اللہ تعالیٰ کی طرف نقائص کو منسوب کرنا
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جو اس کے لیے نقص اور عیب کا باعث ہیں، جیسے اللہ کے لیے اولاد کا ہونا، اس کا محتاج ہونا،
کیونکہ نصاریٰ کہتے تھے کہ حضرت مسیح اللہ کا بیٹا ہیں، اور عربوں کا ایک گروہ کہتا تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اور کچھ فلاسفہ عقل کے پیدا ہونے کے قائل تھے۔ اور یہودی کہتے تھے کہ عزیر اللہ کے بیٹا تھے وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ان باتوں سے پاک قرار دیا اور سب کی نفی فرمائی، جیسا کہ ارشاد ہے :
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ٭ اللَّـهُ الصَّمَدُ ٭ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ٭ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ [112-الإخلاص:1]
”کہہ دو اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔“
اور فرمایا :
أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ٭ وَلَدَ اللَّـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ [37-الصافات:151]
” دیکھو یہ اپنی جھوٹ بنائی ہوئی بات کہتے ہیں کہ اللہ کے اولاد ہے اور بیشک یہ جھوٹے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ ٭ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [6-الأنعام:100]
”اور ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بے سمجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں بنا ڈالی ہیں وہ ان باتوں سے جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں پاک ہے اور اس کی شان ان سے بلند ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کے بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔“
یہ آیت ان تمام باتوں کی طرف عام ہے جو اس بارے میں بعض جماعتوں کی طرف سے کہی جاتی ہیں، مثلاً اللہ نے جو اپنے لیے بیٹا بنانے کی نفی کی تو یہ نفی تمام اولاد سازی کی قسموں کو شامل ہے یعنی صرف اللہ ہی نہیں، خواہ اللہ کے لیے کوئی بھی اولاد کا دعویٰ کرے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ابنیت کی بابت فرمایا :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [5-المائدة:18]
”یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہہ دیجئیے پھر وہ تمہیں تمہاری بداعمالیوں پر عذاب کیوں دیتا ہے، بلکہ تم اس کی مخلوقات میں صرف انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ ہی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“
سدی کی روایت ہے کہ بنی اسرائیل کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف وحی کیا کہ تمھارا لڑکا میرا پہلا لڑکا ہے میں لوگوں کو جہنم میں ڈالوں گا وہ اس میں چالیس دن رہیں گے، آگ ان کی خطاؤں کو کھا کر پاک و صاف کر دے گی پھر ایک منادی اعلان کرے گا کہ بنی اسرائیل کے تمام مختونوں کو جہنم سے نکالو۔
ان کی تردید میں اللہ نے فرمایا :
مَا اتَّخَذَ اللَّـهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـهٍ [23-المؤمنون:91]
”اللہ نے نہ کوئی لڑکا بنایا، نہ ہی اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے۔“
نیز فرمایا :
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا [17-الإسراء:111]
”اور کہو سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز و ناتواں ہے اس کا کوئی مددگار ہے۔“
نیز فرمایا :
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ٭ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا [25-الفرقان:1]
”بڑی بابرکت ذات ہے وہ جس نے یہ فیصلہ کی کتاب (قرآن) اپنے بندہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمائی تاکہ وہ تمام دنیا والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔ ایسی ذات جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہیں حکومت میں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا۔“
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ ٭ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ٭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ٭ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ [21-الأنبياء:26]
”اور یہ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے وہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں، وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کر سکتے اور وہ اسی کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں، اللہ جانتا ہے ان کے اگلے پچھلے احوال کو اور ان کے سوا کسی کی شفاعت نہیں کر سکتے جن کے لیے اللہ راضی ہو، اور وہ سب اللہ کی ہیبت سے ڈرتے ہیں اور جو ان میں سے یوں کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے۔ اور ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَقَالَ اللَّـهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَـهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ٭ وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَتَّقُونَ ٭ وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ ٭ ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ ٭لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللَّـهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ٭ وَيَجْعَلُونَ لِلَّـهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ [16-النحل:51]
”اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا مت بناؤ معبود دو یا زیادہ بس ایک معبود ہی ہے تو تم لوگ مجھی سے ڈرو اور آسمان و زمین کی سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور اسی کے لئے حق ہے۔ اطاعت بجا لانا تو کیا پھر بھی اللہ کے سوا سے ڈرتے ہو اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تم کو تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو لیکن جب وہ تم سے تکلیف ہٹا دیتا ہے تو تم میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے، یعنی ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتی ہے اچھا کچھ فائده اٹھا لو آخر کار عنقریب تم کو انجام معلوم ہو جائے گا۔ اور وہ لوگ اپنی جہالت سے ہماری دی ہوئی چیزوں میں اپنے معبود کا حصہ لگاتے ہیں، بخدا تم سے تمھاری اس افتراء پردازی کی باز پرس کی جائے گی۔ اور یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں وہ اس سے پاک ہے اور خود اپنے لیے اپنی من چاہی اولاد یعنی بیٹا۔“
مزید فرمایا :
ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا ٭ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا ٭ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَـذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا ٭ قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا [17-الإسراء:39]
”اور اللہ برحق کے ساتھ کوئی معبود تجویز مت کرنا ورنہ تو الزام خوردہ اور راندہ ہو کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، تو کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنائی ہیں بے شک تم بڑی بات کہتے ہو اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کو نفرت ہی بڑھتی جاتی ہے۔ آپ فرمائیے کہ اگر اس کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسا یہ لوگ کہتے ہیں تو اس حالت میں عرش والے تک یہ راستہ ڈھونڈ لیتے۔“
اور فرمایا :
فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ ٭ أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ ٭ أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ٭ وَلَدَ اللَّـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ٭ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ٭ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ٭ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ٭ أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ ٭ فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ٭ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ٭ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ٭ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ٭ فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ٭ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ ٭ إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ [37-الصافات:149]
”ذرا آپ ان سے پوچھئے کہ کیا اللہ کے لیے بیٹیاں اور تمہارے لئے بیٹے، ہاں کیا ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ہے اور وہ اس وقت موجود تھے خوب سن لو کہ وہ لوگ اپنی سخن تراشی سے کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ صاحب اولاد ہے اور وہ بالکل جھوٹے ہیں، کیا اللہ نے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں پسند کیں تو تم کو کیا ہو گیا تم کیسا بیہودہ حکم لگاتے ہو۔ پھر کیا تم سوچ سے کام نہیں لیتے ہاں کیا تمہارے پاس اس کی واضح دلیل ہے اگر تم سچے ہو تو وہ کتاب پیش کرو، ان لوگوں نے اللہ میں اور جنات میں رشتہ داری قرار دی ہے اور جن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مجرم حاضر کیے جائیں گے اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو جو یہ بیان کرتے ہیں مگر جو اللہ کے خاص مخلص بندے ہیں سو تم اور تمہارے معبود خدا سے کسی کو نہیں پھیر سکتے مگر اسی کو جو جہنم رسید ہونے والا ہے۔“
اور فرمایا :
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ٭ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى ٭ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى ٭ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى ٭ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى ٭ أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى ٭ فَلِلَّـهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى ٭ وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى ٭ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى [53-النجم:19]
”بھلا تم نے لات اور عزی اور تیسرے منات کے حال میں بھی غور کیا ہے، کیا تمہارے لئے بیٹے تجویز ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں اس حالت میں تو یہ بہت بے ڈھنگی تقسیم ہوئی، یہ فقط نام ہی نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ٹھہرا لیا ہے، اللہ نے تو ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں بھیجی یہ لوگ صرف بےاصل خیالات اور اپنے نفس کی خواہش پر چل رہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے پاس سے ہدایت آ چکی ہے جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو بیٹی کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا [43-الزخرف:15]
”اور ان لوگوں نے اللہ کے لیے اس کے بندوں میں جزء ٹھہرایا۔“
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں جُزْءًا سے مراد حصہ ہے اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد کا حصہ مقرر کر دیا، اور قتادہ و مقاتل کا بیان ہے کہ جُزْءًا سے مراد عدلا یعنی اللہ کے برابر اور یہ دونوں ہی صحیح اقوال ہیں کیونکہ کہ اولاد تو باپ کے برابر و مشابہ ہی ہوتی ہے اور اسی لیے سورت زخرف آیت نمبر 17 میں فرمایا :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَـنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [43-الزخرف:17]
”اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو انہوں نے رحمن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سے سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ “
یعنی لڑکیوں کو انہوں نے اللہ کی مثل قرار دیا اور بندگان خدا میں سے اللہ کا جزء ٹھہرایا کیونکہ اولاد تو باپ کا ایک جزء ہوتی ہے جیسا کہ آنخضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے انما فاطمه بضعة مني فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اور کہ ارشاد الہیٰ ہے :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ 6-الأنعام:101]
”اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور انہوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں محض بلاسند تراش رکھی ہیں۔“
کلبی کا بیان ہے کہ یہ آیت زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کا یہ عقیده ہے کہ (معاذ اللہ) اللہ اور ابلیس دونوں ساجھی دار ہیں۔ اللہ تو روشنی، انسان اور جانوروں کا خالق ہے اور ابلیس تاریکی، درندوں، سانپوں کا خالق ہے۔
وجعلوا بينه وبين الجنة نسبا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ظالم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور آیت میں فرشتوں کو جن اس لئے کہا گیا ہے کہ فرشتے نگاہوں سے چھپے رہتے ہیں۔ یہی قول مشہور مفسر مجاہد اور قتادہ کا بھی ہے۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آیت میں جن سے مراد فرشتوں کی ایک خاص قسم ہے جن کو جن کہا جاتا ہے ایسے ہی جنوں میں سے ابلیس بھی ہوتے ہیں۔ اور اسی قسم کے فرشتوں کو یہ اللہ کی بیٹیاں قرار تھے۔
اور کلبی کا بیان ہے کہ ان ملعونوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جن سے مراد یہاں وہ نسل ہے جس سے فرشتوں کی پیدائش ہوتی ہے، اور آیت خرقواله بنين وبنات بغير علم کی تفسیر میں کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے کفار عرب مراد ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اور بت سب خدا کی بیٹیاں ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور جو عرب اس کے قائل تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اور ان کی طرف سے یہ بات منقول کی جاتی ہے کہ (معاذ اللہ ) اللہ نے جن سے رشتہ جوڑا، جس کے نتیجے میں فرشتے پیدا ہوئے ہیں تو اللہ نے اپنے لئے بیوی اور اولاد کا انکار کر کے ان کے اس عقیدہ کی ترید فرما دی کیوں کہ اللہ تو صمد یعنی بے نیاز ہے۔
اور آیت ولم تكن له صاحبة اور اس کے لئے کوئی رفیقہ حیات نہیں، اس لئے کہ ولادت دو اصل سے مل کر ہوتی ہے خود ہ یہ تولد اعیان یعنی جوہر کا ہو یا صفات و اعراض کا اور اعیان کا تولد تو اسی وقت ہوتا ہے جب والد کے جسم سے اس کا کوئی جزء (قطرہ منی) الگ ہو، لیکن جب اللہ کے لئے بیوی کا ہونا محال ہے تو اولاد کا ہونا بھی محال ہے۔ اور سبھی جانتے ہیں کہ اللہ کے بیوی نہیں، نہ ملائکہ میں سے، نہ جن و انس میں سے، نہ کفار عرب میں سے کوئی بھی اس کا قائل رہا ہے۔ اس طرح یہ آیت ان کے دعویٰ کے خلاف دلیل ہے۔
رہی یہ بات جو بعض عرب کفار سے منقول ہے کہ اللہ نے (معاذ اللہ) جنوں سے رشتہ جوڑا تھا تو محل نظر ہے، اگر واقعی یہ بات انہوں نے کہی ہے تو اس کی تردید بہت طریقوں سے کی جا چکی ہے۔ اور اس طرح نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، اور یہودیوں کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں تو ان دونوں باطل عقائد کی تردید بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرما دی ہے اور یہ پوری بحث شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب ”الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح“، اور ”تفسیر سورہ اخلاص“، وغیرہ میں مفصل موجود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے