فوت ہونے والے کے روزے کون رکھے؟

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ } وَأَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُد وَقَالَ ” هَذَا فِي النَّذْرِ ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ ” .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔
اسے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ نے بھی بیان کیا ہے اورانہوں نے کہا: یہ (حکم) نذر (کے روزوں کے بارے) میں ہے اور یہی احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کا قول ہے۔
(191) صحيح البخارى ، كتاب الصوم ، باب من مات وعليه صوم ، ح: 1952 – صحیح مسلم ، کتاب الصيام ، باب قضاء الصيام عن الميت ، ح: 1146 ۔
شرح المفردات:
وليه: ولی سے مراد عورت کے نسبی قرابت دار ہوتے ہیں، مثلاًً: باپ ، دادا ، بھائی ، بیٹا اور چچا وغیرہ۔
شرح الحدیث:
مذکورہ حدیث کے الفاظ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ خبر بمعنی امر ہے، اصل عبارت فَلْيَصُمْ عَنْهُ وَلِيُّهُ ہے یعنی اس کی طرف سے اس کے ولی کو روزے رکھنے چاہئیں۔ [فتح الباري لابن حجر: 193/4]
یہاں بھی عورت کا وہی ولی مراد ہے جو نکاح میں ہوتا ہے اوربترتیبِ متذکرہ بالا ایک کے عدم کی صورت میں اس کی جگہ دوسرا عورت کا ولی ہو گا اور وہ اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔ گویا یہ قرض ہی کی طرح کا حساس معاملہ ہے کہ ایک کے ادانہ کر سکنے کی صورت میں دوسرے پر اس کی ذمہ داری عائد ہو گی۔
——————

الْحَدِيثُ الثَّامِنُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { جَاءَ رَجُلٌ إلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ . أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ فَقَالَ: لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ . قَالَ: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى . }
وَفِي رِوَايَةٍ { جَاءَتْ امْرَأَةٌ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ . أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ فَقَضَيْتِيهِ ، أَكَانَ ذَلِكَ يُؤَدِّي عَنْهَا؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ . قَالَ: [ص: 409] فَصُومِي عَنْ أُمِّكِ } .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذِمے ایک ماہ کے روزے تھے، تو کیا میں اس کی طرف سے قضائی دُوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرتیری ماں پر قرض ہوتا توکیا تواس کی طرف سے ادا کرتا؟ اس نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے اداکیا جائے۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اوراس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں فوت ہوگئی ہے اوراس کے ذِمے نذر کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا خیال ہے کہ اگرتیری ماں پر قرض ہوتا جسے تو نے چکانا ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سے وہ ادا کرتی؟ اس نے کہا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: پھراپنی ماں کی طرف سے روزے بھی رکھ ۔
(192) صحيح البخاري ، كتاب الصوم ، باب من مات وعليه صوم ، ح: 1953 – صحیح مسلم ، کتاب الصيام ، باب قضاء الصيام عن الميت ، ح 275٠ – 2752 ۔
شرح المفردات:
دين: قرض
أَحَقُّ: دوسرے کی نسبت زیادہ حق دار / واحد مذکر ، اسم تفضيل ، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ ۔
شرح الحدیث:
عورت کے سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ بیان سے شرعی احکام میں قیاس کے جوازکا ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کے روزوں کو قرض پر قیاس کرتے ہوئے اس عورت کو ان کی قضاء کا حکم فرمایا۔ [كشف اللثام للسفاريني: 569/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: