نماز میں مصحف سے قراۃ قرآن کا مسئلہ
جھنگوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ اہل سنت نماز میں قرآن شریف کو دیکھ کر پڑھنانا جائز سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد صحیح سمجھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب: – اولاً:-
جھنگوی صاحب نے تحفہ اہل حدیث کے صفحہ 53 پر لکھا ہے کہ اہل سنت صحابہ کرامؓ کو معیار حق سمجھتے ہیں۔ انتھی بلفظہ اور زیر بحث مسئلہ پر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا عمل تھا۔
(ان عائشةؓ كانت تقرأ في المصحف وهي تصلى )
یعنی حضرت عائشہؓ نماز میں قراۃ مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتی تھیں۔
(مصنف عبد الرزاق ص 420 ج 2)(رقم الحدیث 3930)
صحیح بخاری میں ہے کہ
(كانت عائشة يومها عبدها ذكوان من المصحف )
یعنی حضرت عائشہ کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔
( صحیح بخاری ص 96 ج 1 )
امام ابی بکر بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ
(ان عائشه اعتقت غلامالها عن دبر فكان يؤمها في رمضان في المصحف )
یعنی حضرت عائشہ کا ایک غلام تھا جسے بعد ازاں آپؓ نے آزاد کر دیا تھا وہ حضرت عائشہؓ کی رمضان المبارک میں امامت کراتا تھا اور قراۃ قرآن مصحف ( قرآن ) سے دیکھ کر کرتا تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ص 338 ج 2 وفتح الباری ص 147 ج 2 و كتاب المصاحف لا بن ابی داؤد ص 192)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس اثر کی سند صحیح ہے۔
( تغلیق التعلیق ص 291 ج 2)
امام ابن ثهاب الزہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ قرآن میں دیکھ کر امامت کا کیا حکم ہے؟
(قال ما زالوا يفعلون ذلك منذ كان الاسلام كان خيارنا يقرون في المصاحف )
یعنی ابتداء اسلام سے ہی علماء قرآن مجید دیکھ کر (امامت) کراتے رہے جو ہمارے بہتر تھے۔
(قیام الليل ص 168 طبع مکتبہ اثریہ )
امام سعد‘ المام سعید بن مسیب‘ امام حسن بصری‘ امام محمد بن سرین‘ امام یحیی بن سعید انصاری‘ امام مالک‘ امام احمد بن حنبل رحم اللہ عنھم تمام کے تمام اس کے جواز کے قائل ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے
(قیام الليل ص 168 و مصنف ابن ابی شیبہ ص 338 ج 2 و مصنف عبد الرزاق ص 420 ج 2)
جھنگوی صراحت کرے مذکورہ صحابہ و تابعین کا گروہ فقہاء مدینہ اور اخیار امت امام احمد بن حنبل اور امام مالک جیسے لوگ اہل سنت میں داخل ہیں یا خارج ؟ اگر جھنگوی ان کو اساطین اہل سنت میں شمار کرتا ہے تو اہل حدیث کو کیوں خارج سمجھتا ہے؟
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے جھنگوی کا اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج سمجھنا اس کی جہالت ہے۔
ثانیا :-
جیسے مختار بن عبید ثقفی نے محبت اہل بیت کی آڑ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ جس کی تفصیل علامہ شھرستانی نے (کتاب الملل والنحل ص 132 ج 1) میں بیان کی ہے۔ شیعہ نے محبت علی مرتضیٰ میں صحابہ کرامؓ پر تبرا اور سب و شتم کو اپنا شعار بنا لیا ہے‘ ایسے ہی حنفیہ نے فقاہت کی آڑ میں قرآن سے دشمنی کی ہے۔
دو عدد مثالیں ملاحظہ کریں علامہ زین بن نجیم حنفی المتوفی 971ھ لکھتا ہے کہ
(ولو نظر المصلى الى المصحف وقرأمنه فسدت صلاته لا الى فرج امراة بشهوة لان الاول تعليم وتعلم فيها لا الثاني )
اور اگر کوئی نمازی قرآن دیکھ کر اس سے قرآت کرے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور اگر کسی عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھ لے تو نماز باطل نہ ہوگی کیونکہ قرأت تعلیم و تعلم کے متعلق ہے اور شرمگاہ دیکھنا تعلیم نہیں ہے۔
( الاشباہ و النظائر ص 224 طبع ایچ ایم سعید کراچی ومع شرح حموی ص 317 ج 2)
اس بدترین اور گندی مثال سے قارئین کرام خود ہی اندازہ لگائیں کہ فقہاء احناف کے دل میں قرآن کا ادب و احترام کس حد تک تھا۔
آہ ادب واحترام کی ٹھیکے داری اور فقاہت کی علم برداری کا دعویٰ کرنے والے گروہ کے نزدیک عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مگر مصحف سے تلاوت قرآن کو یہ حضرات ناجائز و حرام اور نماز کے باطل ہونے کا مؤقف رکھتے ہیں۔
اس سلسلہ میں دوسری حیا سوز اور فقہ حنفی کا بد ترین مسئلہ بھی ملاحظہ کیجیے
فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے
(والذي رعف فلاير قادمه فاراد ان يكتب بدمه على جبهته شيئا من القرآن قال ابوبكر الاسكاف يجوز قيل لوكتب بالبول قال لوكان فيه شفاء لا باس به )
یعنی اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہو تو اس نے اپنی جبین پر ( نکسیر کے ) خون سے قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابو بکر اسکاف نے کہا ہے یہ جائز ہے۔ اگر وہ پیشاب سے لکھے تو اس نے کیا اگر اس میں شفا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(فتاویٰ قاضی خان علی حامش فتاویٰ عالم گیری ص 404 ج 3 کتاب الحظر والا باحته )
یہی فتویٰ فقہ حنفی کی معروف کتاب (فتاویٰ سراجیہ ص 75 والبحر الرائق ص 116 ج 1 و حمومی شرح الا شباو النظائر ص 108 ج 1 باب القاعده الخامستہ الضرر لا يزال، و فتاویٰ شامی ص 210 ج 1 باب التداوی بالمحرم ) وغیرہ کتب فقہ حنفی میں چوتھی صدی سے لے کر بارھویں صدی تک متداول رہا ہے بلکہ فتاویٰ عالم گیری میں لکھا ہے کہ
(فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير انكار )
یعنی مشاھیر میں یہ فتویٰ بلا انکار ثابت ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری ص 356 ج 5 کتاب الكراهية باب التداوی والمعالجات)
عالم گیری کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ فقہا احناف کا یہ مفتی بہ فتویٰ ہے۔
بریلوی مکتب فکر کے معروف مترجم مولوی غلام رسول سعیدی نے کھل کر فقہاء کے ان فتاویٰ کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرہ میں ہے۔ اگر کسی آدمی کو روز روشن سے زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفا ہو جائے گی تب بھی اس کا مر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے کی جرات کرے۔ اللہ تعالی ان فقہاء کو معاف کرے جو ہال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے ان سے یہ قول شنیع سر زد ہو گیاور نہ ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت و حرمت بہت زیادہ تھی۔
( شرح صحیح مسلم ص 557 ج 6 طبع فرید بک سٹال لاہور 1995ء)
سعیدی صاحب کی اس ہمت مردانہ اور جرات رندانہ کی داد دیتے ہوئے عبدالمجید شرقپوری برسٹل بر طانیہ فرماتے ہیں کہ فقہ کی ایک کتاب ( نہیں بھائی تقریباً نصف درجن ابو صھیب ) میں لکھا ہے کہ علاج کی غرض سے خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے۔ راقم الحروف نے اکثر علماء سے اس کے متعلق پوچھا مگر چونکہ یہ بات بڑے بڑے فقہاء نے لکھی ہے اس لیے سب نے اس مسئلہ پر سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ سعیدی نے پہلی بار اس جمود کو توڑا۔
(شرح صحیح مسلم بعنوان تاثرات صفحہ 66 جلد اول الطبع الخامس 1995ء)
یہی ہم نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآۃ کے سلسلہ میں عرض کرتے ہیں کہ بھائی شرم گاہ تو ایک انسانی عضو ہے قرآن اللہ کا کلام ہے لہٰذا اس باطل و مردود فتویٰ کی تردید کرتے ہوئے نماز کو فاسد و باطل کہنے سے توبہ کر لیجئے اور صحابہ کرام کو معیار حق تسلیم کرتے ہوئے نماز میں مصحف سے قرآت کے جواز کو تسلیم کر لیجیے اور فقہاء کو معصوم عن الخطاء جان کر منہ اٹھا کر ان کے پیچھے نہ لگ جائیے ان کی صحیح بات کو قبول کیجیے اور غلط بات کی تردید
کردیجیے۔
الغرض جیسے سعیدی صاحب نے مذکورہ جمود کو توڑتے ہوئے حق بات کہہ دی ہے آپ بھی اس کی ہمت کریں اور پوری فقہ حنفی پر نظر ثانی کریں اور کھرے کھوٹے کو الگ کر کے اپنی اخروی زندگی کے لیے ذخیرہ جمع کر لیں اللہ آپ کو توفیق دے۔ اگر اتنے جری و دلیر نہیں تو حنفی فقہ کو کلی خیر باد کہہ کر قرآن و سنت کو اپنا لیجیے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ شاہراہ بہشت ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیلی دلائل یہاں ملاحظہ کیجیئے۔