حضور کے سال پیدائش میں روئے زمین پر کسی لڑکی کا پیدا نہ ہونا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ
دادا ( عبدالمطلب ) کا اپنے پوتے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے اضطراب حضور کی گمشدگی کا واقعہ
کندیر بن سعید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں میں نے دور جاہلیت میں حج کیا اس دوران میں نے دیکھا ایک آدمی بیت الله کا طواف کر رہا ہے اور وہ دعا کر رہا تھا۔
رب رد الى راكبي محمد . . . . رده الى واصطنع عندي يدا
”میرے اللہ ! میری سواری کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت لوٹا۔“
”محمد کو مجھ سے ملا، اپنی جناب سے احسان فرما۔“
کہتے ہیں میں نے پوچھا : کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے کہا : عبدالمطلب بن هاشم ہے، ان کا اونٹ کہیں چلا گیا ہے، انہوں نے اپنے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تلاش کے لئے بھیجا ہے، راوی کہتا ہے عبد المطلب اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ سمیت آ گئے، تو عبدالمطلب کہنے لگے، میرے بیٹا جس قدر میں تیرے لیٹ ہونے پر پریشان ہوا ہوں آج تک مجھے اتنی پریشانی کبھی نہیں ہوئی اور اللہ کی قسم ! آج کے بعد میں تم کو کسی کام کے لئے نہیں بھیجوں گا : بیٹا تو کبھی بھی مجھ سے جدا ہوا کر۔
تحقیق الحدیث :
[اسناده ضعيف۔ مستدرك للحاكم 603/2،604 رقم 4184]
اس میں عباس بن عبد الرحمن راوی مجھول ہے۔
اگرچہ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
اس طرح اس واقعہ کو سیرت کے سچے موتی میں نقل کیا گیا ہے۔ اس کی سند کو حسن لذاتہ کہا ہے جبکہ یہ ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر نے تقریب [374/1] میں اس کو مستور کہا ہے۔ [تهذيب الكمال 3127 222/14 و تهذيب التهذيب 121/5 ]
——————

شام کے محلات کا نظر آنا
روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ شفا رضی اللہ عنہا بنت اوس ولادت کے وقت آمنہ کے پاس موجو تھیں، وہ کہتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے، تو پہلے غیب سے ایک آواز آئی اور مشرق و مغرب کی ساری زمین میرے سامنے روشن ہو گئی۔ یہاں تک کہ شام کے محل مجھ کو نظر آنے لگے۔ میں نے آپ کو کپڑا پہنا کر لٹایا ہی تھا کہ اندھیرا چھا گیا۔ اور میں ڈر کر کانپنے لگی۔ پھر داہنی طرف سے پھر روشنی نکلی تو آواز سننے میں آئی کہ کہاں لے گئے تھے۔ جواب ملا کہ مغرب کی سمت ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ پھر وہی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں ڈر کر کانپی۔ پھر آواز آئی کہ کہاں لے گئے تھے جواب ملا کہ مشرق کی سمت۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
یہ حکایت ابونعیم میں ہے۔ اس کا بیچ کا راوی احمد بن محمد بن عبد العزيز الزہری نامعتبر ہے۔ اور اس کے بقیہ روایت مجہول الحال ہیں۔ [سيرت النبى ص 243 ج 3، دلائل النبوة اردو ص 139 ]
——————

گلے میں تعویز ڈالنے کا قصہ
روایت ہے کہ آمنہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے، اے آمنہ ! تیرا بچہ تمام جہاں کا سردار ہو گا۔ جب بچہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنا۔ اور تعویذ گلے میں ڈال دینا۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو سونے کے ایک پتر پر کچھ اشعار لکھے ملے۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں :
یہ قصہ ابونعیم میں ہے۔
اس کا راوی ابو غزیہ محمد بن موسیٰ الانصاری ہے۔ جس کی روایتوں کو امام بخاری منکر کہتے ہیں۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ :
یہ دوسروں کی حدیثیں چرایا کرتا تھا۔ اور روایات وضع کر کے ثقہ راویوں کی جانب منسوب کرتا۔
متاخرین میں حافظ عراقی نے اس روایت کو : بے اصل اور شامی نے انتہائی ضعیف کہا ہے۔
ابن اسحاق نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ لیکن کوئی سند بیان نہیں کی۔
ابن سعد میں یہ روایت واقدی کے حوالہ سے مذکور ہے۔ جس کی دروغ گوئی محتاج بیان نہیں۔
——————

زمین پر ستاروں کا جھک آنا
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص صحابی کی والدہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب آ منہ کو دردزہ پیدا ہوا تو معلوم ہوتا تھا کہ تمام ستارے زمین پر جھکے آتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں ڈری کہ کہیں زمین پر نہ گر پڑیں۔ اور جب آپ پیدا ہوئے تو جدھر نظر جاتی تھی۔ تمام گھر روشنی سے معمور
تھا۔
تحقیق الحدیث :
یہ قصہ ابو نعیم، طبرانی اور بیہقی میں مذکور ہے۔
اس کی روایت میں یعقوب بن محمد زہری پائہ اعتبار سے ساقط ہے،
اور عبدالعزيز بن عمر بن عبد الرحمان بن عوف ایک داستان گو اور چھوٹا انسان تھا۔
——————

حالت حمل میں حمل کا محسوس نہ ہونا
آمنہ کہتی ہیں کہ مجھے ایام حمل کی کوئی علامت پیدا نہیں ہوئی۔ اور عورتوں کو ان ایام میں جو گرانی اور تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہوئی۔ بجز اس کے کہ معمول میں کچھ فرق آ گیا تھا۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ :
قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں اس قصہ کو محمد بن اسحاق اور ابو نعیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔
لیکن ابن اسحاق کی کتاب جو آج کل ابن ہشام کے نام سے مشہور اور چھپی ہوئی ہے۔
اور نیز دلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں اس قسم کا کوئی واقعہ مذکور نہیں۔
قسطلانی کی پیروی میں دوسرے بے احتیاط متاخرین مثلا سیرت حلبیہ اور مصنف خمیس نے بھی ابن اسحاق اور ابونعیم ہی کی طرف اس کی نسبت کی ہے۔
لیکن ابن سيد الناس نے عیون الاثر میں بجا طور پر اس روایت کے لیے واقدی کا حوالہ دیا ہے۔ دراصل یہ قصہ ابن سعد نے نقل کیا ہے۔ اور اس روایت کے دو سلسلے لکھے ہیں۔ مگر ان میں سے ہر ایک کا سر سلسلہ واقدی ہے۔ اور اس کی نسبت محدثین کی رائے
پوشیدہ نہیں۔
علاوہ ازیں ان میں سے کوئی سلسلہ بھی مرفوع نہیں۔ پہلا سلسلہ عبد اللہ بن وہب پر ختم ہوتا ہے۔ جو اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں ہم سنا کرتے تھے۔ دوسرے سلسلے کو واقدی زہری پر جا کر ختم کر دیتا ہے۔
——————

کیا آمنہ کے کئی بچے ہوئے؟
ایک روایت اس کے بالکل برعکس ہے جو ابن سعد میں ہے کہ آمنہ کہا کرتی تھیں کہ میرے پیٹ میں کئی بچے رہے۔ لیکن اس بچے سے زیادہ بھاری اور گراں مجھے کوئی محسوس نہیں ہوا۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں :
اول تو یہ روایت معروف اور مسلم واقعہ کے خلاف ہے، آمنہ کے ایک کے سوا اور کوئی بچہ نہیں ہوا اور نہ حمل رہا
دوسرے یہ کہ اس روایت کا سلسلہ ناتمام ہے۔ اسی معنی کی ایک اور روایت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ صحابی کی زبانی منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا۔ میں اپنے والدین کا پہلوٹا ہوں، جب میں شکم مادر میں تھا تو میری ماں عام عورتوں سے زیاده گرانی محسوس کرتی تھی۔ [كنز العمال، كتاب الضعفاء]
معانی بن زکریا القاضی نے اس روایت پر اتنی ہی جرح کی ہے کہ یہ منقطع ہے۔ یعنی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے راوی مکحول میں ملاقات نہیں۔ اس لئے بیچ میں سے ایک راوی کم ہے۔ حالانکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس کا پہلا راوی عمر بن صبیح کذاب، وضاع اور متروک تھا۔
——————

عمرو بن صبیح راوی کا تعارف
عمر بن صبیح : اس کی کنیت ابونعیم ہے۔
یہ خراسان کا باشندہ تھا۔
ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور امین نہیں ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں یہ احادیث وضع کرتا تھا۔
دارقطنی وغیرہ کہتے ہیں متروک ہے۔
امام ازدی فرماتے ہیں کذاب ہے۔
احمد بن علی السلیمانی کا قول ہے کہ اس نے ایک خطبہ وضع کیا تھا۔ جس کے بارے میں اس کا دعوی یہ تھا کہ یہ حضور کی زندگی کا آخری خطبہ ہے۔ اس نے ایک منتر بھی وضع کر کے حضور کی جانب منسوب کیا ہے کہ اسے پڑھ کر سونے سے انسان احتلام سے محفوظ رہتا ہے۔ [ميزان الاعتدال 248/5 تهذيب الكمال 1013/2، خلاصه تهذيب الكمال 272/5، تهذيب التهذيب 463/7، تقريب 75/2، الكاشف 314/2، الجرح والتعديل 629/6 ]

حضور کے سال پیدائش میں روئے زمین پر کسی لڑکی کا پیدا نہ ہونا
بیان کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت آیا، تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دیئے جائیں۔ فرشتے باہم بشارت دیتے پھرتے تھے۔ سورج نے نور کا نیا جوڑا پہنا۔ اس سال دنیا کی تمام عورتوں کو یہ رعایت ملی کہ سب فرزند نرینہ جنیں۔ درختوں میں پھل آ گئے۔ آسمان میں زبر جدد یاقوت کے ستون کھڑے کئے گئے۔ نہر کوثر کے کنارے مشک خالص کے درخت لگائے گئے۔ مکہ کے بت اوندھے ہو گئے۔ وغیرہ وغیرہ۔
تحقیق الحدیث :
یہ داستان مواہب لدنیہ اور خصائص کبریٰ میں ابونعیم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے۔ لیکن ابو نعیم کی دلائل النبوۃ کے مطبوعہ نسخہ میں جہاں اس کا موقع ہو سکتا تھا وہاں یہ روایت مجھ کو نہیں ملی۔ ممکن ہے کہ ابو نعیم نے اپنی کسی اور کتاب میں یہ روایت لکھی ہو یا مطبوعہ نسخہ مکمل نہ ہو۔
بہرحال اس روایت کی بنیاد صرف اس قدر ہے کہ ابونعیم چوتھی صدی کے ایک راوی عمرو بن قتیبہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد قتیبہ جو بڑے فاضل تھے بیان کرتے تھے۔ قسطلانی نے مواہب میں اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ عمرو بن قتیبہ مطعون ہے۔
حافظ سیوطی نے خصائص میں اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ عمرو بن قتیبہ مطعون ہے۔
حافظ سیوطی نے خصائص میں اس روایت کو منکر کہا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام تر بے سند اور موضوع ہے۔
——————

جانوروں کا کلام کرنا
یہ ایک طویل داستان ہے جو حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کی جانب منسوب کی گئی ہے۔ اس کہانی کے الفاظ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل میں آ جانے کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس رات قریش کے سب جانور بولنے لگے۔ اور کہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادر میں آ گئے۔ وہ دنیا جہاں کی امان اور اہل دنیا کے چراغ ہیں۔ قریش اور دیگر قبائل کی کاہنہ عورتوں میں کوئی ایسی تھی کہ اس کا جن اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا ہو۔ اور ان سے کہانت کا علم چھین نہ لیا گیا ہو۔ اس روز دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت اوندھے ہو گئے۔ اور سلاطین اس دن گونگے ہو گئے۔ مشرق کے وحشی جانوروں نے مغرب کے وحشی جانوروں کو جا کر بشارت دی۔ اسی طرح ایک دریا نے دوسرے دریا کو خوش خبری سنائی۔ اور پورے ایام حمل میں ہر ماہ آسمان و زمیں سے یہ ندا سنی جانے لگی کہ بشارت ہو کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمیں پر ظاہر ہونے کا زمانہ قریب آیا۔
حضرت کی والدہ فرماتی تھیں کہ جب میرے حمل کے چھ مہینے گزرے تو خواب میں مجھے کسی نے ٹھوکر دے کر کہا : اے آمنہ ! تمام جہاں کا سردار تیرے پیٹ میں ہے۔ جب وہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد رکھنا اور اپنی حالت کو چھپائے رکھنا، کہتی ہیں کہ جب ولادت کا زمانہ آیا تو عورتوں کو جو کچھ پیش آتا ہے وہ مجھ کو بھی پیش آیا۔ اور کسی کو میری اس حالت کی خبر نہ تھی۔ میں گھر میں تنہا تھی۔ عبد المطلب خانہ کعبہ کے طواف کو گئے تھے۔ تو میں نے ایک زور کی آواز سنی، جس سے میں ڈرگئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک سپید مرغ ہے جو اپنے بازو کو میرے دل پر مار رہا ہے، اس سے میری تمام دہشت دور ہو گئی۔ اور درد کی تکلیف بھی جاتی رہی۔ پھر ایک طرف دیکھا کہ سپید شربت ہے۔ پیاسی تھی، دودھ سمجھ کر اس کو پی گئی۔ اس کے پینے سے ایک نور نکل کر مجھ سے بلند ہوا، پھر میں نے دیکھا کہ چند عورتیں جن کے قد لمبے لمبے ہیں گویا عبد المطلب کی بیٹیاں ہیں۔ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ میں تجعب کر رہی ہوں کہ ان کو کیسے میرا حال معلوم ہوا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ان عورتوں نے کہا کہ ہم فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم اور یہ حوریں ہیں، میرا درد زیادہ بڑھ گیا۔ اور ہر گھڑی آواز اور زیادہ بلند تھی۔ اتنے میں ایک سپید دیبا کی چادر آسمان و زمین کے درمیان پھیلی نظر آئی۔ اور آواز آئی کہ اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لو، میں نے دیکھا کہ چند مرد ہوا میں معلق ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتابے ہیں اور میرے بدن سے موتی کی طرح پسینہ کے قطرے لپک رہے ہیں، جس میں مشک خالص سے بہتر خوشبو تھی۔ اور میں دل میں کہہ رہی تھی کہ کاش عبد المطلب اس وقت میرے پاس موجود ہوتے۔ پھر میں نے پرندوں کا ایک غول دیکھا جو نہ معلوم کدھر سے آئے تھے۔ وہ میرے کمرے میں گھس آئے۔ ان کی منقاریں ( چونچیں) زمرد کی اور بازو یاقوت کے تھے۔ میری آنکھوں سے اس وقت پردے اٹھا دیئے گئے۔ تو اس وقت مشرق و مغرب سب میری نگاہوں کے سامنے تھے، تین جھنڈے نظر آئے۔ ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک خانہ کعبہ کی چھت پر۔ اب دردزہ زیادہ بڑھ گیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کچھ عورتیں ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اور اتنی عورتیں بھر گئیں کہ مجھے گھر کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ اس اثنا میں بچہ پیدا ہوا میں نے پھر کر دیکھا تو وہ سجدہ میں پڑا تھا۔ اور دو انگلیوں کو آسمان کی طرف دعا کی طرح اٹھائے ہوئے تھا۔ پھر ایک سیاہ بادل نظر آیا جو آسمان سے اتر کر نیچے آیا اور مجھ پر چھا گیا۔ اور بچہ میری نگاہ سے چھپ گیا۔ اتنے میں ایک منادی سنی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے مشرق اور مغرب گھما دو اور سمندروں کے اندر لے جائے کہ سب ان کا نام نامی اور شکل وصورت پہچان لیں اور جان لیں کہ یہ مٹانے والے ہیں۔ یہ اپنے زمانہ میں شرک کا نشان مٹا دیں گے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں بادل ہٹ گیا۔ اور آپ دودھ سے زیادہ سفید کپڑے میں لپٹے نظر آئے۔ جس کے نیچے سبز ریشم تھا۔ ہاتھوں میں سفید موتیوں کی تین کنجیاں تھی۔ اور ایک آواز آئی کہ محمد کو فتح و نصرت اور نبوت کی تین کنجیاں دی گئیں ہیں۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ میں نے دل پر جبر کر کے یہ حکایت نقل کی ہے۔ اس لئے کہ میلاد کے عام جلسوں کی رونق ان ہی روایتوں سے ہے۔
یہ روایت ابونعیم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی گئی ہے۔ اور سند کا سلسلہ بہ ظاہر متصل بھی ہے۔ لیکن اگر کسی کو اسماء الرجال سے آگاہی بھی نہ ہو اور وہ صرف ادب عربی کا صحیح ذوق ہی رکھتا ہو تو وہ فقط روایت کے الفاظ اور عبارت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر دے گا۔ کہ یہ تیسری، چوتھی صدی کی بنائی ہوئی ہے۔
اس روایت میں یحییٰ بن عبد الله الباملتی اور ابو بکر بن ابی مریم ہیں۔
پہلا شخص بالکل ضعیف ہے اور دسورا ناقابل حجت ہے۔
ان کے آگے کے راوی سعید بن عمرو الانصاری اور ان کے باپ عمرو الانصاری کا کوئی پتہ ہیں۔
——————

ابو بکر ابن ابی مریم کے حالات
ابو بکر بن ابی مریم : یہ شخص قبیلہ غسان سے تعلق رکھتا تھا۔ اور حمص کا باشندہ تھا۔ اس کے باپ کا نام عبد اللہ اور ابو مریم کنیت ہے۔ خود اس کی کنیت تو ابوبکر ہے۔ لیکن اس کے نام میں زبردست اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام بکر ہے، ایک قول یہ ہے کہ بکیر ہے، کوئی کہتا ہے کہ عمرو ہے، کوئی عامر بتاتا ہے، اور کوئی کہتا ہے عبد السلام ہے۔
ذہبی کہتے ہیں کہ :
یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کی روایات ابوداؤد، تر مذی اور ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ بہت عبادت گزار شخص تھا۔ ابوالیمان، بقیہ اور بابلتئی و غیره اس سے روایات نقل کرتے ہیں۔
امام احمد وغیرہ فرماتے ہیں :
یہ ضعیف ہے روایت حدیث میں غلطیاں بہت کرتا ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں :
یہ حجت کے قابل نہیں۔ ابن عدی نے اس کی متعدد روایات کو منکر قرار دیا ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں :
اس کا حافظہ نہایت ردی تھا۔ جب کوئی روایت یہ تنہا بیان کرے تو وہ قا بل حجت نہیں۔
بقیہ کا بیان ہے کہ ابو بکر بن ابی مریم کے گاؤں میں زیتون کے درخت بہت تھے۔ اور کوئی درخت ایسا نہ تھا۔ جس کی جانب اس نے منہ کر کے پوری رات عبادت نہ کی ہو، ہر وقت روتا رہتا تھا۔
جو زجانی کہتے ہیں :
بہت پرہیز گار انسان تھا 156ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ [ميزان الاعتدال ت 5407، تهذيب التهذيب 38/12، 139، تقريب التهذيب 398/2، سير الاعلام 64/7،الطبري 2071/1،طبقات ابن سعد 487/7،التاريخ الكبير 9/9،المغني 7340،مجمع الزوائد 188/1 ]
گویا یہ کوئی بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ لیکن یہ ہر ہر درخت کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنے کی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بھی کوئی سلوک کی منزل ہو گی۔ کیونکہ صوفیاء کو آبادی میں سلوک کی منزل حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ سرے سے ہی جھوٹ ہو، اس لئے اس واقعہ کو نقل کرنے والا ان کا شاگرد بقیہ ہے۔ جو غالی درجہ کا شیعہ ہے۔ بلکہ ابوسعید محدث نے تو بقیہ کے حال پر نہایت عمدہ تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
احاديث بقيه، يست نقيه، فكن منها على التقيه . بقیہ کی احادیث اچھی نہیں ہوتیں تو ان سے تقیہ کر (یعنی بچ کر رہ)۔
قارئین یہ ضرور ذہن نشین رکھیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما حضور کے چچا حضور سے صرف ڈیڑھ دو سال بڑے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو ابن عباس کے نام سے مشہور ہیں۔ اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد سے ہیں، یہ ہجرت مدینہ سے صرف دو سال قبل پیدا ہو ئے ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں جتنی روایات ان حضرات کی جانب منسوب کی جاتی ہیں۔ وہ سب نہ صرف خالص جھوٹ ہیں۔ بلکہ راوی کی جہالت بھی ثابت کرتی ہیں۔ ایسی روایات کے کے لئے مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں۔
ہمیں اسی داستاں میں سب سے زیادہ حیرت ناک دو باتیں خاص طور پر نظر آئیں۔
➊ کوئی عورت زچگی کے وقت کسی مرد کی آمد پسند نہیں کرتی۔ حتیٰ کہ خاوند کی بھی۔ کجا کہ ایسے وقت میں وہ اس بات کی خواش کرے کہ اس کا سسر اس کے پاس ہو حالانکہ سسر سے تو بہو کو ایک خاص قسم کا حجاب ہوتا ہے۔
➋ جب حضور کی ولادت کے باعث اس دور کے عاملوں کے جنات غائب ہو گئے۔ اور ان کی کہانت لین فن عمليات سلب ہو گیا تو اس دھندے کو اب حضور کے ماننے والوں نے کیسے اپنا لیا؟ اور کاہنوں کی طرح غیب کی خبریں کس طرح بیان کرنے لگے۔ اور کس طرح انہوں نے جنات کی دوستی کو اپنے لئے جائز سمجھا؟
یہ بھی غور طلب امر ہے کہ مشرق و مغرب تو دکھا دیئے جاتے ہیں۔ اور وہاں جھنڈے بھی گاڑے جاتے ہیں۔ لیکن جنوب و شمال کا کسی روایت میں پتہ نہیں چلتا۔ کیا ان راویوں کے نزدیک صرف دو ہی سمتیں ہوتی تھیں؟ پھر تو ان کی عقلوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
——————

پیدائش کے ساتھ سینہ چاک ہونا
اسی قسم کی ایک اور روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے چھوٹے بھائی عبداللہ جب پیدا ہوئے تو ان کے چہرے پر سورج کی سی روشنی تھی۔ اور والد نے ایک دفعہ خواب دیکھا۔ بنو کی ایک کاہنہ نے یہ خواب سن کر یہ پیشین گوئی کی کہ اس لڑکے کی پشت سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا۔ جو تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ جب آمنہ کے شکم سے بچہ پیدا ہوا۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ ولادت کے اثنا میں تم کو کیا کچھ نظر آیا۔ انہوں نے کہا : جب مجھے درد ہونے لگا تو میں نے بڑے زور کی آواز سنی جو انسانوں کی آواز کی طرح نہ تھی۔ اور سبز ریشم کا پھریرا یاقوت کے ڈنڈے میں لگا ہوا آسمان و زمین کے بیچ میں کڑا نظر آیا۔ اور میں نے دیکھا کہ بچہ کے سر سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر آسماں تک جاتی ہیں۔ شام کے تمام محل آگ کا شعلہ معلوم ہوتے تھے۔ اور اپنے پاس مرغابیوں کا ایک جھنڈ نظر آیا۔ اس نے بچے کو سجد ہ کیا۔ پھر اپنے پروں کو کھول دیا۔ اور سعیرہ اسدیہ کو دیکھا کہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچہ نے بتوں اور کاہنوں کو بڑا صدمہ پہنچایا۔ ہائے سعیرہ ہلاک ہو گئی۔ پھر ایک بلند و بالا سپید رنگ جوان نظر آیا۔ جس نے بچے کو میرے ہاتھ سے لے لیا۔ اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا۔ اس کے ہاتھ میں سونے کا طشت تھا اس نے بچہ کے پیٹ کو پچھاڑا۔ پھر اس کے دل کو نکالا۔ اس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کر پھینک دیا۔ پھر سبز حریر کی تھیلی کھولی۔ اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر مونڈھے کے برابر مہر لگائی اور اس کو ایک کرتہ پہنا دیا۔ اے عباس ! میں نے یہ دیکھا۔
تحقیق الحدیث :
اس روایت کو لکھنے کے بعد سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں :
اس روایت سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے کہ ناقلین نے اس کے ضعف کو خود تسلیم کیا ہے، اور سیوطی نے لکھا ہے کہ : اس روایت اور اس سے پہلے کی دو روایتوں میں سخت نکارت ( یعنی منکر باتیں) ہے۔ اور میں نے اپنی اس کتاب خصائص میں ان تینوں سے زیادہ منکر کوئی روایت نقل نہیں کی (یعنی ہماری کتاب میں منکرات تو بہت ہیں لیکن وہ اتنے اعلٰی پیمانہ کی نہیں ہیں ) اور میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے محض ابونعیم کی تقلید میں لکھ دیا ہے۔ (یعنی اگر ابونعیم گڑھے میں نہ گر تے تو میں بھی نہ گرتا)۔
جن روایتوں کو سیوطی لکھنے کے قابل نہ سمجھیں۔ آپ ان کے ضعف کے درجہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ سیوطی کی کتابوں کا درار و مدار ہی ضعیف روایتوں پر ہے۔
سیوطی اس روایت کا ماخذ ابو نعیم کو بتاتے ہیں۔ مگر یہ روایت مجھے دلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو سال بڑے تھے۔ جب آمنہ نے وفات پائی تو وہ سات آٹھ برس کے بچہ ہوں گے۔
——————

کعبہ پر قبضہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آمنہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا قصہ بیان کرتیں تھیں کہ میں حیرت میں تھی کہ تین آدمی دکھائی دیئے۔ جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتاب تھا جس سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا حشف تھا، جس کے چارگوشے تھے۔ اور ہر گوشہ میں سپید موتی رکھا تھا، ایک آواز آئی۔ اے اللہ حبیب یہ پوری دنیا یورپ، پچھم، خشکی و تری سب مجسم ہو کر آئی ہے، اس کے جس گوشے کو دل چاہے مٹھی میں لے لیجئے، پیچھے آمنہ کہتی ہیں کہ میں نے گھوم کر دیکھا۔ کہ بچہ کہاں ہاتھ رکھتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بیچ میں ہاتھ رکھا تو کہنے والے کی آواز سنی کہ رب کعبہ کی قسم محمد نے کعبہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہاں یہ کعبہ اس کا قبلہ اور مسکن رہے گا۔ تیسرے کے ہاتھ میں سپید حریر تھا، اس نے اس کو کھولا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی جس کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت کرتی تھیں، پھر وہ میرے پاس آیا تو طشت والے نے اس انگوئی کو لے کر اس آفتابہ سے سات بار اس کو دھویا۔ اور بچہ کے مونڈھے پر مہر کر دی اور حریر میں اس کو لپیٹ کر مشک خالص کے دھاگے سے باندھ دیا اور تھوڑی دیر تک اپنے بازوؤں میں لپٹائے رکھا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : یہ رضوان جنت تھا، پھر بچے کے کان میں کچھ کہا۔ آمنہ کہتی ہیں : میں اس سے سمجھ نہ سکی۔ اور پھر اس نے کہا۔ اے محمد ! بشارت ہو کہ کسی نبی کو کوئی ایسا علم عطا نہیں کیا گیا۔ جو تم کو نہیں دیا گیا۔ تم سب پیغمبروں سے زیادہ شجاع بنائے گئے۔ تم کو فتح و نصرت کی کنجی دی گئی۔ اور رعب و داب بخشا گیا۔ جو تمہارا نام سنے گا۔ خواہ اس نے تم کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو تو وہ کانپ جائے گا۔ اے اللہ کے خلیفہ۔
تحقیق الحدیث :
اس روایت کا ماخذ یہ ہے کہ یحییٰ بن عائذ المتوفی 378 نے اپنی کتاب ”میلاد “میں اس کا ذکر کیا ہے۔
ابن دحیہ محدث نے بڑی جرأت کر کے اس کو غریب کہا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کو غریب کہنا بھی اس کی توثیق ہے۔ یہ تمام تر بےاصل اور بے بنیاد ہے۔
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: