حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے اور گلا گھٹنے والا جانور اور جسے چوٹ لگی ہو اور گرنے والا اور جسے سینگ لگا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو، مگر جو تم ذبح کر لو، اور جو تھانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تم تیروں کے ساتھ قسمت معلوم کرو۔ یہ سراسر نافرمانی ہے۔ آج وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تمھارے دین سے مایوس ہوگئے، تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پھر جو شخص بھوک کی کسی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 3) ➊ {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ:} شروع کی آیت میں جن جانوروں کے حرام ہونے کے بیان کا وعدہ ” سوائے ان کے جو تم پر پڑھے جائیں گے “ کے ساتھ کیا گیا تھا اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔
➋ {الْمَيْتَةُ:} مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دیے گئے ہیں، مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں (کیونکہ ان میں دم مسفوح نہیں ہوتا) اور خون جگر اور تلی ہیں۔“ [أحمد:97/2 ح: ۵۷۲۵۔ ابن ماجہ: ۳۳۱۴، و صححہ الألبانی فی الصحیحۃ: ۱۱۱۸] حرام خون اور لحم خنزیر کی تفصیل سورۂ انعام (۱۴۵) میں ہے۔
➌ {وَ الْمُنْخَنِقَةُ:} گلا گھٹنے والا جانور، خواہ خود بخود رسی وغیرہ سے گھٹ کر مر جائے یا کوئی گلا گھونٹ کر مار دے۔
➍ {وَ الْمَوْقُوْذَةُ:} جسے کسی لاٹھی یا پتھر وغیرہ کی چوٹ سے مارا جائے۔
➎ {اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ:} اس کا تعلق اس سے پہلے مذکور پانچ چیزوں کے ساتھ ہے کہ ان پانچوں چیزوں میں سے کسی کے اندر اگر جان باقی ہو اور مرنے سے پہلے اسے ذبح کر لو تو وہ حلال ہے۔ شرعی ذبح یہ ہے کہ حلال جانور کو {” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“} کہہ کر کسی تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی شرعی طریقہ ہے کہ کھڑے اونٹ کے حلق کے گڑھے میں چھری وغیرہ ماری جائے۔ ذبح اور نحر حلق یا لبہ (حلق کے گڑھے) ہی میں ہوتا ہے، البتہ اگر مجبوری ہو، مثلاً جانور قابو نہیں آ رہا، یا ایسی جگہ ہے جہاں پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہے تو {” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ “} پڑھ کر جہاں سے بھی ہو سکے چھری یا نیزے سے خون بہا کر ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر نہیں بلکہ اتفاقاً گردن الگ ہو جائے تو وہ بھی حلال ہے۔
➏ {وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ:} مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے لیے جو جگہیں مقرر کرتے انھیں نصب کہا جاتا تھا، کیونکہ عموماً وہاں کوئی نشان نصب ہوتا، مثلاً بت، درخت، قبر یا دریا وغیرہ۔ پھر اس کے پاس ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ ایسی جگہوں کو استھان، تھان اور آستانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ایسے جانور بھی حرام ہیں خواہ ان پر {”بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“} بھی پڑھا جائے، اگرچہ ان کا ذکر «وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ» کے ضمن میں آ چکا تھا مگر مزید تاکید کے لیے ان کو الگ بھی ذکر فرمایا۔ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ”بوانہ“ مقام پر اونٹ نحر کرے گا، وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ”بوانہ “ مقام پر ایک اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہاں ایام جاہلیت کے (انصاب) استھانوں میں سے کوئی استھان تھا؟“ لوگوں نے کہا: ”نہیں! “ آپ نے مزید پوچھا: ”کیا وہاں مشرکین کی عیدوں (میلوں) میں سے کوئی عید تھی؟“ لوگوں نے کہا:” نہیں!“ آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“ [أبو داوٗد، الأیمان والنذور، باب ما یؤمر بہ من وفاء النذر: ۳۳۱۳]
➐ {وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ:} {”اَزْلاَمٌ“} یہ {”زَلَمٌ “} کی جمع ہے، یہ وہ تیر تھے جو قسمت معلوم کرنے کے لیے ہبل بت کے پاس رکھے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویروں کے ہاتھوں میں بھی تھمائے ہوئے تھے، بلکہ لوگ اپنے ساتھ بھی قسمت آزمائی کے یہ تھیلے رکھ لیتے تھے، جیسا کہ سراقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتے ہوئے ان تیروں سے فال نکالی تھی۔ ان میں سے کسی پر {”اِفْعَلْ“} (کر لو) لکھا ہوتا، کسی پر {” لَا تَفْعَلْ “} (مت کرو) لکھا ہوتا اور کوئی خالی ہوتا۔ قسمت معلوم کرنے والا تیر نکالتا، جو حکم نکلتا اس پر عمل کرتا، اگر خالی تیر نکلتا تو دوبارہ تیر نکالتا۔ اس قسم کے تمام کام، خواہ انھیں فال نامہ کہا جائے یا استخارہ یا کسی نجومی سے پوچھا جائے حرام ہیں، شرک ہیں کیونکہ غیب تو اﷲ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں، مسنون استخارے میں اس چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ «وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ» کا ایک اور مطلب بھی ہے، یعنی جوئے کے تیروں کے ذریعے سے ذبح شدہ گوشت کے حصے تقسیم کرنا، اس میں کسی کا حصہ نکل آتا، کوئی محروم رہ جاتا، یہ وہی چیز ہے جسے آج کل لاٹری کہا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (قرطبی)
➑ {اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ……:} یعنی اب تمھاری طاقت اس قدر مستحکم ہو گئی ہے کہ تمھارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیز سے قطعی مایوس ہو گئے ہیں کہ تمھارے دین کو نیچا دکھا سکیں۔
➒ {اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ……:} طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔“ آپ نے فرمایا: ”کون سی آیت؟“ اس نے یہ آیت پڑھی: «اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا» [المائدۃ: ۳] یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ (آیت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، آپ (۹ذوالحجہ کو) عرفہ میں تھے (پچھلے پہر کا وقت تھا) اور جمعۃ المبارک کا دن۔“ [بخاری، الإیمان، باب زیادۃ الإیمان و نقصانہ: ۴۵]
دین کو مکمل کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان، فرائض، سنن، حدود اور احکام بیان کر دیے گئے ہیں اور کفر و شرک کا خاتمہ کر کے اس نعمت کو مکمل کر دیا گیا ہے۔ اب دین میں جو حرام ہونا تھا یا حلال ہونا تھا وہ ہو چکا، اب اگر کوئی اس میں تبدیلی یا اضافہ کرے گا، یا نئی چیز نکالے گا وہ دین نہیں ہو سکتی بلکہ دین میں بدعت ہے، جو سراسر گمراہی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ] ”جو ہمارے اس امر(دین) میں کوئی نئی چیز شروع کرے گا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [بخاری، الصلح، باب إذا اصطلحوا……: ۲۶۹۷]
➓ {فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ ……:} یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور اور لاچار آدمی اگر حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور اسے جائز نہ سمجھنے لگے اور دوسرا بقدر ضرورت کھائے، حد سے نہ گزرے۔ معلوم ہوا حرام کھانے کا تعلق بھوک اور حقیقی مجبوری سے ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اضطرار کا بہانہ بنا کر سود کھانا شروع کر دے، یہ مراد نہیں۔
➋ {الْمَيْتَةُ:} مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دیے گئے ہیں، مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں (کیونکہ ان میں دم مسفوح نہیں ہوتا) اور خون جگر اور تلی ہیں۔“ [أحمد:97/2 ح: ۵۷۲۵۔ ابن ماجہ: ۳۳۱۴، و صححہ الألبانی فی الصحیحۃ: ۱۱۱۸] حرام خون اور لحم خنزیر کی تفصیل سورۂ انعام (۱۴۵) میں ہے۔
➌ {وَ الْمُنْخَنِقَةُ:} گلا گھٹنے والا جانور، خواہ خود بخود رسی وغیرہ سے گھٹ کر مر جائے یا کوئی گلا گھونٹ کر مار دے۔
➍ {وَ الْمَوْقُوْذَةُ:} جسے کسی لاٹھی یا پتھر وغیرہ کی چوٹ سے مارا جائے۔
➎ {اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ:} اس کا تعلق اس سے پہلے مذکور پانچ چیزوں کے ساتھ ہے کہ ان پانچوں چیزوں میں سے کسی کے اندر اگر جان باقی ہو اور مرنے سے پہلے اسے ذبح کر لو تو وہ حلال ہے۔ شرعی ذبح یہ ہے کہ حلال جانور کو {” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“} کہہ کر کسی تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی شرعی طریقہ ہے کہ کھڑے اونٹ کے حلق کے گڑھے میں چھری وغیرہ ماری جائے۔ ذبح اور نحر حلق یا لبہ (حلق کے گڑھے) ہی میں ہوتا ہے، البتہ اگر مجبوری ہو، مثلاً جانور قابو نہیں آ رہا، یا ایسی جگہ ہے جہاں پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہے تو {” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ “} پڑھ کر جہاں سے بھی ہو سکے چھری یا نیزے سے خون بہا کر ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر نہیں بلکہ اتفاقاً گردن الگ ہو جائے تو وہ بھی حلال ہے۔
➏ {وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ:} مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے لیے جو جگہیں مقرر کرتے انھیں نصب کہا جاتا تھا، کیونکہ عموماً وہاں کوئی نشان نصب ہوتا، مثلاً بت، درخت، قبر یا دریا وغیرہ۔ پھر اس کے پاس ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ ایسی جگہوں کو استھان، تھان اور آستانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ایسے جانور بھی حرام ہیں خواہ ان پر {”بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“} بھی پڑھا جائے، اگرچہ ان کا ذکر «وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ» کے ضمن میں آ چکا تھا مگر مزید تاکید کے لیے ان کو الگ بھی ذکر فرمایا۔ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ”بوانہ“ مقام پر اونٹ نحر کرے گا، وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ”بوانہ “ مقام پر ایک اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہاں ایام جاہلیت کے (انصاب) استھانوں میں سے کوئی استھان تھا؟“ لوگوں نے کہا: ”نہیں! “ آپ نے مزید پوچھا: ”کیا وہاں مشرکین کی عیدوں (میلوں) میں سے کوئی عید تھی؟“ لوگوں نے کہا:” نہیں!“ آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“ [أبو داوٗد، الأیمان والنذور، باب ما یؤمر بہ من وفاء النذر: ۳۳۱۳]
➐ {وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ:} {”اَزْلاَمٌ“} یہ {”زَلَمٌ “} کی جمع ہے، یہ وہ تیر تھے جو قسمت معلوم کرنے کے لیے ہبل بت کے پاس رکھے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویروں کے ہاتھوں میں بھی تھمائے ہوئے تھے، بلکہ لوگ اپنے ساتھ بھی قسمت آزمائی کے یہ تھیلے رکھ لیتے تھے، جیسا کہ سراقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتے ہوئے ان تیروں سے فال نکالی تھی۔ ان میں سے کسی پر {”اِفْعَلْ“} (کر لو) لکھا ہوتا، کسی پر {” لَا تَفْعَلْ “} (مت کرو) لکھا ہوتا اور کوئی خالی ہوتا۔ قسمت معلوم کرنے والا تیر نکالتا، جو حکم نکلتا اس پر عمل کرتا، اگر خالی تیر نکلتا تو دوبارہ تیر نکالتا۔ اس قسم کے تمام کام، خواہ انھیں فال نامہ کہا جائے یا استخارہ یا کسی نجومی سے پوچھا جائے حرام ہیں، شرک ہیں کیونکہ غیب تو اﷲ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں، مسنون استخارے میں اس چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ «وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ» کا ایک اور مطلب بھی ہے، یعنی جوئے کے تیروں کے ذریعے سے ذبح شدہ گوشت کے حصے تقسیم کرنا، اس میں کسی کا حصہ نکل آتا، کوئی محروم رہ جاتا، یہ وہی چیز ہے جسے آج کل لاٹری کہا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (قرطبی)
➑ {اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ……:} یعنی اب تمھاری طاقت اس قدر مستحکم ہو گئی ہے کہ تمھارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیز سے قطعی مایوس ہو گئے ہیں کہ تمھارے دین کو نیچا دکھا سکیں۔
➒ {اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ……:} طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔“ آپ نے فرمایا: ”کون سی آیت؟“ اس نے یہ آیت پڑھی: «اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا» [المائدۃ: ۳] یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ (آیت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، آپ (۹ذوالحجہ کو) عرفہ میں تھے (پچھلے پہر کا وقت تھا) اور جمعۃ المبارک کا دن۔“ [بخاری، الإیمان، باب زیادۃ الإیمان و نقصانہ: ۴۵]
دین کو مکمل کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان، فرائض، سنن، حدود اور احکام بیان کر دیے گئے ہیں اور کفر و شرک کا خاتمہ کر کے اس نعمت کو مکمل کر دیا گیا ہے۔ اب دین میں جو حرام ہونا تھا یا حلال ہونا تھا وہ ہو چکا، اب اگر کوئی اس میں تبدیلی یا اضافہ کرے گا، یا نئی چیز نکالے گا وہ دین نہیں ہو سکتی بلکہ دین میں بدعت ہے، جو سراسر گمراہی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ] ”جو ہمارے اس امر(دین) میں کوئی نئی چیز شروع کرے گا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [بخاری، الصلح، باب إذا اصطلحوا……: ۲۶۹۷]
➓ {فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ ……:} یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور اور لاچار آدمی اگر حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور اسے جائز نہ سمجھنے لگے اور دوسرا بقدر ضرورت کھائے، حد سے نہ گزرے۔ معلوم ہوا حرام کھانے کا تعلق بھوک اور حقیقی مجبوری سے ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اضطرار کا بہانہ بنا کر سود کھانا شروع کر دے، یہ مراد نہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر 173۔ 3۔ 2 گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ 3۔ 3 کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مرگیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مرگیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ 3۔ 4 چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ 3۔ 5 نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مرگیا۔ 3۔ 6 یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مرگیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھالیا جاتا تھا۔ 3۔ 7 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ 3۔ 8 مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔ 3۔ 9 وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ 3۔ 10 یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
3۔ تم پر (یہ چیزیں) حرام کی گئی ہیں [11] مردار، خون، سؤر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام سے مشہور [12] کر دی جائے۔ نیز وہ جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرگیا ہو [13] نیز وہ جانور جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، الا یہ کہ (ابھی وہ زندہ ہو اور) تم [14] اسے ذبح کر لو۔ نیز وہ جانور بھی جو کسی آستانے [15] پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز ہر وہ چیز بھی حرام ہے جس میں فال کے تیروں سے تم اپنی قسمت [16] معلوم کرو۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے پوری طرح مایوس [17] ہو گئے ہیں۔ لہذا ان سے مت ڈرو، صرف مجھی سے ڈرو۔ آج کے دن میں نے تمہارا [18] دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت [19] پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام [20] کو پسند کیا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کے مارے (ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کو کھانے پر) مجبور ہو جائے [21] بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ یقیناً بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
[11] حلت و حرمت کی علت:۔
حلت و حرمت کے قانون میں شریعت نے صرف اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ حرام چیزوں کے طبی لحاظ سے جسم انسانی پر کیا مفید یا مضر اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو سب سے پہلے سنکھیا اور دوسرے زہروں کا نام لیا جاتا، بلکہ زیادہ تر اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان حرام اشیاء کے انسان کے اخلاق پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طہارت اور پاکیزگی سے ان کا کس قدر تعلق ہے نیز ایسی تمام چیزیں بھی حرام قرار دی گئیں جنہیں نیت کی گندگی اور عقیدہ کی خباثت حلال سے حرام بنا دیتی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اللہ نے حرام کی ہے اس کی حکمت بہرحال انسان کی سمجھ میں آجائے۔
[12] اس آیت میں جن حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی چار چیزوں کا ذکر پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 173 میں آ چکا ہے اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
[13] چونکہ خون حرام ہے اس لیے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی۔ ایسی ہی چار صورتوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ پہلی صورت اختناق یا گلا گھونٹ کر مرنے کی ہے پھر اسی کی آگے کئی صورتیں ہیں جیسے کوئی گلا دبا کر یا مروڑ کر مار ڈالے۔ یا اسی رسی کا پھندا لگ جائے یا گردن کسی درخت کی شاخوں میں پھنس جائے اور جانور مر جائے۔ دوسری صورت چوٹ یا ضرب سے مرنے کی ہے۔ یہ چوٹ کسی پتھر وغیرہ کی بھی ہو سکتی ہے اور لاٹھی وغیرہ کی بھی۔ تیسری صورت گر کر مرنا ہے خواہ کسی پہاڑی یا درخت سے گر کر مر جائے یا کسی کھڈ یا کنوئیں یا ندی نالے میں گر کر مر جائے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے لڑیں اور ان میں سے کوئی مر جائے ایسے سب مردار حرام ہیں۔
[12] اس آیت میں جن حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی چار چیزوں کا ذکر پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 173 میں آ چکا ہے اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
[13] چونکہ خون حرام ہے اس لیے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی۔ ایسی ہی چار صورتوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ پہلی صورت اختناق یا گلا گھونٹ کر مرنے کی ہے پھر اسی کی آگے کئی صورتیں ہیں جیسے کوئی گلا دبا کر یا مروڑ کر مار ڈالے۔ یا اسی رسی کا پھندا لگ جائے یا گردن کسی درخت کی شاخوں میں پھنس جائے اور جانور مر جائے۔ دوسری صورت چوٹ یا ضرب سے مرنے کی ہے۔ یہ چوٹ کسی پتھر وغیرہ کی بھی ہو سکتی ہے اور لاٹھی وغیرہ کی بھی۔ تیسری صورت گر کر مرنا ہے خواہ کسی پہاڑی یا درخت سے گر کر مر جائے یا کسی کھڈ یا کنوئیں یا ندی نالے میں گر کر مر جائے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے لڑیں اور ان میں سے کوئی مر جائے ایسے سب مردار حرام ہیں۔
[14] شکار کے احکام:۔
عدیؓ بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں بسم اللہ پڑھ کر سکھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور وہ میرے لیے شکار روکے تو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ تم کھا سکتے ہو۔“ میں نے کہا ”اگر کتے نے اسے مار ڈالا ہو مگر کھایا نہ ہو تو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کھا سکتے ہو۔“ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی ہو اور شکار مر چکا ہو تو مت کھاؤ۔ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ کس کتے نے اسے مارا ہے۔ پھر میں نے پوچھا: ”اگر شکار چوڑائی میں لگنے والی کسی چیز سے مر جائے تو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ”اگر پھٹ جائے یعنی خون نکل آئے تو کھا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دوسری روایت کے مطابق) فرمایا۔ ”اگر بسم اللہ پڑھ کر سکھائے ہوئے کتے نے شکار سے خود بھی کچھ کھا لیا ہو تو پھر مت کھاؤ کیونکہ اس کتے نے یہ شکار اپنے لیے کیا تھا تمہارے لیے نہیں۔“
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ]
[15] ایسا مقام جس کی نسبت عوام میں مشہور ہو کہ وہاں جا کر قربانی دینے سے یا ایسی نذر ماننے سے انسانوں کی فلاں تکلیف رفع ہو جاتی ہے یا اسے فلاں فائدہ پہنچتا ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہوں خواہ وہاں کوئی بت موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی درخت یا کسی پتھر سے ایسے ہی فوائد منسوب کیے گئے ہوں تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہو گا چنانچہ درج ذیل حدیث اس کی پوری وضاحت کرتی ہے۔
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ]
[15] ایسا مقام جس کی نسبت عوام میں مشہور ہو کہ وہاں جا کر قربانی دینے سے یا ایسی نذر ماننے سے انسانوں کی فلاں تکلیف رفع ہو جاتی ہے یا اسے فلاں فائدہ پہنچتا ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہوں خواہ وہاں کوئی بت موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی درخت یا کسی پتھر سے ایسے ہی فوائد منسوب کیے گئے ہوں تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہو گا چنانچہ درج ذیل حدیث اس کی پوری وضاحت کرتی ہے۔
آستانے کی تعریف اور ان پر قربانی کا حکم:۔
سیدنا ثابت بن ضحاک فرماتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ قربانی کرے گا پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ”میں نے بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی تھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو۔“ لوگوں نے کہا ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کیا وہاں مشرکوں کی عیدوں میں سے کوئی عید (میلہ، عرس) تو نہیں لگتا تھا؟“ لوگوں نے کہا ”نہیں“ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا، ”اپنی نذر پوری کرو۔ البتہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ ایسی چیز میں جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔“
[ابو داؤد کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ مایومر بہ من الوفاء عن النذر]
[16] قسمت کے تیروں کے ذریعہ غیب کی خبریں یا اپنی اچھی یا بری قسمت کا حال معلوم کرنا محض توہم پرستی ہے اور ایمان بالجبت میں داخل ہے۔ یہ تیر عموماً کسی بت خانہ میں یا کافروں کے گمان کے مطابق کسی مقدس مقام پر پڑے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم کام یا سفر درپیش ہوتا تو پہلے ان تیروں سے حالات معلوم کرتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے۔
1۔
[ابو داؤد کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ مایومر بہ من الوفاء عن النذر]
[16] قسمت کے تیروں کے ذریعہ غیب کی خبریں یا اپنی اچھی یا بری قسمت کا حال معلوم کرنا محض توہم پرستی ہے اور ایمان بالجبت میں داخل ہے۔ یہ تیر عموماً کسی بت خانہ میں یا کافروں کے گمان کے مطابق کسی مقدس مقام پر پڑے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم کام یا سفر درپیش ہوتا تو پہلے ان تیروں سے حالات معلوم کرتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے۔
1۔
عرب میں فال گیری کا رواج:۔
سیدہ عائشہؓ واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرنا چاہا۔ سراقہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنا گھوڑا دوڑایا تاکہ جلد از جلد انہیں جا پکڑوں جب میں ان کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر گیا۔ میں نے اٹھ کر اپنا ہاتھ اپنے ترکش میں ڈالا۔ اس سے تیر نکال کر یہ فال نکالی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤں یا نہ پہنچاؤں۔ مگر فال میں وہ چیز نکلی جو مجھے پسند نہ تھی۔ تاہم میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور فال کی کوئی پروا نہ کی۔
[بخاری باب بنیان الکعبہ۔ باب ھجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ]
2۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (فتح مکہ کے موقع پر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر تصویریں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کی تصویروں کو دیکھا، ان کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی تھی۔“
[بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا]
[17] یعنی اب اسلام کو اتنا عروج حاصل ہو چکا ہے کہ کافر اب اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ نہ ہی اب کفر کے غالب آنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔
[بخاری باب بنیان الکعبہ۔ باب ھجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ]
2۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (فتح مکہ کے موقع پر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر تصویریں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کی تصویروں کو دیکھا، ان کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی تھی۔“
[بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا]
[17] یعنی اب اسلام کو اتنا عروج حاصل ہو چکا ہے کہ کافر اب اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ نہ ہی اب کفر کے غالب آنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔
[18] تکمیل دین کا مطلب:۔
دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور جزئی احکام و ہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ اور نمونہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی پہلو میں خواہ وہ معاشرتی پہلو ہو یا معاشی ہو یا سیاسی ہو۔ باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لحاظ سے اسلام میں موجودہ مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا اور کسی ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات کی ہے۔
[19] اسلام بہت بڑی نعمت ہے:۔
اللہ کی انسان پر اور بالخصوص مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ایسی جامع ہدایات و احکام عطا فرما دیئے ہیں۔ جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہو جاتی ہے اور اخروی نجات بھی حاصل ہو جاتی ہے اور دوسروں کا دست نگر بھی نہیں بننا پڑتا۔
[20] یعنی جس طرح کائنات کی تمام اشیاء اللہ کے حکم کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اسی طرح انسان بھی اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کائنات سے ہم آہنگ ہو جائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسی بات کو اپنا ضابطہ حیات بنا لے۔ ان معنوں میں سیدنا آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کا یہی دین یعنی اسلام ہی دین رہا ہے۔ اور اسی کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ یہ آیت 9 ذی الحجہ 10ھ کو عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن جمعہ کا دن تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
1۔
[20] یعنی جس طرح کائنات کی تمام اشیاء اللہ کے حکم کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اسی طرح انسان بھی اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کائنات سے ہم آہنگ ہو جائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسی بات کو اپنا ضابطہ حیات بنا لے۔ ان معنوں میں سیدنا آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کا یہی دین یعنی اسلام ہی دین رہا ہے۔ اور اسی کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ یہ آیت 9 ذی الحجہ 10ھ کو عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن جمعہ کا دن تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
1۔
تکمیل دین کا دن:۔
یہودی لوگ (کعب احبار) سیدنا عمرؓ سے کہنے لگے: تم ایک ایسی آیت پڑھتے ہو کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اسے عید (جشن) کا دن مقرر کر لیتے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ یہ آیت کب اور کہاں اتری اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے۔ یہ آیت عرفہ کے دن اتری اور ہم اس وقت عرفات میں تھے۔ سفیان (ایک راوی) نے کہا۔ مجھے شک ہے اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔
[بخاري كتاب التفسير اور بخاري كي دوسري روايات مثلاً كتاب الايمان۔ باب زيادة الايمان و نقصانه اور كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة۔ نيز مسلم۔ كتاب التفسير ميں وضاحت هے كه يه جمعه كا دن تها۔]
2۔ سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) رہے مگر حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ آپ حج کرنے جا رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کے لئے مدینہ آگئے۔ [مسلم۔ كتاب الحج۔ باب حجة النبي]
[21] سورۃ بقرہ کی آیت 173 میں یہی مضمون آچکا ہے۔ یہاں ﴿غير متجانف لاثم﴾ کے الفاظ ہیں اور وہاں ﴿غير باغ ولا عاد﴾ کے اور مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے تفصیل مذکورہ آیت میں دیکھ لی جائے۔ سابقہ آیت میں حرام کردہ اشیاء مذکور ہوئی تھیں اس آیت کا یہ جملہ انہیں اشیاء سے متعلق ہے۔
[بخاري كتاب التفسير اور بخاري كي دوسري روايات مثلاً كتاب الايمان۔ باب زيادة الايمان و نقصانه اور كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة۔ نيز مسلم۔ كتاب التفسير ميں وضاحت هے كه يه جمعه كا دن تها۔]
2۔ سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) رہے مگر حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ آپ حج کرنے جا رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کے لئے مدینہ آگئے۔ [مسلم۔ كتاب الحج۔ باب حجة النبي]
[21] سورۃ بقرہ کی آیت 173 میں یہی مضمون آچکا ہے۔ یہاں ﴿غير متجانف لاثم﴾ کے الفاظ ہیں اور وہاں ﴿غير باغ ولا عاد﴾ کے اور مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے تفصیل مذکورہ آیت میں دیکھ لی جائے۔ سابقہ آیت میں حرام کردہ اشیاء مذکور ہوئی تھیں اس آیت کا یہ جملہ انہیں اشیاء سے متعلق ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
شیخ ابوعلی افصاح رحمہ اللہ میں فرماتے ہیں ”جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھا لیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھالے اس میں دو وجوہات ہیں۔“ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ» ۔
«مُتَرَدِّیـةُ» وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گر پڑے، ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:498/9]
«نَـطِیْحَـہ» وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مر جائے، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے «عَیْـنٌ کَحِـیْلٌ» اور «کَفٌّ خَضِیْبٌ» ان مواقع میں «کَحِیْلَـةٌ» اور «خَضِیبْـَةٌ» نہیں کہتے، اس جگہ تے اس لیے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام «طَرِیْقَةٌ طَوِیْلةٌ» ۔
بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی تانیث پر دلالت ہو جائے بخلاف «کَحِـیْلٌ» اور «خَضِیبْـَ» کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے۔ «مَاۤ اَکَلَ السَّـبُعُ» سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھا جائے اور اس سبب سے مر جائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے۔
«مُتَرَدِّیـةُ» وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گر پڑے، ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:498/9]
«نَـطِیْحَـہ» وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مر جائے، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے «عَیْـنٌ کَحِـیْلٌ» اور «کَفٌّ خَضِیْبٌ» ان مواقع میں «کَحِیْلَـةٌ» اور «خَضِیبْـَةٌ» نہیں کہتے، اس جگہ تے اس لیے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام «طَرِیْقَةٌ طَوِیْلةٌ» ۔
بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی تانیث پر دلالت ہو جائے بخلاف «کَحِـیْلٌ» اور «خَضِیبْـَ» کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے۔ «مَاۤ اَکَلَ السَّـبُعُ» سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھا جائے اور اس سبب سے مر جائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے۔
اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھا لیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے ’ مگر وہ جسے تم ذبح کرلو ‘، یعنی گلا گھونٹا ہوا، لٹھ مارا ہوا، اوپر سے گر پڑا ہوا، سینگ اور ٹکر لگا ہوا، درندوں کا کھایا ہوا، اگر اس حالت میں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہوجائیں گے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ، سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ، حسن اور سدی رحمة الله علیہم یہی فرماتے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ”اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بے شک ذبح کرکے کھا لو۔“
ابن جریر میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔“ طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ ”بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:502/9]
جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے۔
امام مالک رحمة الله اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں ”میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہو گا؟“ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کرکے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ”اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہیئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں۔“ سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ”مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی۔“ آپ رحمہ اللہ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے؟ فرمایا ”میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔“ یہ ہے امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لیے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہیئے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ، سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ، حسن اور سدی رحمة الله علیہم یہی فرماتے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ”اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بے شک ذبح کرکے کھا لو۔“
ابن جریر میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔“ طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ ”بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:502/9]
جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے۔
امام مالک رحمة الله اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں ”میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہو گا؟“ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کرکے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ”اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہیئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں۔“ سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ”مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی۔“ آپ رحمہ اللہ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے؟ فرمایا ”میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔“ یہ ہے امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لیے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہیئے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بخاری و مسلم میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھا لو، سوائے دانت اور ناخن کے، یہ اس لیے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں }} ۱؎ [صحیح بخاری:5498]
مسند احمد اور سنن میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ”ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے } }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:2825،قال الشيخ الألباني:-منکر و ضعیف] یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ «نُصُب» پر جو جانور ذبح کیے جائیں وہ بھی حرام ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں،۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:508/9]
ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ تین سو ساٹھ بت تھے، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے“ ۱؎ [صحیح بخاری:1601]
پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کھانا بھی حرام کر دیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے، اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔
مسند احمد اور سنن میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ”ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے } }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:2825،قال الشيخ الألباني:-منکر و ضعیف] یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ «نُصُب» پر جو جانور ذبح کیے جائیں وہ بھی حرام ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں،۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:508/9]
ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ تین سو ساٹھ بت تھے، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے“ ۱؎ [صحیح بخاری:1601]
پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کھانا بھی حرام کر دیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے، اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔
«اَزْلاَم» سے تقسیم کرنا حرام ہے، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے، ایک پر لکھا ہوا تھا «افعل» یعنی کر، دوسرے پر لکھا ہوا تھا «لاتعفل» یعنی نہ کر، تیسرا خالی تھا۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے، اگر حکم، کر، نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، «اَزْلاَم» جمع ہے «زَلْم» کی اور بعض «زَلَم» بھی کہتے ہیں۔
«استسقام» کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تھے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کے مجسمے گڑے ہوئے پائے، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اللہ انہیں غارت کرے، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1601]
«استسقام» کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تھے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کے مجسمے گڑے ہوئے پائے، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اللہ انہیں غارت کرے، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1601]
صحیح حدیث میں ہے کہ ”سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا۔“ ۱؎ [صحیح بخاری:3906]
ابن مردویہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے } ۱؎ [مجمع الزوائد:118/5:حسن بالشواهد]
مجاہد رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ”عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:512/9]
ابن مردویہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے } ۱؎ [مجمع الزوائد:118/5:حسن بالشواهد]
مجاہد رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ”عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:512/9]
ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا، ’ ایمان والو! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے ‘۔
اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ‘۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ ’ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو ‘۔ [مسند احمد]۔
اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا، ’ ایمان والو! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے ‘۔
اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ‘۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ ’ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو ‘۔ [مسند احمد]۔
بخاری اور سنن میں مروی ہے {جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ { جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہیئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے «اللَّهُم إِني أَسْتَخِيرُكَ، وأستقدِرُكَ بقُدْرِتك، و وأَسْأَلُكَ مِنْ فضْلِكَ العَظِيم، فإِنَّكَ تَقْدِرُ ولا أَقْدِرُ، وتعْلَمُ ولا أَعْلَمُ، وَأَنتَ علاَّمُ الغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كنْتَ تعْلَمُ أَنَّ هذا الأمرَ خَيْرٌ لي في دِيني وَمَعَاشي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، فاقْدُرْهُ لي وَيَسِّرْهُ لي، ثمَّ بَارِكْ لي فِيهِ، وَإِن كُنْتَ تعْلمُ أَنَّ هذَا الأَمْرَ شرٌّ لي في دِيني وَمَعاشي وَعَاقبةِ أَمَرِي، فاصْرِفهُ عَني، وَاصْرفني عَنهُ، وَاقدُرْ لي الخَيْرَ حَيْثُ كانَ، ثُمَّ أرضني بِهِ» ۔
یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بے علم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اسے میرے لیے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لیے خیر و برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و رضا مند کر دے }}۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1162]
دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ «ھٰذَا الاَمْرَ» جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو «ھٰذَا النّکَاحَ» سفر میں ہو تو «ھٰذَا السَّـفَـرَ» بیوپار میں ہو تو «ھٰذَا التِّجَارَۃَ» وغیرہ۔ بعض روایتوں میں «خَيْرٌ لي في دِيني» سے «أَمْرِي» تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا «خَیْرٌ لِّیْ فِیْ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ» ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں۔
یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بے علم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اسے میرے لیے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لیے خیر و برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و رضا مند کر دے }}۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1162]
دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ «ھٰذَا الاَمْرَ» جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو «ھٰذَا النّکَاحَ» سفر میں ہو تو «ھٰذَا السَّـفَـرَ» بیوپار میں ہو تو «ھٰذَا التِّجَارَۃَ» وغیرہ۔ بعض روایتوں میں «خَيْرٌ لي في دِيني» سے «أَمْرِي» تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا «خَیْرٌ لِّیْ فِیْ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ» ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے ’ آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ‘، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کر لیں۔
چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا رہے } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2812]
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہو گئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا۔ اسی لیے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کرے گا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند و بالا رکھے گا۔
پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کر دیا، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں ‘۔
چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا رہے } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2812]
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہو گئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا۔ اسی لیے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کرے گا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند و بالا رکھے گا۔
پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کر دیا، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں ‘۔
’ نہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی نبی کی تمہیں حاجت ہے ‘، اللہ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کیا ہے، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہی۔
جیسے فرمان باری ہے آیت «وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ۱؎ [6-الأنعام:115] یعنی ’ تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے ‘۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لیے تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے۔
جیسے فرمان باری ہے آیت «وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ۱؎ [6-الأنعام:115] یعنی ’ تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے ‘۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لیے تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا۔“
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔“
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”اس آخری حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے تھے اتنے میں جبرائیل علیہ السلام کی تجلی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اڑھادی۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11085:مرسل و ضعیف]۔
ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ”اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11086:مرسل و ضعیف]
{ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { سچ ہے } }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11087:ضعیف]
اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ { اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائے گا، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:145،146]
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔“
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”اس آخری حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے تھے اتنے میں جبرائیل علیہ السلام کی تجلی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اڑھادی۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11085:مرسل و ضعیف]۔
ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ”اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11086:مرسل و ضعیف]
{ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { سچ ہے } }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11087:ضعیف]
اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ { اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائے گا، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:145،146]
مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا تم جو اس آیت «اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا» [5۔ المائدہ:3] الخ، کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے“ ۱؎ [صحیح بخاری:3017] تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ کعب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن بھی۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3044،قال الشيخ الألباني:-صحیح]۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے۔“ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ”جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔“ ۱؎ [الدر المنشور للسیوطی:457/2:ضعیف] سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقف میں کھڑے ہوئے تھے۔“ ۱؎ [طبرانی کبیر:6916:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11113:ضعیف]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن نبی بنائے گئے، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا۔ ۱؎ [مسند احمد:277/1:ضعیف] اس میں سورۃ المائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لیے راوی کو شبہ سا ہوگیا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ کعب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن بھی۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3044،قال الشيخ الألباني:-صحیح]۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے۔“ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ”جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔“ ۱؎ [الدر المنشور للسیوطی:457/2:ضعیف] سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقف میں کھڑے ہوئے تھے۔“ ۱؎ [طبرانی کبیر:6916:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11113:ضعیف]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن نبی بنائے گئے، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا۔ ۱؎ [مسند احمد:277/1:ضعیف] اس میں سورۃ المائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لیے راوی کو شبہ سا ہوگیا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کی نسبت فرمایا تھا کہ { جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ علی ہے }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1750،] گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی، ۱؎ [الدر المنشور للسیوطی:457/2:ضعیف] جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں۔
بالکل صحیح اور بے شک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے، امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب اور امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابوطالب اور امیر المؤمنین سیدنا امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے اور اسی کو شعبی، قتادہ، شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
پھر فرماتا ہے، ’ جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بے بس ہو جائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لا سکتا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے ‘۔ وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بے بسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا۔
صحیح ابن حبان میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا۔“ ۱؎ [صحیح ابن حبان:2742:قال الشيخ الألباني:صحیح]
بالکل صحیح اور بے شک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے، امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب اور امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابوطالب اور امیر المؤمنین سیدنا امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے اور اسی کو شعبی، قتادہ، شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
پھر فرماتا ہے، ’ جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بے بس ہو جائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لا سکتا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے ‘۔ وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بے بسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا۔
صحیح ابن حبان میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا۔“ ۱؎ [صحیح ابن حبان:2742:قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد میں ہے { جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:1949:ضعیف]
اسی لیے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔
اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھا لے؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کر لے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھا لے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے، اس میں دو قول ہیں امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار، بے قراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے، تو ہمارے لیے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے } }۔ ۱؎ [مسند احمد:218/5:حسن بالشواهد] اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے، لیکن مسند والی مرفوع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔
اسی لیے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔
اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھا لے؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کر لے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھا لے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے، اس میں دو قول ہیں امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار، بے قراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے، تو ہمارے لیے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے } }۔ ۱؎ [مسند احمد:218/5:حسن بالشواهد] اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے، لیکن مسند والی مرفوع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔
ابن عون فرماتے ہیں حسن رحمہ اللہ کے پاس سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کی کتاب تھی، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے، ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11132:ضعیف]
{ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حرام کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کر سکے اور جب تک ان کا سامان نہ آ جائے } }۔ ۱؎ [طبرانی کبیر:11129:مرسل و ضعیف]
{ ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال حرام کا سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہو جائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہو جائے } اس نے پھر دریافت کیا کہ ”وہ محتاجی کون سی جس میں میرے لیے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کون سا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے؟“ فرمایا: { جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کر سکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر } }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11131:ضعیف]
ابوداؤد میں ہے { سیدنا نجیع عامری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ”ہمارے لیے مردار کا کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے؟ } اس نے کہا ”صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا { یہی ہے اور کون سی بھوک ہو گی؟ } } ۱؎ [سنن ابوداود:3817،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
پس اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لیے ان پر مردہ حلال کر دیا گیا، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
{ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حرام کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کر سکے اور جب تک ان کا سامان نہ آ جائے } }۔ ۱؎ [طبرانی کبیر:11129:مرسل و ضعیف]
{ ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال حرام کا سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہو جائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہو جائے } اس نے پھر دریافت کیا کہ ”وہ محتاجی کون سی جس میں میرے لیے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کون سا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے؟“ فرمایا: { جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کر سکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر } }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:11131:ضعیف]
ابوداؤد میں ہے { سیدنا نجیع عامری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ”ہمارے لیے مردار کا کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے؟ } اس نے کہا ”صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا { یہی ہے اور کون سی بھوک ہو گی؟ } } ۱؎ [سنن ابوداود:3817،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
پس اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لیے ان پر مردہ حلال کر دیا گیا، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ { ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہوگئی تھی، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑ گئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کر دیا، آخر اونٹنی مر گئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سکھا لو، ہم بھوکوں کو کام آ جائے گا، اس بزرگ نے جواب دیا، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا، ہاں اگر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو؟ } جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { پھر تم کھا سکتے ہو }۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3816،قال الشيخ الألباني:حسن]
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو؟ } جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { پھر تم کھا سکتے ہو }۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3816،قال الشيخ الألباني:حسن]
یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے، جیسے سورۃ البقرہ میں ہے آیت «فَـمَنِ اضْـطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَـيْهِ نَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» ۱؎ [2۔ البقرہ:173] ’یعنی وہ شخص بے قرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے‘۔
اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں، اس لیے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے، جیسے سورۃ البقرہ میں ہے آیت «فَـمَنِ اضْـطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَـيْهِ نَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» ۱؎ [2۔ البقرہ:173] ’یعنی وہ شخص بے قرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے‘۔
اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں، اس لیے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔