سوال : اسلام میں اوقات نماز کے کیا احکام ہیں ؟ ان کے معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اور کیا اوقات معلوم کرنے کے لیے سایہ زوال منہا کیا جائے گا یا شامل ؟ تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ نے ہر نماز اس کے اپنے وقت میں فرض کی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَوْقُوْتًا﴾ [النساء : 103]
”بلاشبہ نماز مومنوں پر وقتِ مقررہ میں فرض کی گئی ہے۔ “
اس آیتِ کریمہ سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز اس کے مقررہ وقت میں ادا کرنا ضروری ہے۔ اجمالی طور پر اوقاتِ نماز کو اس آیت میں ذکر کر دیا گیا ہے اور قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر اوّل و آخر وقت کے تعین کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اوقاتِ نماز کو بیان کیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ﴾ [ هود : 114]
”دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی گھڑیوں میں بھی۔ “
اس آیتِ کریمہ میں طَرَفَيِ النَّهَارِ سے مراد صبح اور ظہر و عصر کی نماز اور زُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ سے مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے۔ [ مرعاة المفاتيح 271/2 ]
ایک مقام پر فرمایا :
﴿أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ إِلٰى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا﴾ [ بني اسرائيل : 78 ]
”نماز قائم کریں سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناًً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔ “
اس آیت میں لِدُلُوْكِ کے معنی زوالِ آفتاب اور غَسَقٍ کے معنی تاریکی کے ہیں۔ زوال آفتاب کے بعد ظہر و عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قُرْآنَ الْفَجْرِ سے مراد نمازِ فجر ہے۔
یہاں قرآن نماز کے معنی میں ہے، اس کو قرآن سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَسُبْحَانَ اللهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ٭ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ﴾ [ الروم : 17۔ 18 ]
”پس تم صبح و شام اللہ کی تسبیح کیا کرو، آسمانوں اور زمینوں میں تعریف اسی کی ہے۔ تیسرے پہر اور ظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔ “
اس آیت کریمہ میں بھی بعض مفسرین نے تسبیح سے نماز مراد لی ہے اور تُمْسُوْنَ میں مغرب وعشاء، تُصْبِحُوْنَ
میں نمازِ فجر، عَشِيًّا میں سہ پہر یعنی عصر اور تُظْهِرُوْنَ میں نمازِ ظہر مراد ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا وَمِنْ آنَآءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ﴾ [طٰهٰ : 130 ]
”سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو اور رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتے رہیں، بہت ممکن ہے کہ آپ راضی ہو جائیں“۔
اس آیت میں بعض مفسرین نے تسبیح سے نماز مراد لی ہے۔ طلوع شمس سے قبل فجر، غروب سے قبل عصر، رات کی گھڑیوں سے مراد مغرب وعشاء اور اطراف النهار سے مراد نماز ظہر لی ہے کیونکہ ظہر کا وقت نہار اوّل کا آخری طرف اور نہار آخر کا اوّل طرف ہے۔ مزید دیکھیں : [مرعاة المفاتيح 284/2 ]
ان واضح آیات میں اجمالی طور پر اوقاتِ نماز کو بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک صحیح احادیث میں نمازوں کے اوقات کی ابتدا و انتہا کو متعین کر دیا گیا ہے۔
فجر کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ ظہر کا وقت زوالِ آفتاب سے لے کر ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہونے تک ہے اور عصر کا وقت مثل اوّل سے لے کر دو مثل تک اور مغرب غروب آفتاب سے لے کر شفق کے غائب ہونے تک ہے اور عشاء شفق کے غائب ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ، مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ، مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ، مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ [مسلم كتاب الصلوة : باب اوقات الصلوات الخمس 1388]
”ظہر کا وقت جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کی مثل ہو جائے اور عصر کی نماز کا وقت نہ ہو اور عصر کا (آخری) وقت جب تک سورج زرد نہ ہو جائے اور مغرب کا جب تک سرخی غائب نہ ہو اور عشاء کا وقت رات کے نصف تک اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔ جب آفتاب نکلنا شروع ہو جائے تو نماز سے رُک جا کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ “
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ [ترمذي، أبواب الصلاة : باب مواقيت الصلاة 151 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بے شک ہر نماز کے لیے ایک ابتدائی وقت ہے اور ایک انتہائی وقت ہے۔ نماز ظہر کا ابتدائی وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور آخری وقت (وہ ہے ) جب نماز عصر کا وقت شروع ہو، نماز عصر کا ابتدائی وقت وہی ہے جب یہ (ظہر کے اختتام کے ) وقت شروع ہوتا ہے اور آخری وقت جب سورج زرد ہو جائے۔ مغرب کا ابتدائی وقت جب سورج غروب ہو جائے اور آخری وقت جب شفق غائب ہو جائے۔ عشاء کا ابتدائی وقت جب شفق غائب ہو جائے اور آخری وقت جب آدھی رات گزر جائے۔ فجر کا پہلا وقت جب فجر طلوع ہو اور اس کا آخری وقت جب سورج طلوع ہو“۔
فجر کا ابتدائی وقت جب فجر طلوع ہو جائے اور آخری وقت جب سورج طلوع ہو جائے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک صحیح احادیث موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فجر کا اوّل وقت فجر صادق کے طلوع ہونے سے لے کر طلوعِ آفتاب تک ہے۔ ظہر کا اوّل وقت سورج ڈھلنے سے لے کر ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو جانے تک ہے اور عصر کا اوّل وقت ایک مثل سائے سے لے کر دو مثل تک ہے جب سورج زرد پڑ جائے۔ مغرب کا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر شفق یعنی شام کی سرخی غائب ہونے تک ہے اور عشاء کا وقت سرخی کے غائب ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ظہر کی نماز کے لیے مثل اوّل کی پہچان کا طریقہ کیا ہے اور زوال کا سایہ اس میں شامل ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جب آفتاب ڈھلنا شروع ہو جائے تو نمازِ ظہر کا اوّل وقت شروع ہو جاتا ہے اس سے پہلے نمازِ ظہر کی ابتدا بالکل جائز نہیں اور نہ وہ نماز کفایت ہی کرتی ہے۔ پھر نمازِ ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے تک باقی رہتا ہے۔ اس میں وہ اصلی سایہ شمار نہیں ہو گا جو زوال آفتاب کے وقت اس چیز کا تھا۔ البتہ اس سے جو زیادہ ہو گا وہ شمار ہو گا۔ [المحلي 346/2، طبع اردو ]
مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”سورج بعض علاقوں میں سیدھا سر کے اوپر سے گزرتا ہے اور بعض علاقوں میں خم کھا کر گزرتا ہے، اور موسم کے لحاظ سے بھی اس کی رفتار میں یہ فرق ظاہر ہوتا ہے۔ گرمی میں وہ سر کے قریب سے گزرتا ہے اور سردیوں میں ایک طرف زیادہ خم کھا کر گزرتا ہے۔ ان دونوں موسموں میں سایہ کا حساب الگ الگ ہوتا ہے۔ جن ممالک سے سورج خم کھائے بغیر گزرتا ہے وہاں دوپہر کے وقت جب سورج سر پر ہو تو ہر چیز کا سایہ اس کے قدموں میں ہوتا ہے ظاہر نہیں ہوتا۔ اس طرح گرمی کے موسم میں چونکہ سورج سر کے قریب ہوتا ہے اس لیے سایہ کم ہوتا ہے کیونکہ سورج کی رفتار میں خم اور انحراف کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سایہ عین دوپہر کے وقت بھی ہوتا ہے۔ سردیوں میں جیسے خم بڑھتا ہے سایہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ اسے سایہ اصلی کہا جاتا ہے، زوال کے بعد اس میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے مثل کا حساب کرنے کے وقت یہ سایہ الگ کر دیا جائے گا، اسے علیحدہ کرنے کے بعد جو سایہ ہو گا مثل یا دو مثل اس سے شمار ہو گا۔ “ [حاشية مشكوٰة المصابيح : 414/1۔ 415 ]
زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہو گا۔ یہی بات امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”فتاویٰ (74/22)“ میں، فقہ حنفی کی کتاب ”الھدایۃ (4/1)“ میں، فقہ شافعی کی کتاب ”المجموع (81/3)“ میں، فقہ حنبلی کی کتاب ”الروض المربع (42/1)“ میں موجود ہے۔ الغرض یہ بات متفق علیہ ہے کہ زوال کا سایہ نکال کر مثل کی پیمائش ہو گی۔
مثل معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے، اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ زوال کے وقت کم سے کم رہ جائے گا۔ اس سائے کو ماپ لیا جائے، جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہو گا کہ زوال ہو گیا ہے۔
پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے (زوال کے وقت لکڑی کا ماپا ہوا سایہ الگ کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہو جائے گا اور جب دو گنا ہو جائے تو دو مثل ہو جائے گا۔ [فقه السنة للشيخ عاصم الحداد 115/1 ]
ایک طریقہ یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ دوپہر کے وقت سے پہلے ایک یا دو بالشت زمین کی سطح ہموار کر کے اس پر شمالاً جنوباً ایک سیدھا خط کھینچ دیا جائے۔ قطب نما سے اس خط کی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ پھر اس خط کے جنوبی نقطہ پر ایک سیدھی لکڑی گاڑ دیں۔ چونکہ دوپہر سے پہلے کا وقت ہو گا لہٰذا اس لکڑی کا سایہ عین اس خط پر نہیں ہو گا بلکہ اس سے قدرے مغرب کی جانب مائل ہو گا، پھر آہستہ آہستہ اس خط پر آنا شروع ہو جائے گا حتی کہ بالکل اس خط پر آجائے گا۔ اس وقت اس سایہ کی انتہا پر نشان لگا دیں اور اس سایہ کو کسی اور لکڑی سے ماپ لیں اور یہ پیمانہ محفوظ کر لیں، یہ وقت عین دوپہر کا ہو گا۔ اس کے بعد وہ سایہ مشرق کی طرف بڑھنے لگے گا۔ یہ ظہر کا اوّل وقت ہو گا، پھر اس کے بعد جب سایہ بڑھتا جائے گا تو جس لکڑی کے ساتھ اصل سائے کی پیمائش کی تھی اس کے ساتھ اس کے اصل سائے کے نشان سے آگے ایک مثل جب سایہ ہو جائے گا تو وہ ظہر کا آخری وقت ہو گا اور عصر کا اوّل وقت۔
یہ طریقہ مثل معلوم کرنے کا ہے۔ اس کے لیے کچھ وقت نکال کر آپ تجربہ کریں اور شمسی مہینہ کے حساب سے ہر ماہ اگر
آپ تجربہ کرتے رہیں گے تو آپ کے پاس ایک سالانہ جنتری مرتب ہو جائے گی۔ عصرِ حاضر میں محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی کافی سہولت ہے اور مرتب شدہ جنتریاں بھی مل سکتی ہیں جن میں ٹائم کی صحیح نشاندہی ہوتی ہے۔ اگر اطمینان نہ ہو تو آدمی خود تجربہ کر کے مثل اوّل و مثل ثانی معلوم کر سکتا ہے۔