بحالت روزہ عمداً جماع کرنے والے پر کفارہ

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إذْ جَاءَهُ رَجُلٌ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ. قَالَ: مَا أَهْلَكَكَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي، وَأَنَا صَائِمٌ – وَفِي رِوَايَةٍ: أَصَبْتُ أَهْلِي فِي رَمَضَانَ – فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَهَلْ تَجِدُ إطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَمَكَثَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ – وَالْعَرَقُ: الْمِكْتَلُ – قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ قَالَ: أَنَا. قَالَ: خُذْ هَذَا، فَتَصَدَّقَ بِهِ. فَقَالَ الرَّجُلُ: عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاَللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا – يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ – أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ. ثُمَّ قَالَ: أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں ہلاک ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے: میں رمضان میں اپنی بیوی کے پاس چلا گیا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو کوئی گردن (یعنی غلام ) آزاد کرنے کی حیثیت رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ساٹھ مسکینوں کے کھانے کی گنجائش پاتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر) ٹھہرے تو اسی دوران کہ ہم لوگ وہیں موجود تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا ۔ وہ ٹوکرا کھجوروں کے پتوں سے بنا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: میں (یہاں ہوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پکڑ اور اسے صدقہ کر دے ، اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا اپنے سے بھی زیادہ غریب پر؟ اللہ کی قسم ! ان دو سیاہ پتھروں والی زمینوں (اس کی مراد دو پہاڑ تھے ) کے درمیان میرے گھر والوں سے بڑھ کر کسی کے گھر والے غریب نہیں ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کے آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے ۔
صحيح البخاري ، كتاب الصوم، باب اذا جامع فى رمضان ولم يكن له شيء ، ح: 1936 . صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب تغليظ تحريم الجماع فى نهار رمضان. . . ، ح: 1111
شرح المفردات:
وَقَعَتْ عَلَى امْرَأَتِي: میں نے اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے ۔ / وَقَعَتْ: واحد متکلم ، فعل ماضی معلوم ، باب فَتَحَ يَفْتَحُ
عرق: کھجور کے پتوں سے بنا ٹوکرا جو صرف کھجوریں ڈالنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا اور یہ تقریباً پندرہ صاع کا ہوتا تھا ۔
أَفْقَرُ: أفقر دیگر کی نسبت زیادہ غریب اور فقیر / واحد مذکر ، اسم تفضیل ، باب كَرُمَ يَكْرُمُ
لا بنيها: یہ لا بة کا تثنیہ ہے اور اس سے مراد مدینہ کی مشرقی اور مغربی جانب واقع سیاہ پتھروں والے دو پہاڑ ہیں ۔
أنياب: سامنے والے اوپر نیچے کے چار دانتوں کو ثنایا کہتے ہیں ، ان کے دونوں طرف کے ساتھ والے دانتوں کو رباعی اور رباعی کے دونوں طرف کے ساتھ والے اوپر نیچے کے چار دانتوں کو انیاب کہتے ہیں ۔
شرح الحدیث:
جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ بحالت روزہ عمداً جماع کرنے والے پر کفارہ واجب ہو جاتا ہے ۔ [شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: 214/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: