سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے؟

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

بَابُ الصَّوْمِ فِى السَّفَرِ وَغَيْره
سفر میں روزہ رکھنے کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ قَالَ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: أَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ – وَكَانَ كَثِيرَ الصِّيَامِ – فَقَالَ: إنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حمزہ بن عمر واسلمی رضی اللہ عنہ کثرت سے روزے رکھنے والے شخص تھے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا میں سفر میں روزہ رکھ لیا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو روزہ رکھ لیا کر اور اگر چاہے تو چھوڑ دیا کر ۔“
صحيح البخاري ، كتاب الصوم، باب الصوم فى السفر والافطار ، ح: 1943 . صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب التخيير فى الصوم والفطر فى السفر. . . ، ح: 1121
شرح المفردات:
كثير الصيام: یعنی رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی اکثر روزے رکھا کرتے تھے ۔
افطر: چھوڑنے سے مراد ہے کہ روزہ نہ رکھ ۔ / واحد مذکر حاضر فعل امر معلوم ، باب افعال۔
شرح الحدیث:
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مذکور ہے:
هِيَ رُحْصَةٌ مِنَ اللَّهِ ، فَمَنْ أَخَذَ بِهَا ، فَحَسُنَ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَصُوْمَ ، فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ .
”یہ اللہ کی طرف سے ایک رخصت ہے، سو جو شخص اسے قبول کرنا چاہے تو یہ اچھی بات ہے، اور جو کوئی روزہ رکھنا پسند کرے تو اس پر گناہ نہیں ہے ۔“ [صحيح مسلم: 1121]
راوى الحديث:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعارف حدیث نمبر 9 کے تحت گزر چکا ہے۔ اور حدیث میں مذکور دوسرا نام حمزہ بن عمرو اسلمی کا ہے۔ آپ کی کنیت ابو صالح تھی اور مدینہ کے رہائشی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نو احادیث روایت کیں اور 61 ہجری میں وفات پائی۔

——————
الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ. وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ .
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے تو نہ کوئی روزے دار کسی روزہ نہ رکھنے والے پر عیب لگاتا اور نہ کوئی روزہ نہ رکھنے والا کسی روزے دار پر عیب لگاتا ۔
صحيح البخارى ، كتاب الصوم ، باب من لم يعب أصحاب النبى الله بعضهم بعضاً فى الصوم والافطار ، ح: 1947 – صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب جواز الصوم والفطر فى شهر ر مضان للمسافر ، ح: 1118
شرح المفردات:
لم يَعِبُ: برا اور معیو ب نہ سمجھتا ۔ / واحد مذکر غائب ، فعل منفی جحد معلوم ، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ
شرح الحدیث:
سفر میں چونکہ روزے کے بارے میں رخصت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کوئی بھی شخص سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کو معیوب تصور نہیں کرتا تھا ۔ یعنی کوئی کسی کو تارکِ سنت یا مختلفِ سنت نہیں سمجھتا تھا ۔ اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رَد ہے جو سفر میں روزہ رکھنے کو باطل خیال کرتے ہیں ، کیونکہ مذکورہ حدیث میں انس رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے کہ کوئی روزے دار کسی بے روزہ دار پر اور نہ ہی کوئی بے روزہ دار کسی روزے دار پر عیب لگاتا تھا ، ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بھی علم تھا ، لیکن اس کے باوجود ان کا روزہ رکھنا سفر میں روزہ باطل ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ [كشف اللثام للسفاريني: 537/3]

——————
الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي شَهْرِ رَمَضَانَ. فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، حَتَّى إنْ كَانَ أَحَدُنَا لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ. وَمَا فِينَا صَائِمٌ إلَّا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ .
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ماہِ ر مضان میں سخت گرمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پہ ) روانہ ہوئے گرمی اس قدر شدید تھی کہ آدمی اس سے بچنے کے لیے اپنے سر پہ ہاتھ رکھ لیتا تھا اور ہم میں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے کوئی روزے دار نہیں تھا ۔
صحيح البخاري ، كتاب الصوم ، باب اذا صام أيام من ر مضان ثم سافر ، ح: 1945 ـ صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب جواز الصوم والفطر فى شهر ر مضان للمسافر ، ح: 1122
شرح المفردات:
شدة الحر: گرمی کی شدت بختی ، تپش ۔
شرح الحديث: اس حدیث کی دلالت بھی ظاہر ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی بھی رخصت ہے اور روزہ رکھنے پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور باقی صحابہ نے نہیں رکھا ہوا تھا ۔ لیکن یہ بھی اس صورت میں ہے کہ جب آدمی برداشت کر سکتا ہو ، خواہ اس میں مشقت ہی ہو ، لیکن اگر برداشت نہ کر سکتا ہو تو پھر درست نہیں ، جیسا کہ اگلی حدیث میں ایسی ہی نوعیت کی وضاحت ہوئی ہے ۔
راوی الحدیث:
ابوالدرداء آپ کی کنیت اور عویمر نام تھا ۔ انصاری صحابی تھے ۔ بدر کے روز اسلام قبول کیا اور اپنے اہل خانہ میں سب سے آخر میں اسلام قبول کرنے والے آپ ہی تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور سلمان رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخاۃ قائم فرمائی ۔ فقیہہ ، حکیم اور جامع قرآن تھے ۔ خلافت عثمانیہ میں دمشق کے عہدہ قضاء پر مامور رہے ۔ ایک سو احادیث کے راوی ہیں ۔ 31 ہجری میں شام میں وفات پائی اور دمشق آپ کا مدفن ہے ۔

——————
الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي سَفَرٍ. فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: صَائِمٌ. قَالَ: لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ .
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہجوم دیکھا ۔ ایک آدمی اس حالت میں تھا کہ اس پر سایہ کیا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟ “ لوگوں نے کہا: روزے دار ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں کا کام نہیں ہے ۔“ مسلم کے الفاظ میں ہے: ”اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں رخصت دی ہے ، اسے قبول کرنا تم پر لازم ہے ۔“
صحيح البخاري ، كتاب الصوم ، باب قول النبى لمن ظلل عليه ، ح: 1946- صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب جواز الصوم والفطر فى شهر ر مضان للمسافر ، ح: 1115
شرح المفردات:
زحام: ہجوم، بھیٹر ، رش ۔
قَدْ ظُلِّلَ: یعنی لوگ اس پر سایہ کیسے کھڑے تھے ۔ / واحد مذکر غائب فعل ماضی مجہول ، باب تفعیل ۔
شرح الحديث: اسلام نے اپنے مانے والوں کے لیے جمیع فرائض و واجبات کی ادائیگی کے لیے طرح طرح کی رخصتیں مہیا فرمائی ہیں کیونکہ اسلام آسانیوں کا دین ہے اور کسی کو اس کی طاقت اور حیثیت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنا چاہیے ، کیونکہ اپنی جان کو خوامخواہ مشقت میں ڈالنا بفرمانِ نبوی کوئی نیکی نہیں ہے ۔ البتہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں روزہ رکھنے کو نیکی شمار نہ کرنے کا فرمان ایسے شخص کے بارے میں ہے جو روزے کی طاقت نہ رکھنے کے باوجود اللہ کی دی ہوئی رخصت پر عمل نہیں کرتا اور اپنی جان کو مشقت میں ڈال کر روزہ رکھ لیتا ہے ۔
الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ فَمِنَّا الصَّائِمُ ، وَمِنَّا الْمُفْطِرُ قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فِي يَوْمٍ حَارٍّ ، وَأَكْثَرُنَا ظِلًّا: صَاحِبُ الْكِسَاءِ . وَمِنَّا مَنْ يَتَّقِي الشَّمْسَ بِيَدِهِ . قَالَ: فَسَقَطَ الصُّوَّامُ ، وَقَامَ الْمُفْطِرُونَ فَضَرَبُوا الْأَبْنِيَةَ . وَسَقَوْا الرِّكَابَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ . }
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم میں سے کچھ لوگ روزے دار تھے اور کچھ لوگ بے روزہ تھے، ہم نے سخت گرمی کے وقت ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ہم میں سے سب سے زیادہ سائے والا وہ شخص تھا جس کے پاس چادر تھی اور بہت سے ایسے تھے جو اپنے ہاتھ سے (سایہ کر کے ) سورج سے بچ رہے تھے، راوی کہتے ہیں: روزے دار (پڑاؤ کرتے ہی ) گر پڑے اور جنھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا، وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے خیمے لگائے اور سواری کے جانوروں کو پانی پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والے اجر میں بڑھ گئے۔
(189) صحیح البخاری ، کتاب الجهاد، باب فضل الخدمة في الغزو، ح: 2890 – صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، باب أجر المفطر في السفر ، ح: 1119 ۔
شرح المفردات:
الكساء: اوڑھنے کی چادر۔
الأبنية: خیمے، عارضی رہائش گاہیں۔
الرّكَابُ: سواری کے جانور، مراد اُونٹ
شرح الحديث:
امام قرطبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس وقت کی ضرورت کے پیشِ نظر جو لوگ زیادہ کارآمد ثابت ہو سکے، وہی اجر و ثواب میں بھی سبقت لے گئے ۔ [المفهم للقرطبي: 182/3]
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: