سوال:
موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے درمیان ( مبارزت ) کیسے مکمل ہوئی ؟
جواب :
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿٧٩﴾ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴿٨٠﴾
”اور فرعون نے کہا: میرے پاس ہر ماہر فن جادوگر لے کر آو۔ تو جب جادوگر آ گئے تو موسیٰ نے ان سے کہا : پھینکو جو کچھ تم پھینکنے والے ہو۔“ [يونس: 80 , 79 ]
فرعون کا مقصد تھا کہ وہ حق کو ابھرنے نہ دے اور شعبدہ بازوں اور جادوگروں کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرے، لیکن اس کا مقصد ناتمام رہا اور موسیٰ علیہ السلام دلائل و براہین کے ذریعے اس پر غالب آ گئے۔
جب جادوگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تو بڑے فخر و غرور اور تکبر میں تھے، کیوں کہ فرعون کی طرف سے انھیں تقرب اور عنایت خاص کا وعدہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو آ کر کہنے لگے :
فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ
”تو جادوگر گرا دیے گئے، اس حال میں کہ سجدہ کرنے والے تھے، انھوں نے کہا : ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔“ [طه: 70]
فرعون نے تو سمجھا تھا کہ وہ تمام راز جاننے والی ہستی (اللہ) کے رسول پر جادوگروں کی مدد سے غالب آئے گا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہوا اور جنت کا نقصان کر کے آگ کو اپنے اوپر واجب کر لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا تھا : ڈالو (جو کچھ ڈالنا ہے ) اس لیے کہ جب ان کا انتخاب ہوا تھا تو انھیں فرعون کے تقرب اور بڑے انعام کا وعدہ دیا گیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اراده کیا کہ ابتداء ان سے ہو، تاکہ لوگ ان کی کاریگری دیکھیں، پھر اس کے بعد حق آئے اور ان کے باطل کو کاری ضرب لگائے۔ اسی لیے جب انھوں نے اپنی رسیاں وغیرہ ڈالیں، لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انھیں خوف دلا دیا اور وہ ایک بڑا جادو لائے تھے۔
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ ﴿٦٧﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ ﴿٦٨﴾ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ ﴿٦٩﴾
”تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا، ہم نے کہا خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب ہے۔ اور پھینک جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے، وہ نگل جائے گا جو کچھ انھوں نے بتایا ہے، بے شک انھوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادوگر کی چال ہے اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آئے۔“ [ طه:67 , 69]
پھر جب انھوں نے رسیاں وغیرہ ڈالیں تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے یہ بھی کہا:
فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨١﴾
”تو جب انھوں نے پھینکا، موسیٰ نے کہا تو جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے، یقیناً اللہ اسے جلدی باطل کر دے گا۔ بے شک اللہ مفسدوں کا کام درست نہیں کرتا۔“ [يونس: 81 ]
قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴿١١٦﴾
”کہا تم پھینکو۔ تو جب انھوں نے پھینکا، لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انھیں سخت خوف زدہ کر دیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔“ [الأعراف: 116]
جادوگروں کا موسیٰ علیہ السلام کے لیے مبارزت کا اظہار ان کے اس قول میں ہے۔
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ
”انھوں نے کہا : اے موسیٰ ! یا تو تو پھینکے، یا ہم ہی پھینکنے والے ہوں۔“ [ الأعراف: 115 ]
یعنی ہم آپ سے پہلے ڈالیں، موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا : تم پہلے ڈال لو، کہا گیا ہے کہ اس میں حکمت یہ تھی کہ لوگ ان کے کارناموں کو دیکھیں اور اس پر غور کر لیں، پھر جب وہ ان کے مزین جھوٹ کو دیکھنے سے فارغ ہو جائیں تو انتظار و طلب کے بعد ان کے پاس واضح حق آ جائے، تا کہ وہ صحیح طرح سے ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے اور پھر ایسے ہی ہوا۔
قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ
”کہا تم پھینکو۔ تو جب انھوں نے پھینکا لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انہیں سخت خوف زدہ کر دیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔ “ [الأعراف: 116]
یعنی انھوں نے لوگوں کی آنکھوں کو اس تخیل میں ڈال دیا کہ وہ سمجھیں حقیقت میں بھی ایسے ہی ہے۔ جادوگروں نے موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں پھینکیں اور لوگوں کو اپنے جادو سے یہ دکھلایا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ دونوں اطراف میں 15 ہزار جادوگر تھے اور ہر جادوگر کے پاس اس کی رسیاں اور لاٹھیاں تھیں اور وہ تمام لوگوں کے سامنے اپنا جادو دکھانے کے لیے تیار تھے۔
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿١١٧﴾ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿١١٩﴾
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی پھینک، تو اچانک وہ ان چیزوں کو نگلنے لگی، جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے۔ پس حق ثابت ہو گیا اور باطل ہو گیا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ تو اس موقع پر وہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر واپس ہوئے۔“ [الأعراف:117 , 119 ]
یعنی اس عظیم موقعے پر جس نے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا، اپنے بندے موسی علیہ السلام کی طرف یہ وحی کی کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی لاٹھی کو پھینک دیں، پھر جب موسی علیہ السلام نے لاٹھی پھینکی تو وہ ان تمام رسیوں اور لکڑیوں کو نگلنے لگی جنہیں انھوں نے بذریہ جادو پھینکا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ کوئی آسمانی چیز ہے۔ پھر وہ سجدے میں گر گئے اور کہنے لگے :
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٢﴾
”انھوں نے کہا: ہم جہانوں کے رب پر ایمان لائے۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔“ [الأعراف: 122 121 ]
پھر اسی حالت میں انھوں نے جنت اور جہنم اور ان میں رہنے والوں کا اجر دیکھا، پھر سر اٹھایا۔
قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ ﴿٦٦﴾
”کہا بلکہ تم پھینکو، تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا، ان کے جادو کی وجہ سے کہ واقعی وہ دوڑ رہی ہیں۔“ [طه: 66 ]
یعنی تم پہلے پھینکو، تاکہ ہم دیکھیں تم جادو کا کون سا کارنامہ کرتے ہو اور تا کہ لوگ بھی دیکھ لیں کہ ان کا معاملہ کتنا کچھ بڑا ہے۔ یہ اس طرح سے ہوا کہ انھوں نے ان رسیوں وغیرہ میں پارہ لگا دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ اس انداز سے حرکت کرتیں اور بل کھاتیں تھیں کہ دیکھنے والے کو گمان ہوتا کہ وہ اپنے اختیار سے دوڑ رہی ہیں۔ درحقیقت وہ صرف ایک حیلہ تھا اور ان کی بہت بڑی جماعت تھی۔ ہر ایک نے جب اپنی لاٹھی اور رسی پھینکی تو وادی سانپوں سے بھر گئی اور وہ سانپ ایک دوسرے پر سوار نظر آنے لگے۔
وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ ﴿٦٩﴾
”اور پھینک جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے، وہ نگل جائے گا جو کچھ انھوں نے بنایا ہے، بے شک انھوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادوگر کی چال ہے اور جادوگر کا میاب نہیں ہوتا جہاں بھی آئے۔ “ [ط: 69]
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت موسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اپنے ہاتھ میں موجود لاٹھی کو پھینک دو۔ اچانک وہ ان کے کیے کو اچکنے لگی اور یہ ایسے ہوا کہ وہ ایک بڑا اژدھا بن گئی، جس کی ٹانگیں، گردن، سر اور ڈاڑھیں بالکل عیاں تھے، اس نے ان رسیوں اور لاٹھیوں کا تعاقب کیا اور کوئی ری اور لاٹھی نہ چھوڑی، جسے اس نے چبایا نہ ہو۔ جادوگر اور تمام لوگ دن چڑھے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ پس اللہ کی طرف سے یہ ایک معجزہ تھا اور واضح دلیل تھی، چنانچہ جادوگروں کا کیا باطل ہو گیا۔
فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ ﴿٧٠﴾
تو جادوگر گرا دیے گئے، اس حال میں کہ سجدہ کرنے والے تھے۔ انھوں نے کہا: ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ [ طه: 70 ]
پھر جب جادوگروں نے اس کا معاینه و مشاہدہ کر لیا اور وہ جادو کے فنون اور طور طریقوں سے باخبر بھی تھے تو انھیں یقینی علم حاصل ہوا کہ یہ کام جو موسیٰ علیہ السلام نے کیا ہے، جادو اور حیلوں کی قبیل سے نہیں ہے، بلکہ وہ ایسا حق ہے، جس میں کوئی شک نہیں اور اس پر اس ہستی کے بغیر کوئی دوسرا قدرت نہیں رکھتا، جو كن کہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے۔ پھر اس وقت وہ سارے اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے۔ اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى اسی وجہ سے وہ دن کے آغاز میں جادوگر تھے اور دن کے آخر میں توحید کی گواہی دینے والے نیکوکار تھے۔
قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ﴿٧١﴾
”کہا تم اس پر اس سے پہلے ایمان لے آئے کہ میں تمھیں اجازت دوں، یقیناً یہ تو تمھارا بڑا ہے جس نے تمھیں جادو سکھایا ہے، پس یقیناً میں ہر صورت تمھارے ہاتھ اور تمھارے پاؤں مخالف سمت سے بری طرح سولی دوں گا اور یقیناً تم ضرور جان لو گے کہ ہم میں سے کون عذاب دینے میں زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ “ [ طه: 71 ]
اللہ تعالیٰ فرعون اور اس کے عناد، بغاوت اور باطل پر اکڑنے کے بارے میں خبر دی کہ اس نے اتنا واضح معجزہ اور اتنی بڑی نشانی دیکھ لی اور ان لوگوں کو بھی دیکھ لیا، جن سے اس نے مدد مانگی تھی کہ وہ تمام لوگوں کی موجودگی میں ایمان لے آئے تھے، پھر بھی اس نے حق کو قبول نہ کیا، الٹا ان لوگوں سے کہنے لگا : کیا تم نے اس کی تصدیق کر لی ہے، قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ یعنی اس سے پہلے کہ تمہیں اس کا حکم دیتا اور تم مجھ سے اس پر کوئی بات کرتے، تم ایمان لے آئے اور اس نے ایسی بات کہی جسے وہ خود، جادوگر اور تمام لوگ جانتے تھے کہ یہ بات جھوٹی ہے (اور وہ بات یہ تھی کہ ) تم نے یہ جادو موسیٰ سے سیکھا ہے اور میرے اور میری رعایا کے خلاف تمھارا اور موسیٰ کا پہلے ہی سے اتفاق تھا۔
إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿٧٣﴾
” بے شک ہم اپنے رب پر اس لیے ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ہماری خطائیں بخش دے اور جادو کے وہ کام بھی جن پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے اور اللہ بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ “ [طه: 73]
یعنی ہم جن گناہوں میں مصروف تھے اور بالخصوص جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا لیکن وہ جادو جس کے ساتھ ہم اللہ کی نشانی اور اس کے نبی کا مقابلہ کریں، ہم نے اس سے توبہ کی۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس جوانوں کا انتخاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ عوماء نامی جگہ پر جادو سیکھیں اور اس نے جادوگروں سے کہا کہ انھیں ایسی تعلیم دو، جس سے اہل ارض میں سے ان پر کوئی غالب نہ آ سکے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’وہی جوان تھے جنھوں نے کہا تھا :
إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ