حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ! اشکالات اور اس کا ازالہ

تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظ اللہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ! اشکالات اور اس کا ازالہ ائمہ مسلمین کی متفقہ تصریحات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی ہے، جو قرآن کی مراد اور تفسیر ہے۔ قرآن و حدیث ہرگز باہم معارض نہیں ہیں، لہٰذا حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ❀ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ألا إني أوتيت الكتاب، ومثله معه ألا یوشک رجل شبعان على أريكته يقول: علیکم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه، ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي، ولا كل ذي ناب من السبع، ولا لقطة معاھد .» ”خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے، ساتھ میں اس کی…

Continue Reading

اولیاء اللہ کے عطائی اختیارات

تحریر : عثمان احمد، بانی توحید ڈاٹ کام اولیاء اللہ کے بارے میں عطائی اختیارات ماننے والوں کو دعوت فکر ✿ بزرگوں کے بارے میں دعویٰ کرنا کہ اللہ نے انہیں بعد از وفات اختیارات و نعمتیں عطا کی ہیں اور وہ اللہ کی عطا سے ہمیں نوازتے ہیں یہ ایک بہتان عظیم ہے۔ مخلوق کا تو کچھ بھی زاتی نہیں ہاتھ، پاؤں، بازو، آنکھیں اور جسم کے سارے اعضاء، سوچنے سمجھنے کی قوت یہ سب عطائی ہی تو ہے ذاتی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مخلوقات کے پاس جو کچھ بھی ہے سب عطائی ہی ہے لھذا یہ کہنا غلط ہو گا کہ فلاں چیز عطائی ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی کی چیزیں زاتی ہیں؟ مخلوقات کے پاس کچھ ہے تو عطائی طور پر ہے اور اگر مخلوقات کے پاس کچھ نہیں ہے تو عطائی طور…

Continue Reading

شیعہ اثنا عشریہ اور قرآن

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا شیعہ اثناعشریہ ہمارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے ؟ جواب : اللہ وحدہ لا شریک لہ نے اپنے انبیاء و رسل پر کتب و صحائف نازل فرمائے اور اس سلسلے کی آخری کڑی امام اعظم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ جبرئیل امین علیہ السلام قرآن نازل کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٩٧﴾ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ [2-البقرة:97] ’’ آپ کہہ دیں جو شخص جبرئیل کا دشمن ہے جس نے آپ کے دل پر اس قرآن کو اللہ کے حکم سے اتارا ہے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا…

Continue Reading

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : نماز کے بعد مروجہ اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت کے متعلق آگاہ فرما دیں ؟ جواب : دور حاضر میں فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدی مل کر جو اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے ہیں اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی کوئی بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ اگر اس دعا کا کہیں وجود ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور ذکر فرماتے۔ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باقی نماز کے مسائل بیان کیے ہیں اس طرح کہیں اس اجتماعی دعا کا ذکر بھی ضرور…

Continue Reading

تعویذ کے متعلق شرعی موقف

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا اسلام تعویذ پہننے کی اجازت دیتا ہے اور اس کا کوئی ثبوت شریعت سے ملتا ہے ؟ جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : من علق شيئا وكل اليه ’’ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی اسے اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ “ [مسند احمد : 4/ 311، حاكم : 4/ 216] اس مفہوم کی اور بھی احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہیں لٹکانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے شفا کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ شرکیہ دم اور تعویذات لٹکانا تمام شرک ہے۔ فتح المجید شرح کتاب التوحید میں ہے کہ تمیمہ وہ منکے یا ہڈیاں ہیں جو نظر بد سے دور رکھنے کے لیے بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ بیماری سے بچاؤ…

Continue Reading

بدعتیوں کی اذان کا جواب

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا ایک ہی وقت میں ہونے والی متعدد اذانوں کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز بدعتیوں کی اذان کا جواب دینا درست ہے ؟ جواب : اذان کا جواب دینے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب ما يقول اذا سمع المؤذن 522 ] ”جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔ “ اس روایت کی روشنی میں بعض کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب ہے اور بعض کے نزدیک مستحب۔ واجب بھی ہو تو صرف ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے باقی سب کا آپ جواب نہ بھی دیں تو کوئی حرج نہیں، دے دیں تو بہرحال ثواب کا کام ہے۔ باقی رہا اہل بدعت کی اذان کا جواب…

Continue Reading

کونسا نجد فتنوں کی سرزمین ہے؟

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد حجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔ ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے ؟ پرفتن نجد کون سا ہے ؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں ؟ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے ؟ اس مضمون میں غیرجانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس تحقیقی مضمون کاخاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔ آخر میں مسلمہ فقہائے کرام، معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی۔

آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ قال : اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ فاظنه قال في الثالثة : هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان .
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد میں ؟ فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی ؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔ ‘‘ [ مسند الإمام أحمد : 118/2، صحيح البخاري : 1051/2، ح : 1709، سنن الترمذي : 3953]

حدیث نمبر ②
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مستقبل المشرق يقول : الا إن الفتنة هاهنا الا إن الفتنة هاهنا من حيث يطلع قرن الشيطان .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔“ [ صحيح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحيح مسلم : 4/2 39، ح : 7292]

حدیث نمبر ③
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
انه قام إلى جنب المنبر فقال : الفتنة ها هنا، الفتنة ها هنا، من حيث يطلع قرن الشيطان او قال قرن الشمس .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا، فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [ صحيح بخاري : 1050/2، ح : 7092، صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 47]

❀ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال، وهو مستقبل المشرق : ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“

(more…)

Continue Reading

گھوڑاحلال ہے!

گھوڑا حلال ہے، کیونکہ : ➊ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نحرنافرساعلي وعهدرسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلناه۔ ”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کوکھا لیا۔“ [صحيح البخاري : 829/2، ح : 5519، صحيح مسلم 150/2، ح : 1942] ❀ سنن نسائی [4426، وسندہ صحيح] کی روایت میں ہے : ونحن بالمدينة، فأكلناه . ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے، پھر ہم نے اسے کھایا۔“ ◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [701۔ 477ھ] یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : فهذه ادل وأقوي و أثبت، و إلى ذلك صار جمهور العلماء، مالك، والشافعي، و أحمد، و اصحابهم، و اكثر السلف والخلف۔ ”یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے، جمہور علمائے کرام، جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد…

Continue Reading

حالت نماز میں قرآن کریم کو پکڑ کر قرائت!

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر قرآئت کر سکتا ہے۔ محدثین کرامؓ اس کو جائز سمجھتے تھے۔ اسی طرح اگر سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی ایسا کر سکتا ہے جیسا کہ:

۱۔ سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:

[arabic-font]

کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔

[/arabic-font]

‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’ (more…)

Continue Reading

زمین کو ٹھیکے پر دینے کا شرعی جواز

تحریر :حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ دنیاوی معاملات میں چونکہ اصل اباحت ہے اور حرمت کا ثبوت کسی صحیح و صریح دلیل کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا اس اصول کے تحت زمین کو کرایہ، یعنی ٹھیکہ پر دینا بالکل جائز و درست ہے۔ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں۔ رہا سیدنا رافع بن خدیج اور دوسرے کئی صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کو ٹھیکے پر دینے کی ممانعت کرنا تو اس سے مراد حرمت نہیں، بلکہ محض نرمی کی ہدایت ہے۔ اگر کوئی خود زمین کاشت نہیں کرتا تو کسی دوسرے مسلمان کو بغیر عوض کے زمین دے دینا اس کے لیے بہتر اور کار ثواب ہے۔ رہا ٹھیکے پر دینے کا عمل تو اس میں سے صرف ظلم و زیادتی والی صورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار…

Continue Reading

حلال جانور کے حرام اعضاء؟

تحریر : ابوعبداللہ ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں، لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔ ◈ ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں : المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔ ” شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“ [العفودالدرية لابن عابدين : 56] ◈ جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں : ”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا…

Continue Reading

تبرکات کی شرعی حیثیت

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری  یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کو تبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے، ان سے مدد مانگنے لگے، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔  دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجر و ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا۔ محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں : (1) مشروع تبرک: جسے اللہ و رسول نے جائز قرار دیا ہو۔  (2) ممنوع تبرک : جو جائز تبرک میں شامل…

Continue Reading

دینی تعلیم و تدریس پر اجرت کا جواز

جناب ضیاء الحق صاحب ، نیو ٹاؤن راولپنڈی کے نام وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، آپ نے کسی نامعلوم و مجہول شخص کا لکھا ہوا پمفلٹ ”دینداری اور دکانداری“ بھیجا ہے جس کے بتیس (۳۲) صفحات ہیں۔ اس پمفلٹ کے مفصل جواب کے لئےمحترم مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظه اللہ کی کتاب دینی امور پر اجرت کا جواز پڑھ لیں۔کتاب کے کل صفحات: ۸۰ مطبوعہ : مکتبہ دار الرحمانیہ، جامع مسجد رحمانیہ ، نزد بوہرہ پیر، کراچی۔ مختصراً عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله [ صحيح البخاري : ۵۷۳۷ ] ”تم جس پر اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے ۔ “ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الإجارہ، باب ما یعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب…

Continue Reading

End of content

No more pages to load

Close Menu

نئی تحریریں ای میل پر حاصل کریں، ہفتے میں صرف ایک ای میل بھیجی جائے گی۔

واٹس اپ پر چیٹ کریں
1
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ

ہمارا فیس بک پیج ضرور فالو کریں

https://www.facebook.com/pukar01

ویب سائٹ پر کسی بھی طرح کی خرابی نظر آنے کی صورت میں سکرین شاٹ ہمیں واٹساپ کریں یا وائس میسج پر مطلع کریں۔ نیز آپ اپنی تجاویز اور فیڈبیک بھی ہمیں واٹس اپ کر سکتے ہیں۔

جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء