وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ رَسُولَ اللهِ عَل قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس نے صبح کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی، جس نے نماز عصر کی ایک رکعت غروب آفتاب سے پہلے پالی تو اس نے نماز عصر پا لی ۔ “
[متفق عليه]
تحقيق و تخریج :
البخاری : 579، مسلم : 608 ، یہ حدیث بخاری شریف میں باب من ادرك من الفجر ركعة اور مسلم شریف من باب من ادرك ركعة من الصلاة میں مذکور ہے ۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَلَمَةً عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ: إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغُرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجدَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ
بخاری شریف میں ابوسلمہ کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ”تم میں سے کوئی ایک غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب وہ صبح کی نماز کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پالے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے۔ “
تحقيق وتخريج :
البخاری : 556، امام بخاری نے یہ حدیث باب من ادرك ركعة من العصر قبل الغروب میں اور دوسری جگہ باب من ادرك من الصلاة ركعة میں ذکر کی ہے لیکن اس میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں : من ادرك ركعة من الصفوة فقد ادرك الصلوة . جس نے نماز کی ایک رکعت پائی اس نے پوری نماز پالی ۔
وَلِمُسْلِمٍ فِي حَدِيثٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَنْ أَدْرَكَ سَحْدَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَو مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَن تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا وَالسَّحْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الركعة
مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ”جس نے نماز عصر کا ایک سجدہ غروب آفتاب سے پہلے پا لیا یا صبح کی نماز کا ایک سجدہ طلوع آفتاب سے پہلے پالیا ، اس نے پوری نماز پانی ۔ یاد رہے کہ سجدہ سے مراد رکعت ہے ۔
تحقیق و تخریج :
مسلم : 169 ، امام مسلم نے اس حدیث كو باب من ادرك ركعة من الصلوة فقد ادرك تلك الصلوة ميں ذکر کیا ہے ۔
فوائد :
➊ صبح کی نماز باجماعت ادا کرنی چاہیے سوئے رہنے سے یا شرعی عذر کی بنا پر سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے ادا کرنی چاہیے اسی طرح عصر کی نماز اول وقت میں ادا کرنی چاہیے بر وقت عذر غروب آفتاب سے قبل اداکی جا سکتی ہے ۔
➋ نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا یہ اس کی ادائیگی ہوتی ہے اور وقت کے بعد پڑھنا یہ قضائی ہوتی ہے ۔
➌ آفتاب طلوع ہو رہا ہو یا غروب ہوتا جا رہا ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔ اگر ایک رکعت نماز فجر کی مل جائے فجر کے وقت میں ہی طلوع آفتاب سے قبل تو دوسری رکعت ادا کر لینی چاہیے اسی طرح عصر کی نماز اس کے وقت میں پڑھی ایک رکعت پڑھی تو آفتاب غروب ہونے لگا تو اس صورت میں دوسری رکعات پڑھ لے نماز مکمل ادا ہو جائے گی ۔ عین طلوع آفتاب یا غروب آفتاب ہو رہا ہو تو نماز شروع کرنا منع ہے ۔ غروب یا طلوع کے بعد نماز کی قضائی ہو گی ۔
➍ سجدہ یا رکوع کی اتنی اہمیت ہے کہ ان کے بغیر کوئی رکعت ہوتی ہی نہیں سجدہ یا رکوع سے مراد رکعت لیتا یا سجدہ و رکوع کو رکعت کہنا درست ہے ۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس نے صبح کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی، جس نے نماز عصر کی ایک رکعت غروب آفتاب سے پہلے پالی تو اس نے نماز عصر پا لی ۔ “
[متفق عليه]
تحقيق و تخریج :
البخاری : 579، مسلم : 608 ، یہ حدیث بخاری شریف میں باب من ادرك من الفجر ركعة اور مسلم شریف من باب من ادرك ركعة من الصلاة میں مذکور ہے ۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَلَمَةً عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ: إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغُرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجدَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ
بخاری شریف میں ابوسلمہ کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ”تم میں سے کوئی ایک غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب وہ صبح کی نماز کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پالے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے۔ “
تحقيق وتخريج :
البخاری : 556، امام بخاری نے یہ حدیث باب من ادرك ركعة من العصر قبل الغروب میں اور دوسری جگہ باب من ادرك من الصلاة ركعة میں ذکر کی ہے لیکن اس میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں : من ادرك ركعة من الصفوة فقد ادرك الصلوة . جس نے نماز کی ایک رکعت پائی اس نے پوری نماز پالی ۔
وَلِمُسْلِمٍ فِي حَدِيثٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَنْ أَدْرَكَ سَحْدَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَو مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَن تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا وَالسَّحْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الركعة
مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ”جس نے نماز عصر کا ایک سجدہ غروب آفتاب سے پہلے پا لیا یا صبح کی نماز کا ایک سجدہ طلوع آفتاب سے پہلے پالیا ، اس نے پوری نماز پانی ۔ یاد رہے کہ سجدہ سے مراد رکعت ہے ۔
تحقیق و تخریج :
مسلم : 169 ، امام مسلم نے اس حدیث كو باب من ادرك ركعة من الصلوة فقد ادرك تلك الصلوة ميں ذکر کیا ہے ۔
فوائد :
➊ صبح کی نماز باجماعت ادا کرنی چاہیے سوئے رہنے سے یا شرعی عذر کی بنا پر سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے ادا کرنی چاہیے اسی طرح عصر کی نماز اول وقت میں ادا کرنی چاہیے بر وقت عذر غروب آفتاب سے قبل اداکی جا سکتی ہے ۔
➋ نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا یہ اس کی ادائیگی ہوتی ہے اور وقت کے بعد پڑھنا یہ قضائی ہوتی ہے ۔
➌ آفتاب طلوع ہو رہا ہو یا غروب ہوتا جا رہا ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔ اگر ایک رکعت نماز فجر کی مل جائے فجر کے وقت میں ہی طلوع آفتاب سے قبل تو دوسری رکعت ادا کر لینی چاہیے اسی طرح عصر کی نماز اس کے وقت میں پڑھی ایک رکعت پڑھی تو آفتاب غروب ہونے لگا تو اس صورت میں دوسری رکعات پڑھ لے نماز مکمل ادا ہو جائے گی ۔ عین طلوع آفتاب یا غروب آفتاب ہو رہا ہو تو نماز شروع کرنا منع ہے ۔ غروب یا طلوع کے بعد نماز کی قضائی ہو گی ۔
➍ سجدہ یا رکوع کی اتنی اہمیت ہے کہ ان کے بغیر کوئی رکعت ہوتی ہی نہیں سجدہ یا رکوع سے مراد رکعت لیتا یا سجدہ و رکوع کو رکعت کہنا درست ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]