عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کی عید ہیں
❀ « عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل ابوبكر وعندي جاريتان من جواري الانصار تغنيان بما تقاولت الانصار يوم بعاث، قالت: وليستا بمغنيتين، فقال ابوبكر: امزامير الشيطان فى بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وذلك فى يوم عيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” يا ابا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا”.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بعاث کے دن کا شعر گا رہی تھیں، اور ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجا؟ اور وہ عید کا دن تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہم لوگوں کی عید ہے۔“ [بخاري 952، مسلم 892:19]
❀ « عن انس رضى الله عنه، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال:” ما هذان اليومان؟” قالوا: كنا نلعب فيهما فى الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن الله قد ابدلكم بهما خيرا منهما: يوم الاضحى، ويوم الفطر”.»
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ہجرت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اہل مدینہ نے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ دو دن کیسے ہیں؟“ انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے ان دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں : ایک اضحی کا دن اور دوسرا فطر کا دن۔“ [سنن ابوداود 134، سنن نسائي 1556، صحيح]
عید کے دن تکبیر کہنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
✿ « وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ » [البقرة: 185]
تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو، اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
❀ «عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أنه كان إذا غدا يوم الأضحى ويوم الفطر يجهر بالتكبير، حتى يأتي المصلى، ثم يكبر حتى يأتي الإمام»
حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الاضحی اور عید الفطر کے دن جب (عید گاہ کے لیے) نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے، یہاں تک کہ عید گاہ آتے، پھر تکبیر کہتے رہے یہاں تک کہ امام آ جاتا۔ [سنن الدار قطني 1716، صحيح]
❀ «عن الزهري رحمه الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج يوم الفطر، فيكبر حتى يأتي المصلي، وحتى يقضي الصلاة، فإذا قضى الصلاة، قطع التكبير. »
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر کے دن نکلتے، اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ عید گاہ آتے اور نماز ادا کرتے، نماز کے بعد آپ تکبیر کہنا بند کر دیتے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 5621، صحيح ارواء الغليل 123/3]
نوٹ: عید کی رات غروب آفتاب کے بعد سے نماز عید تک تکبیر کہنا مسنون ہے۔ مردوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ بازاروں، گھروں، راستوں، مسجدوں اور عام بیٹھکوں میں بلند آواز سے تکبیر کہیں۔ اس طرح اس سنت کا اظہار و احیاء بھی ہو گا اور سلف صالحین کے طریقے پر عمل بھی۔ جبکہ عورتیں اگر تنہائی میں ہوں تو بلند آواز میں اور اگر اپنی مر دوں کے آس پاس ہوں تو دھیمے سے تکبیر کہیں گی۔ تکبیر کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان کرتے ہیں، اپنی بندگی و عبودیت کا اظہار کرتے ہیں، اور روزہ تراویح کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمت بخشی تھی اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔
تکبیر کے الفاظ:
❀ «عن شريك، قال: قلت لأبي إسحاق : كيف كان يكبر على رضي الله عنه، وعبد الله رضي الله عنه؟ قال: كانا يقولان : الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد» .
شریک فرماتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تکبیر کیسے کہتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ دونوں کہا کرتے تھے : «الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد. » [مصنف ابن ابي شيبه 5653، صحيح]
❀ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ان الفاظ میں تکبیر کہا کرتے تہے : «الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد، الله أكبر وأجل، الله أكبر على ما هدانا.» [السنن الكبري للبيهقي 6280، صحيح]
نوٹ: تکبیر کے ان الفاظ اور دیگر ثابت شدہ الفاظ میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
عید کے لیے غسل کرنا
❀ «عن نافع، أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما كان يغتسل يوم الفطر قبل أن يغدو إلى المصلي. »
حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کرتے تھے۔ [موطا امام مالك، كتاب العيدين، 2]
❀ «قيل لنافع: كيف كان ابن عمر رضي الله عنهما يصنع يوم العيد؟ قال: كان يشهد صلاة الفجر مع الإمام، ثم يرجع إلى بيته، فيغتسل غسله من الجنابة، ويلبس أحسن ثيابه، ويتطيب بأطيب ما عنده، ثم يخرج حتى يأتي المصلي »
حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا عید کے دن کیا معمول تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: ”وہ امام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے، پھر گھر واپس آتے اور غسل فرماتے، اور عمده ترین لباس زیب تن فرماتے، اور سب سے اچھی خوشبو لگاتے، پھر عید گاہ کے لیے نکلتے۔“ [مسند الحارث 207، حسن]
نوٹ: علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ عید کے دن غسل کرے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن غسل کرتے تھے۔ یہ عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ [المغني 274/2]
عید کے لیے آراستہ ہونا
❀ «عن ن عبد الله بن عمر قال: اخذ عمر رضى الله عنه جبة من إستبرق تباع فى السوق فاخذها، فاتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ابتع هذه تجمل بها للعيد والوفود، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إنما هذه لباس من لا خلاق له فلبث عمر رضى الله عنه ما شاء الله ان يلبث، ثم ارسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج، فاقبل بها عمر رضى الله عنه، فاتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إنك قلت إنما هذه لباس من لا خلاق له وارسلت إلى بهذه الجبة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: تبيعها او تصيب بها حاجتك”.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جبہ لیاجو بازار میں بک رہا تھا، اور اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ اسے خرید لیں، اور عید اور وفد کے آنے کے دن اسے پہن کر اپنے کو آراستہ کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔“ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی طرح کچھ دن رہے۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے تو فرمایا تھا کہ یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جبہ میرے پاس بھیجا؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے بیچ دو، یا اس کے ذریعے اپنی (کوئی دوسری) ضرورت پوری کرو۔“ [بخاري 948، مسلم 2068/8]
نوٹ: اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عید کے دن آراستہ ہونا اور عمده کپڑا پہننا چاہیے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن کے لیے ایک عمدہ جوڑا خریدنے کی بات کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی، اور اسے لینے سے صرف اس وجہ سے منع کر دیا کیونکہ وہ کپڑا ریشمی تھا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے لیے اپنا خوبصورت ترین لباس پہنا کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مخصوص جوڑا تھا جسے آپ عیدین اور جمعہ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ [زاد المعاد ا 425]
عید گاہ جانے سے پہلے کچھ کھانا
❀ « عن انس بن مالك رضي الله عنهما، قال:” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى ياكل تمرات”
وفي رواية وياكلهن وترا. »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر کے دن کھجوریں کھائے بغیر (عید گاہ) نہیں جاتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔ [صحيح بخاري 953]
❀ «عن بريدة رضي الله عنه، قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم، ولا يطعم يوم الأضحى حتى يصلي. »
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر کے دن عید گاہ کے لیے نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھا لیں، اور عید الاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ نماز عید ادا کر لیں۔ سنن ترمذی 542، [سنن ابن ماجه 1756، صحيح ]
عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ جانا
❀ « عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلي. »
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے۔“ [صحيح بخاري 956، صحيح مسلم 889]
نوٹ : مسنون اور افضل یہی ہے کہ عید کی نماز شہر سے باہر عیدگاہ میں جا کر ادا کی جائے۔ البته اگر بارش ہو رہی ہو یا کوئی دوسرا عذر ہو تو عید کی نماز مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے۔
عید گاہ پیدل جانا
❀ « عن ابن عمر رضي الله عنها، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إلى العيد ماشيا، ويرجع ماشيا. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے اور پیدل واپس آتے۔ [سنن ابن ماجه 1295، حسن]
نوٹ: عید گاہ پیدل جانا مسنون اور افضل ہے، البتہ اگر عید گاہ دور ہو، یا کوئی عمر دراز آدمی ہو جسے پیدل جانے میں مشقت ہو، یا بیمار ہو، یا کوئی اور عذر ہو تو سواری پر عید گاہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عید گاہ آنے اور جانے کا راستہ تبدیل کرنا
❀ «عن جابر بن عبد رضي الله عنهما، قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق. »
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عید کے دن عید گاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري 989]
عیدین کی نماز کا تاکیدی حکم
❀ «عن ام عطية، قالت: ” امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نخرجهن فى الفطر والاضحى: العواتق والحيض وذوات الخدور، فاما الحيض فيعتزلن الصلاة ويشهدن الخير ودعوة المسلمين "، قلت: يا رسول الله إحدانا لا يكون لها جلباب، قال: ” لتلبسها اختها من جلبابها ".»
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں نوجوان، ماہواری میں مبتلا اور پردہ نشین خواتین کو لائیں، البتہ ماہواری میں مبتلا خواتین نماز نہ پڑھیں، بلکہ مسلمانوں کے ساتھ دعائے خیر میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہو تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی سہیلی اسے اپنے جلباب میں لے لے۔“ [صحيح مسلم 890: 12]
عیدین کی نماز کے لیے اذان واقامت کا حکم
❀ «عن جابر بن سميرة رضي الله عنه، قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العيدين، غير مرة ولا مرتين، بغير أذان ولا إقامة. »
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہا عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت کے پڑھی۔ [صحيح مسلم 887]
عیدین کی نماز کے ساتھ نفل نماز کا حکم
❀ « عن ابن عباس رضي الله عنهما : أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى يوم الفطر ركعتين، لم يصل قبلها ولا بعدها »
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعت عید کی نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے کوئی (نفل) نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ [صحيح بخاري 964 صحيح مسلم 884: 13]
عیدین کی رکعات کی تعداد
❀ « عن عمر رضي الله عنه، قال: صلاه السفر ركعتان، وصلاة الجمعة ركعتان، والفطر والأضحى ركعتان، تمام غير قصر، على لسان محمد صلى الله عليه وسلم . »
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں، جمعہ کی نماز دو رکعتیں ہیں، فطر اور اضحی کی نماز دو رکعتیں ہیں، (ان نمازوں کی یہ دو رکعتیں) مکلمل ہیں، قصر نہیں۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہیں۔ [سنن ابن ماجه 1064، صحيح]
عیدین کی نماز میں تکبیرات زوائد کی تعداد
❀ «عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم” كان يكبر فى الفطر والاضحى فى الاولى سبع تكبيرات، وفي الثانية خمسا”.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر اور عید الاضحی میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے، اور دوسری رکعت میں پانچ۔“ [سنن ابوداود 1149، سنن ابن ماجه 1280، حسن]
❀ «عن علقمة، والأسود بن يزيد، أن ابن مسعود رضى الله عنه كان يكبر فى اليدين تسعا تسعا، أربعا قبل القراءة، ثم كبر فركع، وفي الثانية يقرأ، فإذا كبر أربعا، ثم ركع. »
علقمہ اور اسود فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عیدین میں نو نو تکبیریں کہتے، (پہلی رکعت میں) قراءت سے پہلے چار تکبیریں کہتے، پھر (قراءت کے بعد) تکبیر کہہ کر رکوع کرتے، اور دوسری رکعت میں قراءت کرتے، اور جب اس سے فارغ ہوتے تو چار تکبیریں کہتے، پھر رکوع کرتے۔“ [مصنف عبد الرزاق 5686، صحيح سلسلة الأحاديث الصحيح 1261/6]
نوٹ: پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے کی چار تکبیروں میں تکبیر تحریمہ شامل ہے، اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد کی چار تکبیروں میں تکبیر رکوع شامل ہے، اس طرح ہر رکعت میں تکبیرات زوائد تین تین ہوئیں۔
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے دونوں اقوال ذکر کرنے کے بعد سب کو جائز قرار دیا، اور کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ اختلاف (دونوں اقوال کو) مباح قرار دینے والا ہے، اور اس میں اس جانب اشارہ ہے کہ اس مسئلے میں وسعت و کشادگی ہے۔ [الاستذكار 2/ 397]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”صحیح بات یہ ہے کہ تکبیرات عیدین کے معاملے میں بڑی گنجائش ہے، جو چاہے چار چار کہے، اور جو چاہے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ کہے۔ یہ سب جائز ہے، اور ان میں سے جس پر بھی عمل کر لے تو سنت کے مطابق عمل کیا۔ تعصب اور فرقہ بندی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ سات اور پانچ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اس کی روایتیں زیادہ ہیں۔ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1263/6، 126]
نماز عید میں مسنون قراءت
❀ « عن أبى واقد الليثي الله عنه، قال: سألني عمر بن الخطاب رضي الله عنه: عما قرا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فى يوم العيد؟ فقلت : ب ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ﴾ ، و ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ﴾ .»
❀ «وفي رواية: ما كان يقرأ به رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الأضحى والفطر؟ فقال: كان يقرأ فيهما ب ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ﴾ و ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴾ »
حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ تو میں نے کہا: سورہ قمر اور سورہ ق۔ [صحيح مسلم 891: 15]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اضحی اور فطر کی نماز میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے ؟ تو حضرت ابوواقد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”سوره ق اور سورہ قمر۔“ [صحيح مسلم 891: 14]
❀ «عن النعمان بن بشير رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ فى العيدين، وفي الجمعة ب ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴾ ، و ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴾ ، قال: وإذا اجتمع العيد والجمعة، فى يوم واحد، يقرأ بهما أيضا فى الصلاتين. »
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ پڑھتے تھے، فرماتے ہیں کہ ”اور اگر عید اور جمعہ دونوں ایک دن میں جمع ہو جاتے تو دونوں نمازوں میں ان دونوں سورتوں کو پڑھتے۔“ [صحيح مسلم 878:62]
خطبے سے پہلے نماز
❀ « عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:” شهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر، وعثمان رضي الله عنهم فكلهم كانوا يصلون قبل الخطبة”.»
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید کی نماز پڑھی، یہ تمام حضرات خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري 962، صحيح مسلم 884: 1]
❀ «عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم،وأبو بكر وعمر رضي الله عنهما، يصلون العيدين قبل الخطبة. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبے سے پہلے عیدین کی نماز پڑھتے تھے۔“ [صحيح بخاري 963، صحيح مسلم 888]
عید کی مبارک باد دینا
❀ « عن محمد بن زياد، قال: كنت مع أبى أمامة الباهلي رضى الله عنه وغير من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك. »
محمد بن زیاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا ہوں، یہ حضرات جب نماز عید سے لوٹتے تو ایک دوسرے سے کہتے : «تقبل الله منا ومنك» اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے۔ [الجوهر النقي 3/ 320]
امام احمد نے اس کی سند کو ”جید“ عمدہ قرار دیا ہے۔ [المغني 296/2]
❀ «عن جبير بن نفير، قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا منك. »
جبیر بن نفیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”صحابه کرام رضی اللہ عنہم کی عید کے دن جب باہم ملاقات ہوتی تو ایک دوسرے سے کہتے: «تقبل الله منا ومنک» اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے۔“ [فتح الباري لابن حجر 446/2، حسن]
نوٹ: امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ لوگ عید کے دن ایک دوسرے کو «تقبل الله منا ومنك» کہیں۔ [مغني 295/2]
اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے عید کی مبارک باد دینے کے بارے میں استفسار کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: ”نماز عید کے بعد «تقبل الله منا ومنكم» (اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے) اور «أحاله الله عليك » (اللہ تعالیٰ یہ مبارک دن آپ کی زندگی میں بار بار لائے) جیسی دعاؤں کے ذریعے مبارک باد دینا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہوا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ ائمہ کرام رحمہ اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ [مجموع فتاوي 253/24]
چنانچہ ان کلمات اور ان کے علاوہ دیگر کلمات اور دعاؤں سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو۔
عید کے دن کھیلنا، کودنا اور خوشیاں منانا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، فدخل ابوبكر رضى الله عنه فانتهرني، وقال: مزمار الشيطان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ” دعهما "، فلما غفل غمزتهما فخرجتا، وكان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب، فإما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإما قال: ” تشتهين تنظرين "، فقلت: نعم، فاقامني وراءه خدي على خده، وهو يقول: ” دونكم يا بني ارفدة "، حتى إذا مللت، قال: ” حسبك "، قلت: نعم، قال: ” فاذهبي ".»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے متعلق گیت گا رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو مجھے ڈانٹا اور کہا کہ یہ شیطانی باجا اور وہ بھی انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کو چھوڑ دو، پھر جب وہ دوسری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے ان دونوں لڑکیوں کو (چلے جانے کا) اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں۔ اور عید کے دن حبشی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، تو یا تو میں نے آپ سے درخواست کی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دیکھنا چاہتی ہو ؟“ تو میں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی ارفده! تماشہ دکھاؤ“، یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”بس ؟“ تو میں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب چلی جاؤ۔“ [صحيح بخاري 949، 950، صحيح مسلم 892 : 19]
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: بينا الحبشه يلعبون عند النبى صلى الله عليه وسلم بجرابهم، دخل عمر رضي الله عنه، فأهوى إلى الحصى فحبصهم بها، فقال: دعهم يا عمر). »
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حبشی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے نیزوں سے کھیل رہے تھے، اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے، تو انہوں نے کنکریاں اٹھائیں اور ان لوگوں کو مارا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! انہیں رہنے دو۔“ [
صحيح بخاري 2901، صحيح مسلم 893۔]