خوابوں کی اقسام اور تعبیر کا طریقہ
مصنف : ابو محمد خالد بن علی العنبری رحمہ اللہ

خواب تین قسم کا ہوتا ہے
اچھا خواب :
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہوتی ہے اور یہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
برا خواب :
یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ اس کے ذریعے انسان کو غم زدہ کرنے اور نیند کے دوران لہو و لعب میں مشغول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ذہنی تخیلات :
دن کے وقت انسان کے ذہنی تفکرات اور خیالات نیند میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں اس کے یومیہ معمولات بھی آ جاتے ہیں۔ مثلاً : اگر کسی وقت کسی شخص کے کھانے کا معمول ہو اور وہ سو جائے تو خواب میں کھانا کھا رہا ہو گا یا ضرورت سے زائد کھا لے تو وہ خواب میں دیکھے گا کہ اسے قے آ رہی ہے۔
مذکورہ بالا خواب کے علاوہ جتنے بھی خواب آتے ہیں، وہ محض”افسانے“ہوتے ہیں۔ ان کی تعبیر نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ تعبیر کے اصولوں پر پورا اترتے ہیں۔

اچھا خواب دیکھنے کی صورت میں چار باتوں کا خیال رکھنا چاہیے
➊ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔
➋ اسے خوشخبری کا آئینہ دار سمجھے۔
➌ اسے اپنے دوستوں تک محدود در کھے۔
➍ اس کی بہتر انداز میں تعبیر کرے یا کروائے، کیونکہ خواب تعبیر کے مطابق پورے ہو جاتے ہیں۔

اگر خواب اچھا نہ ہو تو دیکھنے والے کو سات باتوں کا خیال رکھنا ہو گا، ان کی پاسداری کرنے سے وہ شخص ان شاء اللہ اس کے ضرر سے
محفوظ ہو جائے گا

➊ اس کے شر سے پناہ مانگے۔
➋ تین دفعہ «أعود بالله من الشيطن الرجيم» پڑھے۔
➌ تین دفعہ بائیں طرف دم کرے۔
➍ جس کروٹ لیٹ کر یہ خواب دیکھا ہو اسے بدل دے۔
➎ نماز نفل پڑھنا شروع کر دے۔
➏ کسی شخص کے سامنے بیان نہ کرے۔
➐ خود بھی اس کی تعبیر نہ کرے۔
مندرجہ بالا ہدایات کے دلائل مندرجہ ذیل احادیث میں موجود ہیں :
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا :
”جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے، تو اسے اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر اس کا شکر ادا کرے اور اسے (دوست و احباب) کے سامنے بیان نہ کرے۔ اگر کوئی شخص ناپسندیدہ چیز خواب میں دیکھے، تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اس کے شر سے تحفظ کے لیے «أعود بالله من الشيطن الرجيم» پڑھے اور اس کسی کو نہ بتائے، ایسا کرنے سے یہ اسے نقصان نہیں دے گا۔“
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں خواب دیکھتا تو بیمار ہو جاتا تھا۔ ایک روز میں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی :
”میں خواب دیکھ کر بیمار ہو جایا کرتا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب تم خواب میں کوئی پسندیدہ چیز دیکھو تو اسے صرف انہی لوگوں کے سامنے بیان کرو، جن سے تمہیں محبت ہو۔ اور جب کوئی ناپسند چیز دیکھو تو اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آؤ۔ اور «أعود بالله من الشيطن الرجيم» پڑھو، تین دفعہ دم کرو، اسے کسی کے سامنے بیان نہ کرو۔ ایسا کرنے سے تمہیں یہ خواب کوئی نقصان نہیں دے گا۔
[بخاري و مسلم]
مسلم کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :
”اگر کوئی شخص اچھا خواب دیکھے، تو اسے خوش خبری سمجھے اور اپنے پسندیدہ لوگوں کے علاوہ کسی کو نہ بتائے۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تم کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھو تو اپنی بائیں طرف تین دفعہ دم کرو اور تین دفعہ «أعود بالله من الشيطن الرجيم» پڑھو۔ اور جس کروٹ کے بل لیٹے ہوئے ہو، اسے بدل دو۔“ [مسلم]
امام مسلم رحمہ اللہ ہی نے حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ الفاظ بھی بیان کیے ہیں کہ :
”جب تم خواب میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو، تو اٹھ کر نماز پڑھنے لگ جاؤ اور یہ خواب کسی کو نہ بتاو“

خواب کی تعبیر کا طریقہ
خواب کی تعبیر کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کیے جائیں :
➊ خواب میں جو چیز نمایاں اور بنیادی حیثیت کی حامل ہو۔ مثلاً :
کوئی چیز خوشخبری یا پریشانی، دنیوی یا اخروی مفاد کی نشاندہی کر رہی ہو تو اسے پیش نظر رکھیں اور اس کے علاوہ باقی چیزوں کو چھوڑ دیں۔
➋ مذکورہ بالا اہم چیز کو قرآن مجید یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا قیاس تشبیہ یا نام کی مناسبت یا لغوی معنی کی روشنی میں خواب کی تعبیر کے لیے بنیاد بنا لیں۔

قرآن مجید کے ذریع تعبیر کی مثالیں :

➊ رسی کی تعبیر اللہ تعالیٰ کے فرمان :
«وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ» [3-آل عمران:103]
کی روشنی میں عہد و پیمان کے ساتھ کریں۔
➋ کشتی اور بحری جہاز کی تعبیر :
«فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ» [29-العنكبوت:15]
کی روشنی میں پتھر کی تعبیر شدت اور سختی کے ساتھ کریں۔
➌ تنوں سے :
«كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ» [63-المنافقون:4]
کے پیش نظر ”نفاق“ مراد لیں۔
➍ «فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً» [2-البقرة:74]
کی روشنی میں پتھر کی تعبیر شدت اور سختی کی ساتھ کریں۔
➎ شیر خوار بچے کی تعبیر :
«فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا» [28-القصص:8]
کی روشنی میں دشمنی کے ساتھ کریں۔
➏ راکھ سے ناقابل قبول عمل مراد لیں کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
«مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ» [14-إبراهيم:18]
”باری تعالیٰ کے منکروں کی مثال اس راکھ کی طرح ہے، جس پر تند و تیز آندھی آ گئی ہو۔“
➐ پانی کی تعبیر : ”آزمائش“ کے ساتھ کی جائے گی۔
باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
«لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا» [72-الجن:16]
«لِّنَفْتِنَهُمْ فِيهِ» [72-الجن:17]
➑ کچا گوشت کھانے کی تعبیر ’’غیبت کرنے“ سے کی جائے گی۔
فرمان الہیٰ ہے کہ «أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا» [49-الحجرات:12]
”کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے فوت شدہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟“
➒ اونگھ سے ”امن و سکون“ مراد لیا جائے اور یہ باری تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہے :
«يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ» [8-الأنفال:11]
➓ سبزی، خربوزہ، لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہاتھ میں لینے کی تعبیر ذیل کے فرمان الہیٰ کی روشنی میں یہ کی جائے کہ ایسا شخص اپنے پاس موجود بہترین اور عمدہ مال و دولت علم، اور رفیق حیات کے عوض ادنیٰ درجے کی چیزیں حاصل کرے گا۔
«فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ» [2-البقرة:61]
”آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ زمین کی پیداوار میں سے سبزی ککڑی، لہسن، مسور کی دال اور پیاز مہیا کرے۔ (حضرت موسی علیہ السلام نے) کہا: کیا تم بہتر کے عوض ادنیٰ چیزیں لینا چاہتے ہو ؟“
⓫ اچھے درخت کی تعبیر : ”کلمہ توحید“ اور گھٹیا درخت کی تعبیر : ”شرک و بدعت“ کے ساتھ کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
«كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ» [14-إبراهيم:26]
⓬ باغ سے مراد عمل ہے اور اس کا جل جانا عمل کے ضائع ہو جانے کی نشاندہی کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ» [2-البقرة:266]
”اسے بگولے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ جل گیا۔“
⓭ انڈے کی تعبیر : ”عورت“ سے کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
«كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ » [37-الصافات:49]
”گویا وہ حوریں پردے میں پوشیدہ انڈے ہیں۔“
⓭ لباس کی تعبیر بھی یہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
«هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ» [2-البقرة:187]
”یہ عورتیں تمہارا لباس ہیں۔“
⓮ روشنی کی تعبیر : ”ہدایت“ اور تاریکی کی ”گمراہی“ سے کی جائے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ» [5-المائدة:16]
”اللہ تعالیٰ انہیں تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔“

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تعبیر کرنے کی مثالیں :

❀ کوے سے ”فاسق و فاجر“ مراد لیا جائے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوے کو فاسق کہا ہے۔
❀ چوہیا سے مراد : ”فاسق عورت“ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوہیا کو فاسق کہا ہے۔
❀ پسلیوں اور شیشے کے برتنوں سے بھی عورتیں مراد لی جائیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
❀ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اے انجشہ ! ذرا تھم جاؤ، ان شیشے کے برتنوں سے نرم روی اختیار کرو۔“
(یہ دونوں احادیث بخاری و مسلم نے ذکر کی ہیں۔)
❀ قمیص کی تعبیر مذہب پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
”میں نے اپنے سامنے پیش کردہ لوگوں پر نگاہ ڈالی، تو ان میں سے کچھ لوگوں کی قمیص سینے تک تھی اور کچھ لوگوں کی قمیض اس سے نیچے تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سامنے لایا گیا، تو وہ اتنی لمبی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ وہ زمین پر گھسٹ رہی تھی۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اس سے مراد) دین ہے۔“ [بخاری و مسلم]
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”دودھ“ کی تعبیر ”علم“ کے ساتھ کی ہے۔
اس طرح حدیث اسراء کے پیش نظر اس کی تعبیر فطرت اسلام سے کی جا سکتی ہے۔
❀ سیاہ فام بکھرے ہوئے بالوں والی عورت کی تعبیر ”وبا“ سے کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ بکھرے ہوئے بالوں والی ایک سیاہ فام عورت مدینہ منورہ سے باہر نکل کر جحفہ میں چلی گئی ہے۔ میں نے اس کی
یہ تعبیر کی ہے کہ وبا مدینہ منورہ سے باہر نکل کر وہاں منتقل ہو گئی ہے۔“ [بخاری]
❀ بارش سے ہدایت اور علم مراد لیا جائے کیونکہ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
”جو علم و ہدایت عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال ایک بارش کی مانند ہے۔“ [بخاری مسلم]
❀ سیدھے راستے کی تعبیر ”اسلام“ ہے۔ اس کے دائیں بائیں حفاظتی دیواریں اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور ان دیواروں میں لگے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔
جیسا کہ حضرت بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ
”اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کو بطور مثال بیان کیا ہے، اس کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں۔ ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس راستے کے دروازے پر ایک آواز دینے والا موجود ہے۔“ [احمد و ترمذی]
❀ گھر کی تعبیر ”جنت“ ہے۔ دسترخوان کی تعبیر ”اسلام“ ہے۔ اس کی طرف دعوت دینے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو شخص دعوت قبول کر کے گھر میں داخل ہو گیا، ایسا خواب دیکھنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ :
”کچھ فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محو خواب تھے۔ فرشتوں نے کہا؛ اس شخص کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی شخص نے ایک گھر تعمیر کر کے اس میں دسترخوان لگا دیا اور ایک دعوت دینے والے کو لوگوں کی طرف بھیج دیا۔ جس نے اس کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گیا اور اس نے دسترخوان سے کھا بھی لیا اور جس نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا وہ نہ تو گھر میں داخل ہوا اور نہ ہی اس نے دسترخوان سے کچھ کھایا۔“
❀ اونٹوں کی تعبیر ”عزت“ سے، بکریوں کی ”برکت“ سے اور گھوڑوں کی ”خیر و بھلائی“ سے کی جاتی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
”اونٹ مالکوں کے لیے باعث عزت ہوتے ہیں، بکریاں باعث برکت ہیں اور قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی مرکوز کر دی گئی ہے۔

❀ قے چاٹنے والے کتے کی تعبیر تحفہ دے کر واپس لینے والے شخص کے ساتھ کی جائے گی۔
جیسا کی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ :
”تحفہ دے کر واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کتے کی طرح ہوتا ہے۔“
مالٹے کی تعبیر ”قرآن مجید تلاوت کرنے والے باعمل مومن کے ساتھ“ کھجور کی ”قرآن مجید نہ پڑھنے والے مومن کے ساتھ“ اور ”اندرائن“ کی تعبیر قرآن مجید نہ پڑھنے والے منافق کے ساتھ کی جائے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
”جو مومن قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، وہ اس مالٹے کی طرح ہے، جس کا ذائقہ بھی اچھا ہو اور خوشبودار بھی ہو۔ اور جو مومن قرآن مجید نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور کی طرح ہے کہ اس کی خوشبو نہیں ہوتی، لیکن ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔ اور قرآن مجید پڑھنے والے منافق کی مثال نیازبو کی طرح ہے۔ اس کی خوشبو ہوتی ہے، لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن کی طرح ہے، اس کی خوشبو بھی نہیں ہوتی اور ذائقہ بھی ترش ہوتا ہے۔“ [بخاری و مسلم]
❀ ظلم کی تعبیر ”تاریکیوں کے ساتھ“ اور تاریکیوں کی تعبیر ”ظلم کے ساتھ“ کی جائے گی۔ اس طرح بخل کی تعبیر ”خون ریزی“ سے کی جائے گی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
”ظلم کرنے سے بچو، ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی شکل میں ہو گا۔ بخل سے بچو، بخلی نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اسی کی بنا پر انہوں نے خونریزی کی اور حرام چیزوں کو حلال سمجھ لیا تھا۔“ [مسلم]
❀ کھجور کی تعبیر ”مسلمان“ کے ساتھ کی جائے گی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
”مجھے ایک ایسا درخت بتائیں، جس کے پتے نہ گرتے ہوں ؟ اس درخت کی مثال ایک مومن کی طرح ہے۔“عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے، لوگ جنگل کے مختلف درختوں کے نام لینے لگ گئے۔ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور ہے۔ بالآخر صحابہ نے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول ! آپ ہی فرمائیں کہ وہ کون سا درخت ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ عطر فروش کی ”اچھے دوست“ کے ساتھ اور بھٹی جلانے والے کی تعبیر ”برے دوست“ کے ساتھ، جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ :
”اچھے اور برے دوست کی مثال۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

لفظ کے معنی یا قیاس اور تشبیہ کی مدد سے تعبیر کرنا :
❀ آگ کی تعبیر ”فتنہ و فساد“ کے ساتھ کی جائے گی کیونکہ جس طرح آگ ہر چیز کو ختم کر دیتی ہے، اسی طرح فتنہ و فساد بھی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
❀ ستاروں کی تعبیر علما کے ساتھ کی جائے گی، کیونکہ ان کے ذریعے اہل زمین کو راہ نمائی حاصل ہوتی ہے۔
❀ لوہے اور ہتھیاروں کی تعبیر ”قوت اور فتح و نصرت“ کے ساتھ کی جائے گی۔
❀ بدبو کی تعبیر ”خوشبو“ کے برعکس ہو گی۔
❀ سانپ سے ”دشمن یا بدعتی“ شخص مراد لیا جائے گا۔
❀ تنگ دروازوں سے باہر نکلنے سے مراد ”کشادگی اور نجات“ کا حصول ہے۔
❀ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کی تعبیر ”ایک حالت سے دوسری حالت میں“ منتقل ہونا ہے۔
❀ وفات پا جانے کی تعبیر ”توبہ اور رجوع الی اللہ“ ہے۔
❀ زراعت اور کاشت کاری کی تعبیر ”عمل“ ہے۔
❀ کتے کی تعبیر ”کمزور“ لیکن بہت زیادہ شور مچانے والا دشمن ہے۔
❀ شیر سے مراد ”ظالم اور غلبہ“حاصل کرنے والا شخص ہے۔
❀ لومڑ سے مراد ”مکر و فریب“ کرنے والا حیلہ ساز اور حق سے گریزاں شخص ہے۔
❀ جسم کے کسی حصے میں پسندیدہ اضافہ ”بھلائی“ اور ہر ناپسندیدہ اضافہ ”دکھ اور تکلیف“ پر محمول کیا جائے گا۔
❀ کسی بھی قسم کی بلندی پر چڑھنا پسندیدہ قرار دیا جائے اور بلندی سے نیچے گرنا ناپسندیدہ سمجھا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے