فضائل اعمال ، صدقہ

تالیف : ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ صدقہ کی فضیلت فرشتوں کی دعائیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےکہ : مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ: أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ”ہر دن جب لوگ صدقہ کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عنایت فرما، اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے ( بخیل ) کا مال ضائع کر دے ! “ [صحيح بخاري مسلم2336] صدقہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ : لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، إِلَّا أَخَذَهَا اللَّهُ بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا…

Continue Reading

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور تعظیم رسول ﷺ

◈ علامہ عمر بن علی بزار رحمہ اللہ (م : 749 ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : وكان لا يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قط، إلا ويصلي ويسلم عليه، ولا والله، ما رأيت أحدا أشد تعظيما لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا أحرص على اتباعه، ونصر ما جاء به منه، حتى إذا كان ورد شيئا من حديثه فى مسالة، ويري انه لم ينسخه شيء غيره من حديثه، يعمل به، ويقضي، ويفتي بمقتضاه، ولا يلتفت إلى قول غيره من المخلوقين، كائنا من كان، وقال رضي الله عنه: كل قائل إنما يحتج لقوله، لا به، إلا الله ورسوله. ’’آپ رحمہ اللہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ فرماتے تو درود و سلام پڑھتے۔ اللہ کی قسم ! میں نے آپ سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنے والا،…

Continue Reading

درود کے فرض ہونے کے مواقع

تحریر: الشیخ غلام مصطفے ظہیر امن پوری حفظ اللہ
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر سن کر درود:

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ذکر سن کر درود پڑھنا فرض ہے، کیوں کہ ایسے شخص کے بارے میں وعید وارد ہوئی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا ہے لیکن درود نہیں پڑھتا، جیسا کہ:
➊ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رغم أنف رجل دكرت عنده؛ فلم يصل علي.
”اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو، جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو، لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔“ [مسند الإمام أحمد : 254/2؛ سنن الترمذي: 3545؛ فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل :16، و سندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن غریب“ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (908) نے ”صحیح“ کہا ہے۔

❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے:
صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر، فلما وضع رجله على مرقاة قال : ”آمين“، ثم صعد، فقال : ”آمين“، ثم صعد، فقال : ”آمين“، فقال : أتاني جبريل، فقال : من أدرك شهر رمضان؛ فمات فلم يغفر له، فابعدهٔ الله، قلت : آمين، قال: ومن ادرك ابويه او حدهما؛ فمات فلم يغفر له، فابعدهٔ الله، قلت : آمين، قال: ومن ذكرت عنده فلم يصل عليك، فأبعده الله، قلت : آمين
”رسول اکرم صلى الله عليه وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب پہلی سیڑھی پر پاؤں مبارک رکھا تو آمین کہا، پھر (دوسری سیڑی پر) چڑھے تو دوبارہ آمین کہا، پھر (تیسری سیڑھی پر) چڑھے تو پھر آمین کہا۔ پھر ارشاد فرمایا: میرے پاس جبریل آئے تھے اور (جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ (رمضان کی عبادت کی وجہ سے) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔ (جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو پائے، پھر اس حالت میں مر جائے کہ (ان کی خدمت کی بنا پر) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اسے بھی اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔ (جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑ ھے، اسے بھی اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس پر بھی میں سے آمین کہا۔“ [المعجم الأوسط للطبراني :8131؛ مسند أبى يعلٰي : 5922، و سندهٔ حسن]

❀ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم رقي المنبر، فقال : ”آمين، آمين، آمين“، فقيل لهٔ : يا رسول الله، ما كنت تصنع هذا، فقال : قال لي جبريل: أرغم الله أنف عبد۔ أو بعد۔ دخل رمضان فلم يغفر له، فقلت آمين، ثم قال : رغم أنف عبد۔ أو بعد۔ ادرك والديه او احدهما لم يدخله الجنة، فقلت : آمين، ثم قال : رغم أنف عبد۔ أو بعد۔ ذكرت عنده فلم يصل عليك، فقلت : آمين
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو تین دفعہ آمین کہا۔ پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالی اس شخص کو ذلیل کرے جو رمضان میں موجود ہو لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔ میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ذلیل ہو، جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے لیکن ان کی خدمت اسے جنت میں داخل نہ کرے۔ میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ذلیل ہو جائے جس کے پاس آپ کا ذکر ہو لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔ میں نے اس پر بھی آمین کہا۔‘‘
[صحيح ابن خزيمة:1888، و سندهٔ حسن]

➋ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”احضروا المنبر“، فحضرنا، فلما ارتقى درجة قال: ”آمين“، فلما ارتقى الدرجة الثانية قال: ”آمين“، فلما ارتقى الدرجة الثالثة قال: آمين، فلما نزل قلنا: يا رسول الله، لقد سمعنا منك اليوم شيئا ما كنا نسمعه، قال : إن جبريل عليه الصلاة والسلام عرض لي، فقال: بعدا لمن أدرك رمضان فلم يغفرله، قلت : آمين، فلما رقيت الثالثة قال : بعدا لمن ذكرت عنده فلم يصل عليك قلت آمين، فلما رقيت الثالثة قال : بعدا لمن أدرك أبواه الكبر عنده أو أحدهما فلم يدخلاه الجنة، قلت : آمين .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منبر لاؤ۔ ہم منبر لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی سیڑھی پر چڑھے اور آمین کہا۔ جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو آمین کہا۔ جب تیسری سیڑھی پر چڑھے تو پھر آمین کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آج ہم نے آپ سے ایسی چیز سنی ہے، جو پہلے نہیں سنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہو، جو رمضان کو پائے لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔ میں نے آمین کہہ دیا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس آپ کا تذکرہ ہو، لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔ میں نے آمین کہا۔ جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اس کے جنت میں داخلے کا سبب نہ بن سکیں۔ میں نے پھر آمین کہہ دیا۔“ [ المستدرك على الصحيحين لالحاكم : 153/4، و سندهٔ حسن]
↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ”صحیح“ کہا ہے۔
ان کی احادیث کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن کر درود پڑھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔
(more…)

Continue Reading

درود کے فوائد و ثمرات

تحریر : ابوسعید حفظ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستیٔ اقدس پر درود پیغمبرِ اسلام سے اظہارِ محبت کا بے مثال و منفرد انداز ہے، تو بے پناہ فوائد و ثمرات سے مسلمان کا دامن بھی بھر دیتا ہے۔ آئیے شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ کے بیان کردہ کچھ ثمرات جلیلہ پڑھیے:
➊ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری حاصل ہوتی ہے۔
➋ اللہ عزوجل کے ساتھ درود میں موافقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کا درود مختلف معانی و مطالب رکھتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے درود کا معنیٰ دعا اور سوال ہے اور اللہ تعالیٰ کے درود سے مراد ثنا و شرف بیان کرنا ہے۔
➌ درود پڑھنے میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ مطابقت نصیب ہوتی ہے۔
➍ ایک مرتبہ درود پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں عطا کی جاتی ہیں۔
➎ ایک بار درود پڑھنے سے دس درجات بلند ہو جاتے ہیں۔
➏ ایک دفعہ درود پڑھنے سے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ جاتی ہیں۔
➐ ایک مرتبہ درود پڑھنے سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
➑ درود سے آغاز کرنے سے دعا شرف قبولیت حاصل کرتی ہے۔
➒ درود پڑھنے سے روز قیامت شفاعت رسول کی سعادت نصیب ہو گی۔
➓ درود گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے۔
⓫ درود انسان کے غم و الم کا مداوا بن جاتا ہے۔
⓬ درود پڑھنے والا روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہو گا۔
⓭ تنگ دست کے لیے درود صدقہ کے قائم مقام ہے۔
⓮ درود انسانی ضروریات پوری ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔
⓯ درود پڑھنے والوں کو رحمت الٰہی اور فرشتوں کی دعا نصیب ہوتی ہے۔
⓰ درود تزکیہ نفس کا باعث ہے۔
⓱ موت سے پہلے بندہ کو بشارت جنت مل جانے کا سبب ہے۔
⓲ قیامت کی ہولناکیوں سے نجات مل جاتی ہے۔
⓳ مجلس درود سے پاکیزہ ہو جاتی ہے اور روز قیامت ایسی محفل باعث حسرت نہیں ہو گی۔
⓴ درود شریف سے فقر و فاقہ ختم ہو جاتا ہے۔
(21) درود شریف پڑھنے والے کو بخل سے نجات مل جاتی ہے۔
(22) درود پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے بندہ محفوظ ہو جاتا ہے۔
(23) درود بندے کو جنت کا راہی بناتاہے۔ (more…)

Continue Reading

درود کی آواز

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : دنیا میں جہاں کہیں بھی دردو پڑھا جاتا ہے کیا اس کی آواز خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں جیسا کہ ایک روات سے بھی ایسا ثابت ہوتا ہے۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [33-الأحزاب:56]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ و سلام بھیجتے رہو۔“
↰ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلاۃ و سلام پڑھنا چاہیے۔
↰ لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی دورد پڑھا جاتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے ہیں۔

◈ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے صلاۃ و سلام کے متعلق جو کتاب بنام ’’ جلاء الافہام“ لکھی ہے اس میں ایک روایت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ درج کی ہے :

وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثروا من الصلاة علي يوم الجمعة فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي علي إلا بلغتني صوته حيث كان قلنا وبعد وفاتك قال وبعد وفاتي إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء
’’ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جمعہ والے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ یہ ایسا دن ہے کہ جس میں فرشتے حاضر ہو تے ہیں۔ کوئی آدمی مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر مجھ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔“ ہم نے کہا : ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری وفات کے بعد بھی۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔“

تبصرہ : یہ روایت درست نہیں۔
◈ امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان اسناده لا يصح
’’ اس کی سند صحیح نہیں۔“ [القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع ص 159]
(more…)

Continue Reading

کیا رسول اللہ قبر میں درود سنتے ہیں؟

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں درود و سلام سنتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلق طور پر سلام سنتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اگر قبر مبارک کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے، بلکہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود و سلام پہنچاتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔ جو لوگ ایسے نظریات رکھتے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کا اصول محدثین کی روشنی میں جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر ①

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلىٰ على نائيا أبلغته .
”جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا، مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ [شعب الإيمان للبيهقي : 1481، حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي : 19، الضعفاء الكبير للعقيلي : 136/4-137، تاريخ بغداد للخطيب : 292/3، الترغيب والترهيب لأبي القاسما لأصبهانيي :1666]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس کے راوی محمد بن مروان سدی (صغیر) کے ”کذاب“ اور ”متروک“ ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحیٰی بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔

② اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش ”مدلس“ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
↰ محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے عن والی روایت کو ”ضعیف“ ہی سمجھتے ہیں۔

◈ امام عقیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
لا أصل له من حديث الأعمش، وليس بمحفوظ، ولا يتابعه إلا من هو دونه۔
”یہ حدیث اعمش کی سند سے بے اصل ہے۔ یہ محفوظ بھی نہیں۔ محمد بن مروان کی متابعت اس سے بھی کمزور راوی کر رہا ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 137/4]

سنن بیہقی والی روایت میں ابو عبدالرحمن نامی راوی، اعمش سے بیان کرتا ہے۔

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
أبو عبدالرحمن هذا هو محمد بن مروان السدي ؛ فيما أرى، وفيه نظر .
”میرے خیال میں یہ ابوعبدالرحمٰن راوی محمد بن مروان سدی سے اور اس میں کلام ہے۔“ [حياة الأنبياء فى قبورهم، ص : 103]

◈ امام ابن نمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
د ع ذا، محمد بن مروان ليس بشيء .
”اس (روایت) کو چھوڑ دو، کیونکہ محمد بن مروان کی کوئی حثیت نہیں۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 292/3]
(more…)

Continue Reading

درود شریف کے متفرق احکام و مسائل

تحریر: ابوعبداللہ صارم (1) بے وضو اور جنبی مرد و عورت، نیز حائضہ اور نفاس والی عورت بھی درود و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ (2) نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود شریف جیسے مبارک عمل کو دعا میں وسیلہ بنایا جا سکتا ہے، کیوں کہ دعا میں نیک اعمال کا وسیلہ قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے۔ (3) کوئی کافر یا بدعتی اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرے تو بھی درود پڑھا جائے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے کہ جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ درور نہ پڑھے۔۔۔ (4) دوران خطبہ جمعہ خطیب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرے، تو سامعین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا چاہیے۔ (5) کوئی شخص نماز میں آپ صلی…

Continue Reading

درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے

تحریر: ابن الحسن محمدی

سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، ‏‏‏‏‏‏فيه خلق آدم، ‏‏‏‏‏‏ وفيه النفخة، ‏‏‏‏‏‏وفيه الصعقة، ‏‏‏‏‏‏فأكثروا على من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة على .
”بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ لہذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔“
ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسد مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله قد حرم على الارض أن تاكل أجساد الانبياء
”یقینا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 8/4؛ سنن أبى داود : 1047 , 1531 ؛ سنن النسائي : 1375؛ سنن ابن ماجه : 1085، 1636؛ فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل : 22، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [1733] ، امام ابن حبان [910] اور حافظ ابن قطان فاسی [بيان الوهم والإيهام : 574/5] رحمها اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ [278/1] نے اسے ”امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح“ کہا ہے۔
[رياض الصالحين : 1399، خلاصة الأحكام : 441/1، 814/2]
(more…)

Continue Reading

صلی اللہ علیہ وسلم كا اختصار !

تحریر: ابوسعيد

صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ”ص، صعم، صلم، صلیو، صلع اور صلعم جیسے رموز و اشارات کا استعمال حکم الہی اور منہج سلف صالحین کی مخالفت ہے۔ یہ قبیح اور بدعی اختصار خلاف ادب ہے۔ یہ ایسی بے ہودہ اصطلاح ہے کہ کوئی نادان ہی اس پر اکتفا کر سکتا ہے۔

٭ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
واجتنب أيها الكاتب الرمز لها أي الصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطك، بأن تقتصر منها على حرفين، ونحو ذلك، فتكون منقوصة صورة، كما يفعله الكسائي والجهلة من أبناء العجم غالباً وعوام الطلبة، فيكتبون بدلاً من صلى الله عليه وسلم ص، أو صم، أو صلم، أو صلعم فذلك لما فيه من نقص الأجر لنقص الكتابة خلاف الأولى.
”اے لکھنے والے ! اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کرو کہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔ اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے، جیسے کسائی، بہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص، صم، صلم یا صلعم لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلاف اولی ہے۔“ (فتح المغیث بشرح ألفیة الحدیث : 72,71/3)

٭ علامہ ابویحیٰی زکریا انصاری رحمہ اللہ ( م : ۹۲۶ھ) لکھتے ہیں :
وتسن الصلاة نطقا وكتابة عليٰ سائر الأنبياء والملائكة صلى الله وسلم عليهم، كما نقله النوويي عن إجماع من يعتد به .
”تمام انبیاے کرام اور فرشتوں پر بول اور لکھ کر درود و سلام بھیجنا مسنون ہے، جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے تمام معتبر اہل علم کے اجماع سے یہ بات نقل کی ہے۔“ (فتح الباقي بشرح ألفية العراقي : 44/2) (more…)

Continue Reading

ازواج مطہرات پر درود احادیث کی روشنی میں

 

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

* سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت والے قصہ میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يا معشر المسلمين، من يعذرني من رجل قد بلغني أذاه فى أهل بيتي، فوالله ما علمت على أهلي إلا خيرًا.
”اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس کی طرف سے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔“ (صحيح البخاري : 4850، صحيح مسلم : 2770)

* حصین بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
ومن أهل بيته يا زيد؟ أليس نساؤه من أهل بيته؟
”اے زید! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل نہیں؟“
اس پر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
نساؤه من أهل بيته.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم : 2408)

* سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو:
فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلّم إلى على وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم أجْمَعينَ، فقال : ”اللَّهُمْ هولاء أهل بيتيي“ قالت أم سلمة : يا رسول الله، ما أنا من أهل البيت ؟ قال: ”إنك أهلي خير، وهؤلاء أهل بيتيي، اللَّهُمْ أهليي أحق“
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا۔ پھر فرمایا: میرے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں؟ فرمایا : آپ میرے گھر والی ہیں اور بھلائی والی ہیں، جب کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اے اللہ! میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے) زیادہ حق دار ہیں۔“ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 416/2، و سندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے، جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔
(more…)

Continue Reading

ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر درود

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے وہ بھی اہل بیت میں شامل ہیں، جیسا کہ:
قرآن کریم کی روشنی میں :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الأحزاب : 33)
”اے اہل بیت ! اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کو دور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے۔“

اس آیت کی تفسیر میں حبر امت، ترجمان القرآن اور مفسر صحابہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
نزلت فى نساء النبى صلى الله عليه وسلّم خاصة.
”یہ آیت خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسير ابن كثير : 410/6، بتحقيق سلامة، و سندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من شاء باهلته أنها نزلت فى أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم.
”جو مباہلہ کرنا چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوں کہ یہ آیت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة، و سندہ حسن)

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کے مشہور مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا نص فى دخول أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم فى أهل البيت هاهنا، لأنهنّ سبب نزول هذه الآية.
”یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے اہل بیت میں شامل ہونے پر نص ہے، کیونکہ ازواج مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔“
(تفسیر ابن کثیر : 410/6، بتحقیق سلامة)

نیز فرماتے ہیں:
فإن كان المراد أنهن كن سبب النزول دون غيرهن فصحيح، وإن أريد أنَّهُنَّ المُراد فقط دون غيرهنّ، ففي هذا نظر؛ فإنه قد وردت أحاديث تدل علىٰ أنّ المُراد أعم من ذلك.
”اگر یہ مراد ہو کہ ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی بھی اس آیت کے نزول کا سبب نہیں، تو یہ بات صحیح ہے، لیکن اگر کسی کی مراد یہ ہو کہ اہل بیت کے مفہوم میں ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی شامل نہیں، تو یہ محل نظر ہے، کیونکہ کئی احادیث بتاتی ہیں کہ اہل بیت کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة)

یعنی یہ آیت اگرچہ ازواج مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن صحیح احادیث کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں، بلکہ اگر بیویاں اہل بیت ہیں تو رشتہ دار بالا ولیٰ اہل بیت میں شامل ہیں۔ (more…)

Continue Reading

درود پاک کے مختلف الفاظ

تحریر: ابوعبد الله صارم

(1) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، کہنے لگے: کیا میں آپ کو عظیم الشان تحفہ نہ دوں، جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے، میں نے عرض کیا: جی ضرور! کہنے لگے: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجا جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام کے متعلق تو تعلیم دے دی ہے (درود کے متعلق نہیں) ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درود یوں پڑھا کرو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح البخاری : 3370؛ صحیح مسلم : 406)
(2) سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سکھائے :
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 162/2؛ سنن النسائي : 1290، وسنده حسن)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’حسن“ قرار دیا ہے۔ (التلخيص الحبير :268/1) (more…)

Continue Reading

درود نہ پڑھنے کی سزا

تحریر: ابن الحسن محمدی

(1) سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البخيل من ذكرت عنده، فلم يصل على .
”جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ بخیل ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 201/1؛ سنن الترمذي : 3546؛ فضل الصلاة على النبى للامام إسماعيل القاضي: 32؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم :549/1، وسنده حسن)

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (3546) نے ”حسن صحیح غریب“، امام ابن حبان رحمہ اللہ (909) نے ”صحیح“ اور حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يقصر عن درجة الحسن. (more…)

Continue Reading

فضائل درود احادیث کی روشنی میں

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری 
(1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
من صلى على واحدة؛ صلَّي الله عليه عشرا .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“ 
(صحيح مسلم : 408) 

دوسری روایت یوں ہے:
من صلى على مرة واحدة؛ كتب الله عزوجل له بها عشر حسنات .
”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔“ 
(مسند الامام أحمد : 262/2، وسنده حسن، و صححه ابن حبان : 905) 

(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: 
من صلّى على صلاة واحدة؛ صلى الله عليه عشر صلوات، وحط عنه بها عشر سيئات، ورفعه بها عشر درجات .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کی دس خطائیں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔“ 
(مسند الإمام أحمد : 102/3،261؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 62، واللفظ له، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ 
(904) نے ”صحیح“، جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (550/1) نے ”صحیح الاسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا حکم لگایا ہے۔ 

* مستدرک حاکم کے یہ الفاظ ہیں: 
من صلّى على صلاة، صلى الله عليه وسلم عشر صلوات، وحط عنه عشر خطيئات .
”جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑ ھتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ 
(907 ) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ 

(more…)

Continue Reading

End of content

No more pages to load

Close Menu

نئی تحریریں ای میل پر حاصل کریں، ہفتے میں صرف ایک ای میل بھیجی جائے گی۔

واٹس اپ پر چیٹ کریں
1
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ

ہمارا فیس بک پیج ضرور فالو کریں

https://www.facebook.com/pukar01

ویب سائٹ پر کسی بھی طرح کی خرابی نظر آنے کی صورت میں سکرین شاٹ ہمیں واٹساپ کریں یا وائس میسج پر مطلع کریں۔ نیز آپ اپنی تجاویز اور فیڈبیک بھی ہمیں واٹس اپ کر سکتے ہیں۔

جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء