اے لوگو جوایمان لائے ہو! تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کے راستے میں نکلو تو تم زمین کی طرف نہایت بوجھل ہوجاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو؟ تو دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں نہیں ہے مگر بہت تھوڑا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے
(آیت38) ➊ {يٰۤاَيُّهَاالَّذِيْنَاٰمَنُوْامَالَكُمْاِذَاقِيْلَلَكُمُانْفِرُوْا …:} سورت کے شروع سے لے کر ۳۷ آیات تک عرب کے مشرکین سے اعلانِ براء ت اور اہل کتاب سے مسلمانوں کے تعلقات اور جہاد کے بنیادی احکام، بدر اور حنین کے واقعات اور ان میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور غیبی مدد کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد اب جنگ تبوک کا تفصیلی ذکر اور اس میں منافقین کے کردار کو کھول کر بیان کیا گیا ہے اور اس جنگ سے پیچھے رہنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے، اس لیے اس سورت کو فاضحہ یعنی منافقین کو رسوا کرنے والی بھی کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں جہاد پر ابھارنے کے لیے وعدہ و وعید، انذار و تبشیر اور ثواب و عذاب وغیرہ کے بیان کے کئی طریقے اختیار کیے گئے ہیں، اس لیے اس کا نام بحوث یعنی نہایت ابھارنے والی سورت بھی ہے۔ ➋ علمائے تفسیر متفق ہیں کہ یہاں سے ان لوگوں پر عتاب کا آغاز ہوتا ہے جو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہے تھے، جب پھل تیار تھے، گرمی شدید تھی اور سائے نہایت خوش گوار محسوس ہو رہے تھے، اس لیے بعض نام نہاد مسلمان جہاد پر روانہ ہونے سے جی چرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے بات شروع ہی ایمان کو حرکت دینے سے کی ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھیں کیا ہو گیا؟ اپنے ایمان کے تقاضے ہی پر غور کرو، کیا اس کا تقاضا یہی ہے جو جہاد کے لیے نکلنے کے حکم پر تم اختیار کر رہے ہو۔ {”اثَّاقَلْتُمْ“} اصل میں {”تَثَاقَلْتُمْ“} تھا جو باب تفاعل سے ہے۔ {”ثَقُلَ“} سے بڑھا کر تفاعل میں لے جا کر بھاری ہونے کے مفہوم کو انتہا تک پہنچانے کے لیے لفظ بھی آخری حد تک بھاری بنا دیا {”اثَّاقَلْتُمْ“} یعنی نہایت بھاری اور بوجھل ہو جاتے ہو کہ اٹھانے سے نہیں اٹھتے، اس کا باعث اس کے سوا کیا ہے کہ تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کے معمولی، حقیر اور ناپائدار سازو سامان پر جو کسی وقت بھی چھن جائے گا، اس آخرت کے مقابلے میں راضی ہو گئے ہو جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں وہ نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ان کا خیال ہی کسی انسان کے دل میں آیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو دنیا کی زندگی کا یہ سازو سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ اس کی مثال تو سمندر کے مقابلے میں انگلی ڈبونے سے اس پر لگنے والے پانی کی سی ہے، جیسا کہ مستورد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا …: ۲۸۵۸] ➌ تبوک ایک مشہور مقام کا نام ہے جو مدینہ سے شمال کی طرف تقریباً چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد ۹ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کا پس منظر یہ تھا کہ ملک شام پر قبیلہ غسان حکمران تھا، جو شاہِ روم کے تابع تھا، اسے یہ فکر لاحق ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزیرۂ عرب سے فارغ ہو چکے ہیں، اب ہماری باری ہے توکیوں نہ شاہِ روم کو بلا کر عرب پر پہلے ہی چڑھائی کر دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ سرزمین عرب سے نکل کر دشمن کے علاقے، یعنی شام میں جا کر انھیں عرب پر حملے سے روکا جائے، چونکہ سفر بہت مشکل اور لمبا تھا، فصل کی کٹائی کا موسم تھا اور سواریاں اور سامان حرب بھی پوری طرح میسر نہ تھا، اس لیے اسے جیش العسرۃ ”تنگی کے زمانے کا لشکر“ کہا جاتا ہے۔ اس لیے اگرچہ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ آپ جب کہیں حملہ کرنا چاہتے تو توریہ کرتے، یعنی اصل جگہ کی نشان دہی کے بجائے ادھر ادھر کے متعلق لوگوں سے حالات معلوم کرتے، تاکہ لوگوں کو حملے کے اصل مقام کا پتا نہ چلے، لیکن اب آپ نے لوگوں کو صاف الفاظ میں اپنا ہدف واضح کر دیا اور سب کو نکلنے کا حکم دیا۔ تقریباً تیس ہزار مجاہد تیار ہو گئے۔ آپ نے اس سے پہلے شاہِ روم کو خط بھی لکھا تھا جس میں اسے دین اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسلام لانے پر آمادہ بھی ہو گیا، لیکن قوم نے اس کا ساتھ نہ دیا، اس لیے وہ اسلام سے محروم رہا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر تبوک پہنچ گئے اور دشمن کا بیس دن تک انتظار کرتے رہے، مگر کسی میں مقابلے پر آنے کی جرأت نہ ہوئی، نہ ہی کوئی جنگ ہوئی، اس علاقے کے اور اردگرد کے لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت کا عہد کیا، اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے۔ آپ دشمن کو خوف زدہ کرکے اسلام کی دھاک بٹھا کر کامیاب فاتح ہو کر واپس تشریف لائے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سارا ملک شام فتح ہو گیا اور اسرائیل کے مقبوضہ حصے کے سوا اب تک اسلام کے زیر نگین ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
38۔ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلو تو تم زمین [40] کی طرف بچھ جاتے ہو؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟ حالانکہ آخرت کے مقابلہ [41] میں دنیوی زندگی کا فائدہ بالکل ہیچ ہے
[40] غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے مقابل اتحادی، عیسائی، مشرک قبائل، مدینہ کے منافق اور یہود:۔
یہاں سے ایک بالکل نیا مضمون یعنی غزوہ تبوک کا آغاز ہو رہا ہے جس کا پس منظر یہ تھا کہ مکہ اور حنین کی فتح کے بعد جب عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہو گیا تو شام کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل اور ان کے بادشاہ غسان نے جو قیصر روم کے ماتحت تھے، مسلمانوں کی ان کامیابیوں کو اپنے لیے عظیم خطرہ سمجھا اور مسلمانوں بلکہ اسلام کی کمر توڑنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ دوسری طرف عرب بھر میں شکست خوردہ مشرکین اس کی مدد کو موجود تھے اور تیسری طرف مدینہ کے منافقین نے ابو عامر راہب کی وساطت سے غسان اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ یہود بھی ان منافقوں کا ساتھ دے رہے تھے اور منافقوں نے اسی ساز باز کی غرض سے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی۔ گویا کفر کی اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی سرحد پر رومی فوجوں کے عظیم اجتماع کی خبریں دم بدم پہنچ رہی تھیں۔
مسلمانوں کے حالات کی ناساز گاری:۔
دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ فصلیں پکنے کے قریب تھیں۔ فاصلہ دور کا اور پر مشقت تھا سامان اور سواریوں کی کمی تھی اور مقابلہ اس عظیم طاقت سے تھا جس نے حال ہی میں کسریٰ شاہ ایران کو شکست دے کر دنیا پر اپنے رعب و دبدبہ کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ گویا ہر لحاظ سے یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ انہیں حالات میں اللہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا اور مسلمانوں میں عام اعلان جہاد کر دیا۔ اور معمول کے خلاف سب کو صاف صاف بتلا دیا کہ شام کو جانا ہے اور ملک غسان اور قیصر کے مقابلہ کے لیے جانا ہے ان حالات میں منافقوں کا جنگ سے جی چرانا تو فطری امر تھا بعض کمزور دل اور ضعیف اعتقاد والے مسلمان بھی تذبذب میں پڑ گئے تھے۔ اس آیت میں انہیں ہی خطاب کیا جا رہا ہے اور جہاد کی پر زور ترغیب دی جا رہی ہے۔ [41] جہاد میں عدم شمولیت سے تم زیادہ سے زیادہ اپنی جانیں یا کچھ مال بچا لو گے۔ فصلیں کاٹ لو گے یا سفر کی صعوبتوں سے بچ جاؤ گے اور یہ سب مفادات جنت کی دائمی نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ ٭٭
ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے، ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لیے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کو سب سے فرما دیا۔ کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو؟ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں پر ریجھ کر آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت میں ہے۔“۱؎[صحیح مسلم:2858] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ”میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثواب دیتا ہے۔“ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔“ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ”دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔“۱؎[تفسیر ابن ابی حاتم:10030/6:ضعیف] مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا: ”بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا بہت بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔“
پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں پھولنا نہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کے ساتھی اوروں کو کر دے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت «اِنْفِرُوْاخِفَافًاوَّثِــقَالًا»۱؎[9-التوبہ:41] اور آیت «مَاكَانَلِاَھْلِالْمَدِيْنَةِوَمَنْحَوْلَھُمْمِّنَالْاَعْرَابِاَنْيَّتَخَلَّفُوْاعَنْرَّسُوْلِاللّٰہِ»۱؎[9-التوبہ:120] یہ سب آیتیں آیت «وَمَاكَانَالْمُؤْمِنُوْنَلِيَنْفِرُوْاكَاۗفَّةً»۱؎[9-التوبہ:12] سے منسوخ ہیں۔ لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں۔“ فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔