ناموں اور لغوی اشتقاق کے ذریعے تعبیر کرنا

مصنف : ابو محمد خالد بن علی العنبری رحمہ اللہ

ناموں اور لغوی اشتقاق کے ذریعے تعبیر کرنا :

اگر خواب میں :
◈ ”راشد“ نامی شخص دکھائی دے، تو اس کی تعبیر ”رشد و ہدایت“ ہے۔
◈ ”سالم“ نامی شخص نظر آئے، تو اس کی تعبیر ”سلامتی“
◈ اور ”سعید“ کی ”سعادت مندی“،
◈”منافع“ کی ”نفع و فائدہ“،
◈ ”عقبہ“ کی ”بہتر انجام“،
◈ ”رافع“ کی ”رفعت و بلندی“،
◈ ”احمد“ کی ”حمد و تعریف“
◈ اور ”صالح“ کی ”خوبی اور صلاحیت“ کے ساتھ تعبیر کی جائے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم عقبہ بن رافع رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم نے ابن طاب سے کھجوریں منگوائی ہیں۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ ہم دنیا میں رفعت و بلندی سے ہمکنار ہوں گے۔ آخرت میں ہمارا انجام بہتر ہو گا اور ہماری دینی حالت بہتر ہو گی۔“
امام مناوی رحمہ اللہ ابن الوردی رحمہ اللہ کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”اگر مریض خواب میں دیکھے کہ اس کی تیمارداری کے لیے سالم، سلیم، سلامہ، سلیمان، سلم، سلمان، نجا اور ناجی نام کا کوئی شخص آیا ہے، تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ مریض بیماری سے شفایاب ہونے والا ہے۔ اگر وہ خود کو سفر کرتے گھر سے باہر نکلتے ہوئے، شہر سے جاتے ہوئے دیکھے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے ہوئے یا کچھ مسافر لوگوں کو سفر کرتا دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ موجودہ مرض کی بنا پر جلد ہی فوت ہو جائے گا۔ باقی کو بھی اسی قاعدے کے مطابق سمجھیں۔“
اگر متذکرہ بالا تینوں علامات کی روشنی میں تعبیر نہ ہو سکے، تو فن تعبیر کی مستند کتب کی طرف رجوع کریں۔ ہم بھی آپ کے سامنے ایک ایسی مختصر ڈکشنری پیش کر رہے ہیں، جو مشکل خوابوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح ترین تعبیر پر مشتمل ہے۔ ان کا بیشتر مواد امام نابلسی کی کتاب سے لیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے اسے فن تعبیر کی کثیر التعداد تصنیفات سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہے۔
(ج) :۔۔۔۔ خواب سے ملنے والے مختلف اشارے متعین کرنے اور اشارے یا اہم نکتہ کو مقرر ضابطے کے سامنے لانے کے بعد ان کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملاتے جائیں، تاکہ اس سے کوئی واضح بات اخذ کر سکیں۔
وضاحت کے لیے چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔ یاد رہے کہ مثالیں فن تعبیر کے علم بردار امام جناب ابن سیرین رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کی جا رہی ہیں۔

مثال نمبر1 :
حجاج بن یوسف نے یہ خواب دیکھا کہ :
’’ آسمان سے دو حوریں نیچے آئیں، ایک کو اس نے پکڑ لیا اور دوسری واپس چلی گئی۔“
امام ابن سیر ین رحمہ اللہ کو اس کے خواب کا پتہ چلا تو انہوں نے فرمایا :
”اس سے مراد دو فتنے ہیں، ایک اس کی زندگی کے دوران آئے گا اور دوسرا اس کی وفات کے بعد۔ اور پھر ایسے ہی ہوا۔ ”ابن اشعث“ کا فتنہ اس کی زندگی میں برپا ہوا۔ اور ”ابن مہلب“ کا فتنہ اس کی زندگی کے بعد۔“
اس خواب میں دو بنیادی نکتے تھے :
➊ دو حوروں کا اترنا۔
➋ حجاج کا ایک کو پکڑ لینا اور دوسری کا واپسں چلا جانا۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے پہلی چیز کے لیے حدیث شریف کی روشنی میں فن تعبیر کا ایک اصول لیا اور وہ یہ ہے :
”خواب میں عورت دکھائی دینا آزمائش کی علامت ہے۔“
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :
”میرے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ زیادہ مضر نہیں ہو گا۔“ [بخاری و مسلم]
اس کے بعد دوسری چیز ”حور کو پکڑنا“ مدنظر رکھ کر دونوں کا باہمی تعلق قائم کیا اور ایک واضح بات اخذ کر لی۔ لہٰذا جیسے آپ نے تعبیر کی، ویسے ہی ہوا۔

مثال نمبر 2 :
امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس آ کر ایک آدمی نے کہا کہ : ”میں نے خواب میں اپنی منگیتر کو دیکھا ہے کہ وہ سیاہ رنگ اور پستہ قد ہے۔“ آپ فرمانے لگے کہ :
”اس کے سیاہ رنگ سے مراد اس کا مال و دولت ہے اور اس کے پستہ قد سے مراد اس کی عمر ہے۔ لہٰذا تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ وہ فوت ہو گئی اور اس کی وراثت اس آدمی کو مل گئی۔“
امام ابن سیر ین رحمہ اللہ نے پہلی چیز (سیاہ رنگ) کے لیے لغت سے ایک ضابطہ اپنے سامنے رکھا اور وہ اس طرح کہ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہو تو عرب بطور محاور ہ کہتے ہیں کہ
”اس کے پاس سیاہ رنگ ہے۔“ جبکہ دوسری کے لیے تشبیہ اور قیاس کے ذریعے ایک بنیاد بنائی اور اس طرح جسم انسانی کو لمبا اور پستہ ہونے میں عمر سے تشبیہ دی۔ اس کے بعد ان دونوں باتوں سے ایک واضح اور نمایاں چیز اخذ کر لی۔

مثال نمبر 3 :
حضرت عبد اللہ بن مسلم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ کی محفل میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے انہیں چھوڑ کر ”اباضیہ“ فرقے والوں میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ مجھے خواب میں دکھائی دیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ اٹھائے لے جا رہے ہیں اور میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ میں نے یہ خواب امام ابن سیرین رحمہ اللہ کو سنایا، تو وہ فرمانے لگے :
”تم نے ایسے لوگوں کی مجلس اختیار کر لی ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔“
اس خواب میں دو بنیادی باتیں ہیں :
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تابوت۔
➋ کچھ لوگوں کا اسے اٹھا کر دفن کرنے کے لیے لے جانا۔
پہلی چیز کو امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آنے والے حق کے ذریعے تعبیر کیا۔ دوسری چیز سے حق کا خاتمہ مراد لیا، اس کے بعد ان دونوں کو ملا کر مذکورہ بالا تعبیر اخذ کی۔

مثال نمبر 4 :
ایک آدمی نے امام ابن سیرین رحمہ اللہ کو یہ خواب بتایا کہ :
”میں نے دیکھا ہے کہ میں سونے کا تاج پہنے ہوئے ہوں۔“
امام موصوف فرمانے لگے :
”تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تمہارا والد سفر کی حالت میں تنہا ہے، اس کی بینائی ختم ہو چکی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ تم اس کے پاس پہنچ جاؤ۔“
اس آدمی نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر اپنے والد کی طرف سے پہنچنے والا ایک خط نکالا، تو اس میں اس کے والد نے اپنی بینائی کے ختم ہو جانے، علاقہ غیر میں تنہا ہونے اور اسے اپنے پاس آنے کو کہا تھا۔
اس خواب میں تین بنیادی چیزیں ہیں :
➊ سر۔
➋ تاج۔
➌ سونا۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے ان تینوں چیزوں کے لغوی معنی اور اشتقاق کی مدد سے ایک ضابطہ اور اصول وضع کیا۔ سر سے سردار مراد لیا ہے اور والد انسان کا سردار ہوتا ہے۔ تاج عجمیوں کا امتیازی لباس ہے اور عجمیوں کی سرزمین عربوں کے لیے علاقہ غیر ہے۔ سونے کو عربی میں «ذهب» کہتے ہیں، اس کا معنی ”ختم ہونا“ بھی ہے۔ اس سے انہوں نے بینائی کا ختم ہونا مراد لیا ہے۔ ان تینوں چیزوں کو ملا کر ایک ایسی تعجب خیز بات اخذ کی جو واقع کے عین مطابق تھی۔
ایک قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ امام موصوف نے جیسے اس خواب کی تعبیر کی تھی، واقعہ بھی اسی طرح پیش آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خوابوں کی جیسے تعبیر کی جائے گی ویسی صورت حال بھی درپیش ہو جائے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”خواب کی تعبیر جیسے کی جاتی ہے، وہ اسی طرح وقوع پذیر ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص اپنا پاؤں اوپر اٹھانے کے بعد اسے نیچے رکھنے کا منتظر ہو۔ جب تم میں سے کوئی شخص خواب دیکھے تو اسے کسی خیرخواہ یا صاحب علم کے علاوہ کسی کو نہ بتائے۔“ [مستدرك حاكم]
حضرت ابورزیں عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”تعبیر سے پہلے خواب کی حیثیت پرندے کے پاؤں پر رکھی ہوئی چیز کی مانند ہے۔ جب ان کی تعمیر کر لی جاتی ہے تو وہ وقوع پذیر ہو جاتے ہیں۔“
یہ چیز انتہائی لائق انتباہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خوابوں کی تعبیر خوش آئند چیزوں سے کی جانی چاہیے۔ وگرنہ اس سے دست کشی کر لینا بہتر ہو گا۔
(د) : اگر کسی خواب سے دو متضاد باتیں سامنے آ رہی ہوں تو ان میں سے خواب کے الفاظ اور اس کے اصول و ضوابط کے قریب تر چیز کو لیا جانا چاہیے۔
امام مناوی رحمہ اللہ نے ”الفیہ وردیہ“ (امام ابن الوردی رحمہ اللہ کا ایک ہزار شعروں پر
مشتمل خواب نامہ) کی تشریح میں ایک عالم کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ :
”خواب کی تعبیر کرنے والے کو رک رک کر سوچنا چاہیے اور مکمل گہرائی تک جانا چاہیے۔ بات کا باہمی ربط پیدا کرنا چا ہیے، زائد چیزوں کو نکال کر بنیادی چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے فن تعمیر کے اصول و ضوابط کے سامنے لانا چاہیے۔ اس کے بعد اگر خواب کی مختلف تعبیریں سامنے آ رہی ہوں تو جو زیادہ مناسب حال اور قیاس و رائے کے مطابق ہو، اسے بیان کیا جائے۔“
(ھ) بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ خواب کی تعبیر کا تعلق دیکھنے والے کے بھائی، دوست، رشتہ دار یا کسی متعلقہ شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب خواب کی مشمولہ باتوں کا آپ کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی وہ آپ کا مصداق بن سکتی ہوں، بلکہ دوسرے شخص کے ساتھ زیادہ موزوں ہوں۔ مثلاً : اگر خواب کی تعبیر ”وفات ہو“ اور جس شخص کے بارے میں خواب دکھائی دیا گیا ہو وہ تندرست ہو، لیکن اس سے متعلقہ شخص قریب المرگ ہو تو اس کی تعبیر دوسرے شخص کے زیادہ مناسب حال ہو گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ابوجہل آپ کی بیعت کر رہا ہے، جبکہ اس سے مراد اس کا بیٹا عکرمہ تھا۔ لہٰذا جب عکرمہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
”یہ اس خواب کی تعبیر ہے۔“
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےا سید بن عاص رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ مکہ مکرمہ کی انتظامی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ عہدہ عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو ملا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کا منتظم مقرر کر دیا تھا۔
(ر) اگر کوئی ایسا خواب دکھائی دے، جس کی تعبیر کسی مسلمان بھائی کا چھپا ہوا عیب ہو تو اسے چھپائے رکھیں، اسے بیان نہ کریں۔ اگر کبھی بیان کرنا ہو تو اس شخص کا نام نہ لیں، کیونکہ اسے بیان کرنا غیبت ہے۔
(د) خواب دیکھنے والے کی قدر و منزلت اور اس کی ھئیت و صورت کے لحاظ سے خواب کی تعبیر مختلف ہو جاتی ہے۔ ہر شخص کے خواب کی اس کے مقام و مرتبہ اور صورت حال کی مناسبت سے تعبیر کی جانی چاہیے۔
ایک ہی خواب ایک شخص کے لیے باعث رحمت اور دوسرے شخص کے لیے باعث عذاب
بھی ہو سکتا ہے۔
ایک آدمی نے امام ابن سیرین رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں
اذان کہتے ہوئے سنا ہے تو وہ فرمانے لگے :
”تم حج کرو گے۔“
ایک دوسرے شخص نے بھی یہی خواب سنایا، تو انہوں نے کہا:
چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ جب ان دو مختلف تعبیروں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ
میں نے پہلے شخص کو بہتر عملی حالت میں دیکھا تو میں نے اس کی تعبیر باری تعالیٰٰ کے اس فرمان سے کر دی :
«وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ » [22-الحج:27]
”لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔“
جبکہ دوسرے شخص کی حالت ناپسندیدہ دیکھی تو میں نے اللہ تعالیٰٰ کے اس فرمان کی روشنی میں اس کی تعبیر کی :
«ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ » [12-يوسف:70]
”پھر ایک منادی نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اے قافلے والو ! تم چور ہو۔“
امام ابن سیرین رحمہ اللہ منبر پر تقریر کرنے کی تعبیر حکمرانی ملنے کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن
اگر خواب دیکھنے والا اس کا اہل نہ ہو تو اس کی تعبیر ”پھانسی“ کے ساتھ کرتے تھے۔
(ح) بسا اوقات اس طرح بھی ہوتا کہ خواب تو بچہ دیکھتا ہے لیکن اس کا مصداق اس کے
والدین میں سے کوئی ایک ہوتا ہے۔ یا نوکر کے خواب کی تعبیر اس کے مالک سے تعلق رکھتی ہے، یا بیوی کا خواب اپنے خاوند یا افراد خانہ سے تعلق ہوتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply