مسلمانوں کی میلوں ٹھیلوں میں شرکت
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : میلوں ٹھیلوں کی زینت بننا اسلام میں کیسا ہے ؟ اور کیا ایسے مقامات پر تقسیم ہونے والی اشیاء کھانا جائز ہے ؟
جواب : اسلام میں میلوں ٹھیلوں کا کوئی تصور نہیں ہے کہ موجودہ دور میں جو عرس اور میلے قائم کیے جاتے ہیں ان کی قباحتیں کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں، ڈھول باجے، سرنگیاں، بھنگڑے، جوئے، شراب اور افیون وغیرہ جیسی حرام چیزوں کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے، ایسی محفلوں میں شرکت کرنا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ میلوں کا بندوبست کیا کرتے تھے، جسے آج کے مسلمان کہلوانے والے افراد نے کثرت سے اپنا لیا ہے اور میلوں میں اللہ کے علاوہ صاحب قبر کو سجد ہ کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں جو صریح شرک ہے۔ سجدہ صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے۔ ایسے مقامات پر اللہ کے نام پر بھی کوئی چیز نہیں دینی چاہیے، ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ مقام پر اونٹ نحر کرے گا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں جس کی عبادت کی جاتی ہو ؟ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ نہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اپنی نذر پوری کر لے اور یاد رکھو اللہ کی نافرمانی میں نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کو پورا کیا جائے گا جس کا ابن آدم مالک نہیں۔ “ [ ابوداؤد، كتاب الايمان و النذور : باب ما يؤ مربہ من وفاء النذر 3313، بيهقي 10 / 83 ]

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ میلوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، جہاں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہو وہاں اللہ کے نام پر نذر چڑھانا بھی جائز نہیں۔ جب نذر چڑھانا جائز نہیں تو اس کا کھانا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ سے دعا کی :
’’ اے اللہ ! میری قبر کو وثن (بت) نہ بنانا، اللہ کی لعنت ہو ایسی اقوام پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ “ [ مسند حميدي : 1025، مسند احمد 2/ 246 ]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میری قبر کو عید میلا گاہ نہ بننے دینا۔ “ [ ابوداؤد، كتاب المناسك : باب زيارة القبور : 2042 ]
لہٰذا ایسے میلوں میں شرکت نہ کریں اور نہ ہی وہاں سے کوئی نذر و نیاز لے کر کھائیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے