سوال : کیا شوال کے چاند کی رویت ہو جانے کے بعد صلاۃ عید کو اس مقصد سے دوسرے دن کے لئے مؤخر کرنا جائز ہے کہ تمام مسلمان مزدور جو فیکٹریوں اور آفسوں میں کام کرتے ہیں وہ ذمہ داران سے عید کے دن کی چھٹی حاصل کر سکیں اور چونکہ ان کے یہاں پہلے سے عید کا دن معلوم نہیں ہے اس لئے ذمہ داران کو چھٹی کے خاص دن کے بارے میں خبر دینا ان کے لئے دشوار ترین امر ہے ؟
جواب : صلاۃ عیدین فرض کفایہ ہے۔ جب اس کو کافی تعداد میں لوگ ادا کر لیں تو باقی لوگوں سے گناہ ساقط ہو جائے گا۔ اور چونکہ عرب ممالک میں عموماً اور سعودی عرب میں خصوصاً چاند کی رویت ہونے کی بنا پر اسلامی مراکز صلاۃ عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ صلاۃ ان لوگوں سے فرض کفایہ کو ساقط کرے گی جو صلاۃ عید میں حاضر نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس کو شوال کی دوسری یا تیسری تاریخ تک اس مقصد سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے کہ اس میں تمام مسلمان مثلاً لندن میں شریک ہوں۔ کیوں کہ یہ تاخیر صحابۂ کرام اور ان کے بعد تابعین کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ ہم کسی عالم کو نہیں جانتے جو اس کا قائل ہو۔ ہاں اس کو دوسرے دن کے لئے مؤخر کرنا اس وقت جائز ہے جب کہ عید کا علم زوالِ آفتاب کے بعد ہو۔ اور توفیق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
وصلي الله على نبينامحمد و آله وصحبه وسلم .
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
جواب : صلاۃ عیدین فرض کفایہ ہے۔ جب اس کو کافی تعداد میں لوگ ادا کر لیں تو باقی لوگوں سے گناہ ساقط ہو جائے گا۔ اور چونکہ عرب ممالک میں عموماً اور سعودی عرب میں خصوصاً چاند کی رویت ہونے کی بنا پر اسلامی مراکز صلاۃ عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ صلاۃ ان لوگوں سے فرض کفایہ کو ساقط کرے گی جو صلاۃ عید میں حاضر نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس کو شوال کی دوسری یا تیسری تاریخ تک اس مقصد سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے کہ اس میں تمام مسلمان مثلاً لندن میں شریک ہوں۔ کیوں کہ یہ تاخیر صحابۂ کرام اور ان کے بعد تابعین کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ ہم کسی عالم کو نہیں جانتے جو اس کا قائل ہو۔ ہاں اس کو دوسرے دن کے لئے مؤخر کرنا اس وقت جائز ہے جب کہ عید کا علم زوالِ آفتاب کے بعد ہو۔ اور توفیق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
وصلي الله على نبينامحمد و آله وصحبه وسلم .
’’ اللجنۃ الدائمۃ “