صحیح دلیل اور عقل و حکمت کے بغیر گزشتہ زمانے کے لوگوں کے عمل کو دلیل بنانا اہل جاہلیت کا شیوہ تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے باطل قرار دیا :
قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَى ٭ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى ٭ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى ٭ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى ٭ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى ٭ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ [20-طه:49]
”(فرعون نے کہا) کون ہے تم دونوں کا رب اے موسیٰ، کہا : ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی تو کیا پہلی جماعتوں کا کیا حال رہا کہا ان کا علم میرے پروردگار کو ہے جو کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ میرا پروردگار نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے وہ وہی تو ہے جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کا فرش بنایا اور اس میں تمہارے لیے رستے جاری کئے اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس میں انواع و اقسام کی روئیدگیاں پیدا کیں۔ کھاؤ اور اپنے چارپایوں کو بھی چراؤ۔ “
نیز فرمایا :
فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسَى بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَـذَا إِلَّا سِحْرٌ مُفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَـذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ٭ وَقَالَ مُوسَى رَبِّي أَعْلَمُ بِمَنْ جَاءَ بِالْهُدَى مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ [ 28-القصص:36]
” اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کھڑا کیا ہے اور یہ بات تو ہم نے اگلے باپ دادا میں تو کبھی نہیں سنی اور موسیٰ نے کہا میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے حق لے کر آیا ہے اور جس کے لئے عاقبت کا گھر ہے بیشک ظالم نجات نہ پائیں گے۔ “
نیز فرمایا :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ ٭ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَـذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَـذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ٭ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ [ 23-المؤمنون:23 ]
” اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان سے کہا اے قوم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے یہ تو ہم جیسا آدمی ہے تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے اتار دیتا ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو یہ بات کبھی نہیں سنی تھی اس آدمی کو تو دیوانگی کا عارضہ ہے تو اس کے بارے میں کچھ مدت انتظار کرو۔“
نیز فرمایا :
وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴿٦﴾ مَا سَمِعْنَا بِهَـذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ [ 38-ص:6]
” تو ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے (اور بولے) کہ چلو اور اپنے معبودوں کی پوجا پر قائم رہو۔ بیشک یہ ایسی بات ہے جس سے تم پر فضیلت مقصود ہے یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی نہیں سنی یہ بلکہ بنائی ہوئی بات ہے۔ “
ان کے نزدیک انبیاء کرام کی ہدایت کے قابل قبول نہ ہونے کی دلیل یہ تھی کہ ان کے آباؤ و اجداد اس طریقے پر عمل پیرا نہیں تھے۔ غور فرمائیے ان کا طریقہ کتنا غلط تھا اور وہ کیسے جامد ہو کر رہ گئے تھے اگر ان کی آنکھیں روشن ہوتیں اور کانوں میں سماعت ہوتی تو وہ ضرور حق کو اس کی دلیل سے پہچان لیتے، اور بغیر کسی کٹ حجتی کے حق کے سامنے جھک جاتے انہی جیسا حال ان کے خلاف ان کے وارثوں کا ہے دونوں کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں۔