ، عشاء کو جمع کر کے پڑھا ۔“ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے ارادہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ امت کو کسی تنگی یا مشکل میں مبتلا نہ کریں ۔“
تحقیق و تخریج:

مسلم: 705 ۔
وَفِي رِوَايَةٍ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ الله الله الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ وَلَا مطر
ایک روایت میں ہے ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر اور عصر اور مغرب عشاء جمع کر کے پڑھائیں جبکہ نہ کوئی دشمن کا خوف تھا، نہ سفر تھا اور نہ بارش تھی ۔“
تحقیق و تخریج:

مسلم: 705۔
فوائد:

➊ بلا خوف و خطر نمازیں جمع کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
➋ شارع علیہ السلام نے اپنی امت کا ہر قدم پر خیال رکھا ہے امت کے لیے نمازیں تقدیم و تاخیر یا بلاخوف و عذر کے جمع کر کے پڑھنے میں آسانی ہے یعنی اسلام قلت حرج کا حامل دین ہے ۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہ بھی خاصہ تھا کہ وہ انسانوں کی خوشی وغمی، آسانی اور تکلیف کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے تھے اور یہ اللہ کی طرف سے تھا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مراد تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی امت حرج محسوس نہ کرے ۔
➍ حالات دگرگوں ہوں ، بارش ، طوفان ، آندھی ، اندھیرا، کیچڑ وغیرہ ہو تو اس صورت میں نمازیں اکٹھی پڑھی جا سکتی ہے البتہ مذکورہ صورتوں کے علاوہ کبھی کبھار امن میں بھی نمازیں جمع کرناجائز ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل