عورت کسی کا نکاح کروا سکتی ہے
سوال : کیا عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے یا کسی اور کی ولیہ بن سکتی ہے؟
جواب : صحیح دلائل سے ثابت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور نکاح کے قیام کے لئے عورت کے ولی کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ اسلامی شریعت میں عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنا نکاح خود کرے یا کسی دوسری عورت کا نکاح کرے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« لا تزوج المراة المراة ولا تزوج المراة نفسها فان الزانية هي التى تزوج نفسها» [السنن الكبري للبيهقي7/ 110، دار قطني 3/ 227]
”عورت عورت کی شادی نہ کروائے اور نہ عورت اپنی شادی خود کرے، جو عورت اپنی شادی خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔“
علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔
« فيه دليل على ان المراة ليس لها و لا ية فى الانكا ح لنفسها و لالغير ها فلا عبارة لها فى النكا ح ايجابا و لا قبولا فلا تزوج نفسها باذن الولي و لا غيره ولا تزوج غيرها بولا: ية ولا بو كالة ولا تقبل النكا ح بولاية ولا وكالة و هو قول الجمهور» [سبل السلام 3/ 1321]
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کو اپنا یا کسی دوسری عورت کا نکاح کروانے کا اختیار نہیں ہے، لہٰذا نکاح کے سلسلے میں ایجاب و قبول کے بارے میں عورت معتبر نہیں۔ ولی وغیرہ کی اجازت کے ساتھ اپنی شادی خود نہ کرے اور نہ کسی دوسرے عورت شادی ولایت و وکالت کے ساتھ کرے۔ عورت کی ولایت و وکالت کے ساتھ نکاح قبول نہیں کیا جائے گا یہی جمہوریہ علماء کا قول ہے۔“
علامہ صنعانی رحمہ اللہ کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ عورت ایجاب و قبول کے بارے میں معتبر نہیں ہے اور نہ نکاح میں عورت کی ولایت اور وکالت ہی کو قبول کیا گیا ہے۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
«تزويج نكندن زن زن را ولايت نمي باشد در انكا ح نفسي خود و انكا ح غير خود پس نيست او را عبارت در نكا ح نه ايجابا و نه قبولا» [مسك الختام شرح بلوغ المرام 3/ 342]
”عورت عورت کی شادی نہ کرے یعنی عورت کو اپنا یا کسی دوسری عورت کا نکاح کروانے میں ولایت حاصل نہیں ہے لہٰذا نکاح کے سلسلے میں ایجاب و قبول کے متعلق عورت معتبر نہیں ہے۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وقد صح عن عائشة رضي الله عنها انها انكحت رجلا من بني اخيها فضربت بينهم بستر ثم تكلمت حتي اذا لم يبق الا القعد امرت رجلا فانكح ثم قالت ليس الي النساء نكا ح» [“ فتح الباري 9/ 186، ابن ابي شيبة 3/ 458، عبدالرزاق6/ 201]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے بیٹوں میں سے ایک کے نکاح کا بندوبست کیا۔ انہوں نے ان کے درمیان پردہ لگا دیا پھر بات کی، یہاں تک کہ جب عقد کے علاوہ کوئی معاملہ باقی نہ رہا تو انہوں نے ایک مرد کو حکم دیا اس نے نکاح کر دیا پھر فرمایا : نکاح کا قائم کرنا عورتوں کا کام نہیں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے انتظامات وغیرہ میں عورت اپنا کردار پردے کے اندر رہ کر ادا کر سکتی ہے لیکن نکا ح پڑھانے کی اسے اجازت نہیں۔ اس لیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پاکباز عورت یہ کام نہیں کر سکتی تو آج
کی کوئی عورت کیسی کر سکتی ہے ؟
اس مسئلے کی مزید تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے :
« لا تشهد المراة يعني الخطبة و لا تنكح» [ابن ابي شيبة 3/ 458، 15963]
”عورت خطبہ نہ دے اور نہ نکا ح کروائے۔“
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد الاستاد امام ابراہیم نحعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
«ليس العقد بيد النساء و انما العقد بيد الرجال» [ابن ابي شيبة 458/3، 15957، موسوعة فقه ابراهيم النخعي 677/1]
”عقد نکاح عورت کے ہاتھ میں نہیں، عقد نکاح صرف مرد کے ہاتھ میں ہے۔“
مندرجہ بالا صحیح احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ عقد نکاح مرد کے اختیار میں ہے اور نکاح کا خطبہ پڑھنا جو مسنون ہے ایجاب و قبول کروانا یہ سب مرد کا حق ہے، عورت اس معاملے میں معتبر نہیں ہے۔