ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأحزاب (33) — آیت 5
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے دوست ہیں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمھارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناه نہیں، البتہ گناه وه ہے جس کا تم اراده دل سے کرو۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 5) ➊ { اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ:} یعنی جو متبنٰی بنائے جا چکے ہیں اب انھیں ان کے باپوں ہی کی نسبت سے پکارو۔ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل باپ کے سوا کسی دوسرے باپ کی طرف منسوب کرنے سے منع کر دیا اور اس کی سخت وعید بیان فرمائی، چنانچہ زید رضی اللہ عنہ کو بھی زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: [أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوْهُ إِلاَّ زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتّٰی نَزَلَ الْقُرْآنُ: «{ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ] [بخاري، التفسیر، باب: «‏‏‏‏أدعوھم لآبائھم…» ‏‏‏‏: ۴۷۸۲] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) زید بن حارثہ کو ہم زید بن محمد ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن اترا: «{ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَيْرِ أَبِيْهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيْهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ] [بخاري، الفرائض، باب من ادعٰی إلیٰ غیر أبیہ: ۶۷۶۶] جس شخص نے اپنے باپ کے غیر کی طرف اپنی نسبت کی اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں، تو اس پر جنت حرام ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِ كُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيْهِ فَهُوَ كُفْرٌ] [بخاري، الفرائض، باب من ادعی إلی غیر أبیہ: ۶۷۶۸] اپنے باپوں سے بے رغبتی مت کرو، کیونکہ جس نے اپنے باپ سے بے رغبتی کی تو یہ کام کفر ہے۔ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرٰی أَنْ يَّدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلٰی غَيْرِ أَبِيْهِ، أَوْ يُرِيَ عَيْنَهُ مَا لَمْ تَرَ، أَوْ يَقُوْلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ] [بخاري، المناقب، باب: ۳۵۰۹] سب سے بڑے بہتانوں میں سے یہ بات ہے کہ آدمی اپنی نسبت اپنے باپ کے غیر کی طرف کرے، یا اپنی آنکھوں کو وہ دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھا (خواب گھڑ کر سنائے) یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ بات کہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔
➋ { هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ: اَقْسَطُ } اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منہ بولا بیٹا بنانے والے کی طرف باپ ہونے کی نسبت کرنا بھی قسط (انصاف) ہے، ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت زیادہ انصاف ہے۔ اس کا جواب شعراوی نے یہ دیا ہے کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے باپ پر ترجیح دے کر آپ کے پاس رہنا پسند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بیٹے جیسی سعادت دیکھ کر اسے بیٹا بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت کو { اَقْسَطُ } کہہ کر دوسرے کی طرف نسبت سے منع فرما دیا، کیونکہ حق یہی ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات ہی فرماتا ہے۔
➌ {فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ مَوَالِيْكُمْ: مَوَالِيْ مَوْلٰي} کی جمع ہے، یہاں اس سے مراد دوست ہیں۔ یعنی اگر ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں۔ کسی کی طرف نسبت کے بجائے انھیں {يَا أَخِيْ، يَا مَوْلَايَ} (اے میرے بھائی، اے میرے دوست) کہہ کر پکارو۔
➍ { وَ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ …:} یعنی ممانعت سے پہلے تم منہ بولے بیٹوں کو ان کے پرورش کرنے والوں کا بیٹا کہتے رہے، یا کسی کو علم نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ دیا، یا بلا ارادہ زبان سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ بیٹھے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ گناہ تو اس میں ہے کہ ممانعت کے بعد دیدہ و دانستہ کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کا بیٹا کہو۔ تمھاری خطا پر گناہ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اس نے خطا اور نسیان کو معاف فرما دیا ہے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ منہ بولے بیٹے بنانے کو ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیتے ہیں، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ منسوخ تو تب ہوتا جب وہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا۔ وہ تو اسلام سے پہلے کی ایک رسم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ختم فرمایا، اسے منسوخ نہیں کہا جا سکتا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

5-1اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کردی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہوجاؤ گی چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انھیں کی طرف انھیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انھیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ 5-2اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ 5-3یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہوگا، حدیث میں آتا ہے، ' جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا ٭٭
مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلاً ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔
بیان فرمایا کہ ’ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہو جاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنا لینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہو جاتا ‘۔
اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہد دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی۔ جیسے فرمایا «مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا» ۱؎ [58-المجادلة:3]‏‏‏‏ ’ ایسا کہہ دینے سے وہ مائیں نہیں بن جاتیں، مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں ‘۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ ’ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں ‘۔
یہ آیت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنا رکھا تھا۔ انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا۔
اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت «مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا» ۱؎ [33-الأحزاب:40]‏‏‏‏، ’ تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے ‘۔
یہاں فرمایا ’ یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے ‘۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل و فہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کر دی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ خطرہ گزرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3199، قال الشيخ الألباني:ضعیف الاسناد]‏‏‏‏
زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔‏‏‏‏ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ»
پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کر دیا ہے اور فرما دیا ہے کہ ’ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کر کے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے ‘۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم زید کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح بخاری:4782]‏‏‏‏
بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد سہلہ بنت سہل رضی اللہ عنہا حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتی ہیں کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کر دیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آ جاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حذیفہ رضی اللہ عنہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہو جاؤگی } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1453]‏‏‏‏
الغرض یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی حلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لیے بیان فرما دی۔ اور جب زید رضی اللہ عنہا نے اپنی بیوی صاحبہ زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا نکاح ان سے کر لیا «لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا» ۱؎ [33-الأحزاب:37]‏‏‏‏ اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت «وَحَلَاىِٕلُ اَبْنَاىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ» [4-النساء:23]‏‏‏‏ یعنی ’ تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں ‘۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔
جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہو جاتے ہیں }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:2645]‏‏‏‏ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہدینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں۔
مسند احمد وغیرہ میں ہے، { سیدنا ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کر دیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا } }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:1940، قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏ یہ واقعہ سنہ ١٠ ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ ۸ ھجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔
صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ { انس رضی اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2151]‏‏‏‏
اسے بیان فرما کر کہ ’ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں ‘۔
{ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرۃ القضاء والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا چچا کہتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوڑیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے کر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہے انہیں اچھی طرح رکھو۔‏‏‏‏ سیدنا زید اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہم فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے۔‏‏‏‏ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی، سیدنا علی رضی اللہ عنہا نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔‏‏‏‏ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ { صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے }۔ سیدنا علی رضی اللہ سے فرمایا: { تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں }۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے }، حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4251]‏‏‏‏ اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں۔
سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو }۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔‏‏‏‏ ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ!اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح بخاری:3508]‏‏‏‏
حدیث شریف میں ہے کہ { جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:35080]‏‏‏‏ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔
پھر فرماتا ہے ’ جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں ‘۔
چنانچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں کہیں «رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا» ۱؎ [2-البقرة:286]‏‏‏‏ ’ اے اللہ! ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ ‘۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عزاسمہ نے فرمایا ’ میں نے یہ دعاقبول فرمائی ‘ }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:126]‏‏‏‏
صحیح بخاری شریف میں ہے { جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:7352]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے در گزر فرما لیا ہے }۔ ۱؎ [سنن ابن ماجه:2043، قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ’ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمداً کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں ‘۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ { باوجود جاننے کے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3508]‏‏‏‏
آیت قرآن جو اب تلاوتاً منسوخ ہے اس میں تھا «أَنْ لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ» یعنی ’ تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے ‘۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رجم کیا (‏‏‏‏یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا) اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔‏‏‏‏
{ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا } }۔ ۱؎ [مسند احمد:47/1:صحیح]‏‏‏‏ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔
اور حدیث میں ہے { تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں، نسب میں طعنہ زنی، میت پر نوحہ، ستاروں سے باران طلبی }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:934]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل