سوال : میت کو دفن کرنے کے تین دن بعد تک تعزیتی (ماتمی) اجتماع کرنے اور قرآن خوانی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : میت کے گھر میں کھانے پینے یا قرآن خوانی کے لئے اکٹھا ہونا بدعت ہے۔ اسی طرح ورثاء کا میت کے لئے کسی دعائیہ مجلس کا انعقاد بھی بدعت ہے۔ میت کے گھر صرف تعزیت کرنے اور ان کے حق میں دعا کرنے اور اہل خانہ کو تسلی دینے کے لیے جانا چاہئیے۔
لوگوں کا تعزیتی اجتماع (ماتم) منعقد کرنا، خاص طرح کی دعائیہ مجالس برپا کرنا، قرآن خوانی کے لیے محافل کا انعقاد کرنا، ایسی چیزوں کا شرع میں کوئی وجود نہیں، اگر ان جیسی چیزوں میں کوئی خبر ہوتی تو ہمارے سلف صالحین ایسا ضرور کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ جب جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان حضرات کی موت کی خبر دی، ان کے لئے دعا فرمائی اور اپنی رضا کا اظہار فرمایا، لیکن نہ تو لوگوں کو جمع کیا، نہ کوئی دعوت ترتیب دی اور نہ کوئی ماتمی پروگرام تشکیل دیا، حالانکہ یہ لوگ افضل ترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا مگر اس بات کے باوجود کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں کسی نے آپ کا ماتم نہ کیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے مگر کسی نے کوئی ماتم نہ کیا، لوگوں کو رونے دھونے کے لئے جمع کیا نہ انہوں نے قرآن خوانی کی۔ بعد ازاں عثمان و علی رضی اللہ عنہما شہید کئے گئے، تو اس موقع پر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا کہ وہ ان کے لئے دعا کریں یا مجلس ترحیم منعقد کریں۔ میت کے عزیزوں یا ہمسایوں کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ میت کے اہل خانہ کے لئے کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھجوائیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو گھر والوں سے فرمایا :
إصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد جاءهم ما يشغلهم [رواه الترمذي فى كتاب الجنائز]
”آل جعفر کے لئے کھانا تیار کرو، تحقیق ان کے پاس ایک ایسی خبر پہنچی ہے۔ جو انہیں مشغول کر دے گی“ (اور وہ کھانا وغیرہ تیار نہیں کر سکیں گے)۔
گھر والے ایک مصیبت سے دوچار ہیں، اب اگر کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھیجا جائے تو یہ ایک مشروع کام ہے۔ لیکن انہیں ایک نئی مصیبت سے دوچار کرنا اور لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا پابند بنا دینا سنت کے یکسر خلاف ہے۔ بلکہ بدعت ہے، جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
كنا نرى الإجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام بعد الدفن من النياحة [رواه ابن ماجة]
”ہم میت والوں کے ہاں جمع ہونے اور دفن کے بعد کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے، اور نوحہ یعنی بلند آواز سے چیخنا چلانا حرام ہے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب قبر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، ہاں آنسو بہانے میں کوئی حرج نہیں۔ وبالله التوفيق
ایک تبصرہ
ایسی مجالس کا انعقاد سرتاسر بدعت اور قابل ِ انکار امر ہے‘ایسے امور سے قطعی اجتناب کرنا چاہئے
بعض لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ مجلس ِ عزاء یا مجلس ِ دعا منعقد کرتے ہیں‘اسے قائم کرنا رواداری قرار دیتے ہیں‘اپنا واجبی حق سمجھتے ہیں‘بعض لوگوں کو تو دیکھا گیا ہے کہ اس کے لئے پھسپھسی دلائل کا بھی سہارا لینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں ‘اسے جائز ثابت کرنے کی سعی ٔ منحوس کرتے نظر آتے ہیں
سوال یہ ہے کہ نبیٔ کریمﷺ سے کیا ایسا ثابت ہے ؟
صحابہ ٔ کرام سے کیا ایسا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ؟
تابعین نے کیا ایسا کیا ہے ؟
محدثین ‘فقہاء اور علمائے اسلام معتبرین نے ایسا کیا ہے ؟
اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ہمیں کیسے حق پہنچ گیا کہ ایسے خرافات کا ارتکاب کریں
ایسی بدعات کو انجام دیں‘جس کی دلیل اللہ نے نہیں اتاری
نبی ٔ کریمﷺ نے جس تعلیم نہیں دی‘بتایا نہیں ‘اور نہ ہی اس پر عمل کر دکھایا
کیا آپﷺ کے زمانہ مبارک میں اموات نہیں ہوئی ؟
کیا صحابہ ٔ کرام کے عہد میں لوگ فوت نہیں ہوئے ؟
یہ عجیب طرز عبادت ہے کہ جو نبی ٔ کریمﷺ کے زمانہ ٔ میمون میں عبادت نہیں تھا ہم نے اسے دین سمجھ لیا
واہ بھائی
اللہ امتِ محمدیہ کو ہدایت نصیب کرے