اجنبی کو بوسہ دینے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

میں گاہے گاہے اپنے گھر والوں اور خاندان کے افراد کی بعض اوقات چھ ماہ بعد اور بعض اوقات پورے سال کے بعد زیارت کرتا ہوں ، اور جب میں گھر پہنچتا ہوں تو چھوٹی بڑی سب خواتین میرا استقبال کرتی ہیں اور مجھے شرم و لجاجت کے ساتھ بوسہ دیتی ہیں ۔
حق تو یہ ہے کہ بلاشبہ یہ عادت ہمارے ہاں بہت پھیل چکی ہے اور میرے خاندان والوں کے نزدیک اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، کیونکہ وہ اپنی رائے کے مطابق اس کو حرام نہیں سمجھتے ہیں ، لیکن میں چونکہ الحمد للہ احکام اسلامیہ کو اختیار کرنے والا ہوں ، اس لیے میں اس معاملہ میں حیرانی و غفلت کا شکار ہوں ۔ اب سوال یہ ہے کہ عورتوں کی تقبیل (بوسہ دینا) کی تلافی کس طرح میرے لیے ممکن ہے ؟ واضح رہے کہ اگر میں ان سے مصافحہ نہ کروں تو وہ مجھ سے سخت ناراض ہوں گی اور یقیناًً وہ کہیں گی یہ ہمارا احترام نہیں کرتا ، ہمیں ناپسند کرتا ہے اور ہم سے وہ محبت نہیں کرتا ۔ اور محبت سے مراد وہ محبت ہے جو خاندان کے افراد کو آپس میں جوڑتی ہے نہ کہ وہ محبت جو نوجوان لڑکے اور لڑکی کو آپس میں ( غلط تعلقات کے ساتھ جوڑتی ہے ) ؟

جواب :

مسلمان کے لیے اپنی بیوی اور محارم عورتوں کے سوا کسی سے مصافحہ کرنا اور اس کا بوسہ لینا جائز نہیں ہے ، بلکہ یہ حرام کاموں اور فتنہ کے اسباب اور بے حیائیوں کے پھیلانے سے ہے ۔
یقیناًً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے :
إني لا أصافح النساء [صحيح سنن النسائي ، رقم الحديث 4181 ]
”بلاشبہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ “
نیز فرمایا :
ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ید امرأة قط ، ما كان يبايعهن إلا بالكلام [صحيح البخاري ، رقم الحديث 4983 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1866 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام تو ان سے صرف زبانی بیعت کیا کرتے تھے ۔“
اور غیر محارم عورتوں سے مصافحہ کرنے سے بھی زیادہ بری چیز ان کا بوسہ لینا ہے ، خواہ وہ چچاکی بیٹیاں ہوں یا ماموں کی ، یا پڑوسیوں کی عورتیں ہوں یا قبیلہ کی دیگر عورتیں ، یہ تمام امور مسلمانوں کے اجماع کے ساتھ حرام ہیں ، اور حرام بے حیائیوں میں مبتلا ہونے کے بڑے وسائل و اسباب میں سے ہیں ۔ ا لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس سے پر ہیز کرے اور رشتہ دار وغیر رشتہ دار عورتوں میں سے جو اس کی عادی بن چکی ہیں ان کو اس بات پر قائل کرتے ہوئے مطمئن کرے کہ یہ عمل حرام ہے ، اگرچہ لوگ اس کے عا دی بن چکے ہیں ۔ مسلمان مرد ہو یا عورت اس کے لیے ایسا کرناجائز نہیں ہے ، اگرچہ ان کے قرابت دار اور اہل شہر اس کے عادی ہو چکے ہوں ، بلکہ ان پر اس کا انکار کرنا اور معاشرے کو اس سے بچانا واجب ہے ، اور چاہیے کہ اس معاملہ میں مصافحہ اور تقبیل (بوسہ دینا) کے بغیر زبانی سلام پر اکتفاء کیا جائے ۔
(عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: