مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ
” صاحب حیثیت مقروض کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ: 2400]
فوائد :
بوقت ضرورت قرض لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب حالات سازگار ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسعت اور کشادگی آ جائے تو اسے جلدی ادا کرنا چاہئے، اگر دانستہ طور پر اس کی ادائیگی میں لیت و لعل کرتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عمل کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرض کے متعلق فرمایا ہے :
”نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔“ [البقره : 279 ]
یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ مقروض، اصل رقم ادا نہ کرنے پر ظالم قرار پاتا ہے جیسا کہ قرض خواہ اصل رقم سے زیادہ کا تقاضا کرنے پر ظالم ٹھہرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہڑپ کرنے کی نیت سے قرض لینے کے متعلق ایک وعید سنائی ہے :
”جو شخص کسی کا مال برباد کرنے کی غرض لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ: 2387]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بربادی دنیا میں اس کی جان یا معیشت کی صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بربادی سے مراد عذاب آخرت ہے۔ [فتح الباري : 57/5]
قیامت کے دن ایسے شخص کو چور اور ڈاکو کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا، حدیث میں ہے :
”جس شخص نے اس ارادے سے قرض لیا کہ حقدار کو واپس نہیں کرے گا۔ اس نے دھوکے سے رقم لے لی اور ادائیگی کے بغیر فوت ہو گیا تو قیامت کے دن اللہ کے حضور اسے چور کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔ “ [صحيح الترغيب و الترهيب : 352/2]
ایسے شخص کو قیامت کے دن اپنی نیکیوں سے بھی محروم ہونا پڑے گا جیسا کہ حدیث میں ہے :
”جو شخص فوت ہو اور اس کے ذمے درھم یا دینار کا قرض تھا۔ قیامت کے دن وہاں درھم یا دینار نہیں بلکہ اس کی نیکیوں سے یہ قرض ادا کیا جائے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون: 2439]