تاجر اور مقروض کو نصیحت
انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ میانہ روی اختیار کرے، قرض لینے سے بچے اور اس پر خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قرض سے محفوظ رکھے، اگر قرض لینے کی ضرورت پیش آجائے تو ادا کرنے کی نیت رکھے اور ادا کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”جس نے لوگوں کا مال لیا اور وہ ادا کرنے کی نیت رکھتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ادا کر دے گا، اور جس نے وہ مال تلف کرنے کی نیت سے لیا تو اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا۔“
لہٰذا اچھی نیت رکھے، ضرورت کے بغیر قرض نہ لے اور بہ کثرت قرض نہ لے کیونکہ جب بوجھ زیادہ ہو جائے تو انسان کبھی اسے ادا کرنے سے عاجز بھی آجاتا ہے، اس لیے اپنے تمام معاملات: کھانے پینے اور پہننے میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے تاکہ انسان کو بہت زیادہ قرض کی ضرورت پیش نہ آئے، جب قرض لینا ضروری ہو جائے تو اچھی نیت کے ساتھ قرض ادا کرنے کے اسباب ڈھونڈنے چاہیے، جب فروانی آجائے تو فورا قرض ادا کر دینا چاہیے اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیے، یعنی آدمی کی اچھی نیت ہونی چاہیے کہ وہ قرض اتارنے کے لیے محنت سے کام کر رہا ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 289/19]