مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہے گا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم، ثم يكبر حين يركع، ثم يقول: سمع الله لمن حمده حين يرفع صلبه من الركعة، ثم يقول وهو قائم ربنا لك الحمد .
”رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع جاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے، پھر کھڑے کھڑے ربنا لك الحمد . کہتے۔“ [صحیح البخاری : 789]
اس حدیث کی روشنی میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی پیروی اسی میں ہے کہ نمازی خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، ہر صورت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سمع الله لمن حمده کہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : صلوا كما رايتموني اصلي ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔“ [صحیح البخاری : 931]
جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سمع الله لمن حمده کے الفاظ فرماتے تھے تو ہر نمازی کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی میں سمع الله لمن حمده کے الفاظ کہنے چاہیں۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اسی حدیث کو اسی مسئلے میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فيقتضى هذا مع ما قبله أن كل مصل يجمع بينهما، ولأنه ذكر يستحب للإمام فيستحب لغيره كالتسبيح فى الركوع وغيره، ولأن الصلاة مبنية على أن لا يفتر عن الذكر فى شيء منها فان لم يقل بالذكرين فى الرفع والاعتدال بقي أحد الحالين خاليا عن الذكر .
”یہ حدیث پہلی ذکر کردہ احادیث سے مل کر یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہر نمازی سمع الله لمن حمده اور ربنا لك الحمد دونوں کو جمع کرے۔ نیز سمع الله لمن حمده ایک ذکر ہے جو امام کے لیے مستحب ہے لہذا یہ مقتدی کے لیے بھی مستحب ہو گا جیسا کہ رکوع وغیرہ میں تسبيح امام بھی پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ اس ليے بھی مقتدی سمع الله لمن حمده کہے گا کہ نماز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ذکر سے خالی نہ ہو۔ اگر نمازی سر اٹھاتے اور سیدھا کھڑا ہوتے وقت دونوں حالتوں میں دو ذکر نہ کرے گا تو اس کی ایک حالت ذکر سے خالی رہ جائے گی۔۔۔“ [المجموع شرح المہذب للنووی : 20/3]
معلوم ہوا کہ جس طرح امام کی نماز ہے، اسی طرح مقتدی کی نماز ہے سوائے ان چیزوں کے جن میں کوئی استثنيٰ ثابت ہو جائے۔ سمع الله لمن حمده کے متعلق کوئی استثنيٰ ثابت نہیں۔ بعض لوگ محض قیاسات سے کام چلاتے ہوئے مقتدی کو ان الفاظ کی ادائیگی سے روکتے ہیں۔ ان کی دلیل ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا قال: الإمام سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد .
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو پھر تم اللهم ربنا لك الحمد کہو۔“ [صحیح البخاری : 796، صحیح مسلم : 4090]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد کہیں۔“ [سن الدارقطنی : 338/1، ح : 1271، وسندہ حسن]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : اللهم ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو مقتدی اللهم ربنا لك الحمد کہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سندہ صحيح]
لیکن اس حدیث اور اس اثر میں مقتدی کو سمع الله لمن حمده کہنے سے روکا قطعاً نہیں گیا بلکہ اس میں تو مقتدی کو ربنا ولك الحمد کہنے کا وقت اور مقام بتایا گیا ہے کہ وہ امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ربنا ولك الحمد کہے جیسے مقتدی کو آمین کہنے کا وقت اور مقام بتانے کے لئے فرمایا گیا کہ جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو۔ [صحيح البخاري : 782]
بعینہ یہی صورت حال اس مسئلے کی بھی ہے۔ لہذا مذکورہ حدیث و اثر سے یہ مسئلہ کشید کرنا درست نہیں کہ امام اللّٰهم ربنا لك الحمد نہ کہے یا مقتدی سمع الله لمن حمده نہ کہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس استدلال کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما الجواب عن قوله : صلى الله عليه وسلم ”وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا : ربنا لك الحمد“ فقال أصحابنا : فمعناه قولوا : ربنا لك الحمد مع ما قد علمتموه من قول : سمع الله لمن حمده، وإنما خص هذا بالذكر ; لأنهم كانوا يسمعون جهر النبى صلى الله عليه وسلم بسمع الله لمن حمده، فإن السنة فيه الجهر، ولا يسمعون قوله : ربنا لك الحمد، لأنه يأتي به سرا كما سبق بيانه، وكانوا يعلمون قوله : صلى الله عليه وسلم ”صلوا كما رأيتموني أصلي“ مع قاعدة التأسي به صلى الله عليه وسلم مطلقا، وكانوا يوافقون فى سمع الله لمن حمده، فلم يحتج إلى الأمر به، ولا يعرفون ربنا لك الحمد، فأمروا به، والله أعلم .
”رہی اس فرمان نبوی کی بات کہ جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا لك الحمد کہو تو ہمارے اصحاب کے بقول اس کا معنی یہ ہے کہ سمع الله لمن حمده کہنے کے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے، ساتھ ہی ربنا لك الحمد بھی کہو۔ اس حدیث میں مقتدی کے لئے صرف ربنا لك الحمد کا ذکر اس لئے ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع الله لمن حمده تو سن ہی لیتے تھے کیونکہ اس بارے میں طریقہ بلند آواز کا ہے لیکن وہ ربنا لك الحمد نہیں سنتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سری طور پر پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی معلوم تھا کہ نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ پھر وہ اس قانون سے بھی متعارف تھے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اقتدا مطلق طور پر ضروری ہے۔ ان امور کی بنا پر صحابہ کرام آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمع الله لمن حمده کہتے تھے، لہذا اس کا حکم دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ربنا لك الحمد کا انہیں علم نہیں تھا، اس لئے اس کا حکم دے دیا گیا۔ واللہ اعلم ! “ [المجموع شرح المهذب للنووي : 420/3]
شارح بخاری حافظ ابن حجر (۷۷۳۔ ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں :
استدل به على أن الإمام لا يقول ”ربنا لك الحمد“ وعلى أن المأموم لا يقول : سمع الله لمن حمده لكون ذلك لم يذكر فى هذه الرواية كما حكاه الطحاوي، وهو قول مالك وأبي حنيفة، وفيه نظر، لأنه ليس فيه ما يدل على النفي، بل فيه أن قول المأموم : ربنا لك الحمد يكون عقب قول الإمام : سمع الله لمن حمده، والواقع فى التصوير ذلك لأن الإمام يقول التسميع فى حال انتقاله والمأموم يقول التحميد فى حال اعتداله، فقوله يقع عقب قول الإمام كما فى الخبر، وهذا الموضع يقرب من مسألة التأمين كما تقدم من أنه لا يلزم من قوله إذا قال : ولا الضالين، فقولوا : آمين، أن الإمام لا يؤمن بعد قوله ولا الضالين . . .
”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ امام ربنا لك الحمد نہیں کہے گا اور مقتدی سمع الله لمن حمده نہیں کہے گا کیونکہ اس روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ امام طحاوی نے یہ بات نقل کی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے (امام کے لئے ربنا لك الحمد کی اور مقتدی کے لئے سمع الله لمن حمده کی) نفی معلوم ہو بلکہ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مقتدی ربنا لك الحمد اس وقت کہے جب امام سمع الله لمن حمده کہہ چکا ہو۔ حقیقت میں ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ امام سمع الله لمن حمده رکوع سے اٹھتے وقت کہتا ہے اور مقتدی ربنا لك الحمد اس کے سیدھا کھڑا ہونے کے وقت کہتا ہے۔ چنانچہ اس کا ربنا لك الحمد کہنا امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ہی واقع ہوتا ہے، یہی بات اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ آمین والے مسئلے کے قریب قریب ہے۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولا الضالين کہنے کے بعد آمین نہیں کہہ سکتا۔۔۔“ [فتح الباري لابن حجر : 283/2]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی (32/1)
ہمارے موقف کی تائید اسی حدیث کے دوسرے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔
ایک روایت میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : سمع الله لمن حمده
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں۔“ [سنن الدارقطني : 338/1، ح : 127، وسندهٔ حسن]
اسی طرح عظیم تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (۳۳۔ ۱۱۰ ھ) فرماتے ہیں :
إذا قال : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے پیچھے والے لوگ یہ کہیں سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد . ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سنن الدارقطني : 344/1، و سندهٔ صحيح]
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبه يقول الشافعي وإسحاق .
”امام شافعی (۱۵۰۔ ۲۰۴ ھ ) اور امام اسحاق بن راہویہ (۱۶۱۔ ۲۳۸ ھ) کا یہی مذہب ہے۔“ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 267]
اس کے برعکس امام عامرشعبی رحمہ اللہ (توفی بعد : ۱۰۰ ھ) فرماتے ہیں :
لا يقل القوم خلف الإمام : سمع الله لمن حمده، ولكن ليقولوا : اللّهم ربنا لك الحمد.
”لوگ امام کے پیچھے سمع الله لمن حمده نہ کہیں بلکہ وہ اللّهم ربنا لك الحمد ہی کہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 225/1، و سنده صحيح]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔ ۲۴۱ ھ) کا بھی یہی مذہب ہے۔ [مسائل الإمام أحمد وإسحاق : 852]
ہماری ذکر کروہ تحقیق کے مطابق امام عامر شعبی اور امام احمد بن حنبل رحمها اللہ کا یہ اجتہاد مرجوح ہے۔ یہ دونوں ائمہ کرام اپنے اجتہاد پر ماجور اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور ہیں۔ ثقہ ائمہ دین کے مرجوح اجتہادات بارے میں مسلمانوں کا یہی نظریہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
الحاصل : احادیث کی روشنی میں صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں گے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک جھوٹ!
ابو الحسن محمدی
علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم بن احمد شہرستانی (م : ۵۴۸ ھ) ایک رافضی کذاب ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام کے حالات لکھتے ہوئے اس کی بدعقیدگی کے پول بھی کھولتے ہیں۔
اس کا ایک جھوٹ علامہ شہرستانی نے یوں بیان کیا ہے کہ اس رافضی کذاب نے کہا:
إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها، وكان يصيح : أحرقوا دارها بمن فيها، وما كان فى الدار غير على وفاطمة والحسن والحسين عليهم السلام .
”( سیدنا ) عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے بیعت والے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ پر مارا اور ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔ عمر ( رضی اللہ عنہ ) پکار کر کہہ رہے تھے کہ اس (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے گھر کو گھر والوں سمیت جلا دو۔ گھر میں سوائے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے کوئی نہ تھا۔“ [الملل والنحل للشهرستاني : 57/1، الوافي بالوفيات للصفدي (م : ۷۶۴ ه ) ۳۴۷/۵]
رافضی شیعہ اس روایت کو بنیاد بنا کر خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تبرا بازی کرتے ہیں، لیکن اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہے۔ یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے۔ اس طرح کی جھوٹی بےسند اور بےسروپا روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔
ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نےجنم لیا۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔ ۷۴۸ ھ) نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابوبکر کوفی (م : ۳۵۱ ھ) کے ترجمہ میں ابوالحسن محمد بن احمد بن حماد بن سفیان کوفی حافظ (م : ۳۸۴ ھ) کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے :
كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم فى آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه : إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.
”وہ ساری عمر درست نظریے اور عقیدے پر رہا، لیکن اس کی عمر کے آخری دور میں اس کے پاس عام طور پر صحابہ کرام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہی پڑھی جاتی تھیں۔ میں ایک دن اس کے پاس آیا تو ایک آدمی اس کے پاس یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا حتی کہ ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1، ت : 552، آحمد بن محمد بن السري]
یاد رہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس ابن ابی دارم کے بارے میں لکھا ہے :
الرافضي الكذاب . ”یہ رافضی اور سخت جھوٹا آدمی تھا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1]
امام حاکم رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
رافضي، غير ثقة. ”یہ شخص رافضی اور غیر معتبر تھا۔“ [ايضاً]
وہ شخص شیطان ہی ہو سکتا ہے جو اس جھوٹے رافضی کے پاس جھوٹ پڑھ رہا تھا۔ دنیا میں اس کی کوئی سند موجود نہیں، نہ رافضیوں کی کتب میں نہ اہل سنت کی کتب میں۔ رافضی شیعوں کو چاہیے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹ کی سند پیش کریں، ورنہ توبہ کر لیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کا عذاب بہت دردناک ہے۔