پانی پینے اور استنجاء کے آداب
وعن أبى قتادة رضى الله عنه ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا شرب أحدكم فلا يتنقس فى الإناء وإذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه ، ولا يتمسح بيمينه
ابوقتاوہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تمہارا کوئی ایک پانی پئیے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنے آلہ تناسل کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ اسے دائیں ہاتھ سے دھوئے ۔ “
تحقیق و تخریج : بخاری : 5630٬154،153، مسلم : 267
فوائد :
➊ پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینا منع ہے ۔ پانی تین سانسوں میں پیا جائے اور ہر بار منہ کو برتن سے بقدرے دور رکھا جائے ۔ کیونکہ برتن میں سانس لینے سے کراہت پیدا ہوتی ہے اور اندر کے جراثیم برتن میں پڑ جاتے ہیں جس سے معدہ بیمار پڑ جاتا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دودھ چائے کو ٹھنڈا کرتے وقت پھونکنا یا پانی میں گرے تنکے کو پھونک سے دور کرنا جائز نہیں ہے ۔
➋ پانی پینا ہو یا اور استعمال کے لیے لینا ہو تو الگ برتن میں لینا چاہیے سفر میں برتن پاس نہ ہو تو بہتے ندی نالے سے دونوں ہاتھوں کو برتن بنا کر پانی پی سکتے ہیں ۔ جانوروں کی طرح منہ لگا کر ایک سانس میں پیاس بجھانا سنت کے خلاف ہے ۔ پیٹ میں کیڑے مکوڑے گھس جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔
➌ شرمگاہ کو سیدھے ہاتھ سے چھونا جائز نہیں ہے اور نہ ہی سیدھے ہاتھ سے دھونا درست ہے ۔ یہ ایک اصول ہے کہ مجبوری کے وقت اسلام کے احکام تخفیف رکھتے ہیں بعض دفعہ شرعی عذر سے سیدھا ہاتھ بھی شرمگاہ کو لگایا جا سکتا ہے مثال کے طور پر کسی کا الٹا ہاتھ ہے ہی نہیں تو وہ سیدھے ہاتھ سے شرمگاہ چھو سکتا ہے دھو سکتا ہے استنجاء کر سکتا ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل